چین میں کاسمیٹک سرجری کا بڑھتا ہوا رجحان: ’میں یہ بات یقینی بنانا چاہتی ہوں کہ اچھے کلینک جاؤں کیونکہ یہ میرا چہرہ ہے‘

وائے یپ - بی بی سی نیوز


کاسمیٹک سرجری

’شہر میں بہت سارے کلینکس ہیں لیکن میں اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہوں کہ میں اچھے کلینک میں جاؤں۔ یہ میرا چہرہ ہے جس کے بارے میں ہم بات کر رہے ہیں۔‘

اپنے بہت سے ساتھیوں کی طرح 23 برس کی رکسن بھی سوشل میڈیا کا استعمال تو کرتی ہیں لیکن وہ کسی بہت خاص چیز کی تلاش میں ہیں اور وہ ہے کاسمیٹک سرجری کے بارے میں معلومات۔

رکسن اپنی آنکھوں کی کاسمیٹک سرجری کرانا چاہتی ہیں جس سے وہ امید کرتی ہیں کہ ان کی آنکھیں بڑی نظر آئیں گی۔

گوانکو میں رہنے والی رکسن روزانہ گینگ مئی نامی ایپ کا استعمال کرتی ہیں تاکہ مناسب سرجن کو تلاش کیا جا سکے۔

چینی زبان میں لفظ ’گینگ مئی‘ کا مطلب ہے ’زیادہ خوبصورت‘ اور چین میں یہ سماجی رابطوں کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو کاسمیٹک سرجری کے بارے میں ہے۔ اس ایپ کو استعمال کرنے والے صارفین ہر طرح کی پلاسٹک سرجری کے بارے میں اپ ڈیٹس دیتے رہتے ہیں۔

اس ایپ پر علاقے، علاج اور کلینک کی بنیاد پر فلٹر کر کے معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔

سرجری ایپس

Gengmei/So-young

سنہ 2013 میں گینگ مئی کی لانچ کے بعد اس کے صارفین کی تعداد دس لاکھ سے بڑھ کر اب تین کروڑ 36 لاکھ ہو چکی ہے۔

اسی طرح کاسمیٹک سرجری کے ایک اور پلیٹ فارم ’سو ینگ‘ کے سنہ 2018 میں فعال صارفین کی تعدا 14 لاکھ تھی جو اب 84 لاکھ ہو چکی ہے۔

ان پلیٹ فارمز کی مقبولیت اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ چین میں کاسمیٹک سرجری کی جانب رحجانات میں تبدیلی آ رہی ہے اور دنیا بھر میں امریکہ کے بعد کاسمیٹک سرجری کے اب سب سے زیادہ آپریشن چین میں کیے جاتے ہیں۔

ملٹی نیشنل کمپنی ڈیلوئٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق چین میں سنہ 2019 میں اس مارکیٹ کی قیمت چار سال میں تقریباً 177 ارب یوان (27.3 ارب ڈالر) ہو گئی ہے یعنی 28.7 فیصد سالانہ شرح نمو جو عالمی سطح سے 8.2 فیصد زیادہ ہے۔

گلوبل ٹائمز کے مطابق اگر ایسا جاری رہتا ہے تو اس دہائی کے وسط تک چین دنیا میں کاسمیٹک سرجری کی سب سے بڑی مارکیٹ بن جائے گا۔

چین میں ماضی میں اس بارے میں بات کرنا ممنوع سمجھا جاتا تھا لیکن سنہ 1996 کے بعد پیدا ہونے والی نسل اس طرح کی سرجری کرانے اور اس بارے میں بات کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتی۔

رکس جو فیشن مارکیٹ میں کام کرتی ہیں، نے بتایا کہ ان کے دوست ’کاسمیٹک سرجری کرانے کے بارے میں کھلے عام بات کرتے ہیں۔‘

’حتیٰ کہ اگر لوگ اس کی تشہیر نہ بھی کریں کہ انھوں نے کچھ کرایا ہے اور اگر آپ ان سے اس بارے میں پوچھ لیں تو وہ اس کی تردید نہیں کریں گے۔‘

مزید ضابطے کی ضرورت

تاہم چین میں کاسمیٹک سرجری کے عروج کے کچھ نقصان بھی ہیں۔

گلوبل ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2019 میں چین میں پلاسٹک سرجری کے 60 ہزار سے زیادہ ایسے کلینک تھے جن کے پاس لائسنس نہیں تھا۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ کلینک ہر سال ہونے والے 40 ہزرا کے قریب ’میڈیکل حادثوں‘ کے ذمہ دار تھے۔

ایک انتہائی مشہور کیس میں اداکارہ گاؤ لیاؤ نے کاسمیٹک سرجری کی آن لائن تصاویر شیئر کیں جس کی وجہ سے ان کی ناک کی نوک کے ٹشو تباہ ہو گئے۔

انھوں نے کہا کہ اسے ٹھیک کرانے کے لیے انھیں مزید سرجری کی ضرورت ہو گی تاہم اس پیچیدگی کی وجہ سے ان کا پہلے ہی چار لاکھ یوان کا خرچہ ہو چکا تھا۔

دوسری جانب ان کے معالج کو چھ ماہ کے لے معطل کر دیا گیا اور متعلقہ ہسپتال کو 49 ہزار یوان جرمانہ کیا گیا۔

تاہم انٹرنیٹ پر بہت سے صارفین نے لکھا کہ یہ سزا کافی نہیں۔

ایک صارف نے لکھا: ’کیا کسی کو معذور کرنے کی سزا یہ ہے‘ جبکہ ایک اور صارف نے اس انڈسٹری کو بہتر بنانے کا مطالبہ کیا۔

گذشتہ ماہ چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن نے بغیر لائسنس کاسمیٹک سرجری کرنے والوں کو نشانہ بنانے والی ایک مہم کا اعلان کیا، جس میں صارفین کی شکایات کی تیزی سے جانچ پڑتال بھی شامل ہے۔

آخر خطرہ کیوں مول لیا جائے؟

ماہرین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’چین میں بہت سے لوگ شکلوں کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور ’خوبصورت بننے‘ کی یہ تلاش کاسمیٹک سرجری کے رجحان کو فروغ دے رہی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

’چینی خواتین کی اولین پسند ایک ستواں ناک‘

ناک پتلا کروانے والی سرجری جس نے خوبرو اداکارہ کا چہرہ بھیانک بنا دیا

کاسمیٹک سرجری کے غیر منظم کورس جو صرف چند گھنٹوں پر مشتمل ہوتے ہیں

لڑکی، چین

ہانگ کانگ یونیورسٹی میں جینڈر سٹڈیز کی پروفسیر ڈاکٹر پرینڈا ایلگری کہتی ہیں کہ ’دوسروں کے خیالات کی حامی بھرنے یا ہاں میں ہاں ملانے سے ایک شخص صرف رومانوی اعتبار سے ہی نہیں بلکہ نوکری میں بھی پُرکشش بن جاتا ہے۔‘

چین میں ملازمت کے لیے درخواست دیتے ہوئے اکثر تصویر بھی جمع کرانا ہوتی ہے۔ ملازمت کے چند اشتہارات میں جسمانی خدوخال کا بھی تذکرہ کیا جاتا ہے، حتیٰ کہ اگر نوکری کرنے کے لیے ان خدوخال کی ضرورت نہ بھی ہو تو بھی ایسا کیا جاتا ہے۔

چین میں ملازمت کے اشتہاروں میں جنس پرستی کے اس معاملے کو اجاگر کرنے کے لیے سنہ 2018 کی ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ میں ایسی مثالوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔ جیسے کپڑوں کی فروخت کے لیے ’جمالیاتی لحاظ سے خوشگوار‘ امیدوار اور ایک ’فیشن کرنے والی اور خوبصورت‘ ٹرین کنڈکٹر کی تلاش ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے ملازمت کے نئے مواقع کی وجہ سے، جو زیادہ تر شکل و صورت کی بنا پر دیے جاتے ہیں، پہلے سے کہیں زیادہ ظاہری شکل پر دھیان دیا جانے لگا ہے۔

گینگ مئی کے نائب صدر وینگ جو نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایک خاص حد تک، خوبصورتی کرئیر کے زیادہ مواقع دستیاب کرتی ہے، مثال کے طور پر لائیو سٹریمنگ اور آن لائن ویڈیو مواد پیدا کرنے میں مونٹائزیشن(کمائی کا ذریعہ) ہے۔‘

تاہم گینگ مئی کا کہنا ہے کہ وہ اپنے پلیٹ فارمز پر صرف لائنس یافتہ اداروں/ڈاکٹرز کے ساتھ کام کرتے ہیں۔

چین

’خوبصورتی سے بدصورتی تک‘

چین کا ٹیبلائیڈ کلچر (سنسنی خیز خبریں شائع اور نشر کرنے کا کلچر) بھی کافی ظالمانہ ہے۔ اخبارات گاہے بگاہے سلیبریٹیز کو ان کی ظاہری شخصیت کی بنا پر تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔

رواں برس کے آغاز پر، شنگھائی کی ایک آرٹ گیلری نے ایک ایسی نمائش کا اہتمام کیا جس میں خواتین کی تصاویر کو خوبصورت اور بدصورت ہونے کی بنیاد پر رینک کیا گیا۔

بیجنگ میں کام کرنے والی ایک فوٹوگرافر لو یوفان نے بی بی سی کو بتایا کہ جب بات لُکس کی آتی ہے تو لوگ سیدھی سیدھی بات کرتے ہیں۔ لو کاسمیٹک سرجری پر ایک کتاب لکھ رہی ہیں۔

29 سالہ فوٹو گرافر بتاتی ہیں کہ ’میرے رشتہ دار مجھے کہتے تھے کہ میں ٹی وی اداکارہ کی طرح دکھتی ہوں۔ خوبصورت ہیروئن کی طرح نہیں بلکہ اس معاون اداکارہ کی طرح جو مزاحیہ رول کرتی ہے۔‘

’جب میں مڈل سکول میں تھی تو وہاں لڑکے ایسے لڑکیوں کی رینکنگ کرتے تھے جو ان کے خیال میں کلاس کی بدصورت ترین لڑکیاں تھیں۔ لڑکے مجھے کہتے کہ اس رینکنگ میں میرا نمبر پانچواں تھا۔‘

اپنے پراجیکٹ کے سلسلے میں لو 30 کاسمیٹک سرجری کلینکس کا دورہ کر چکی ہیں۔ وہ مزید بتاتی ہیں کہ وہاں موجود اس کام کے ماہر افراد انھیں یہ مشورہ دینے سے کبھی نہیں چوکتے کہ میرا چہرہ کیسے مزید بہتر ہو سکتا ہے۔

’وہ اتنے قائل کرنے والے انداز میں بات کرتے ہیں کہ بعض اوقات مجھے نہ کہنے میں مشکل پیش آتی ہے، اس کے علاوہ میرے پاس اس کام کو کروانے کے لیے پیسے بھی نہیں ہیں۔‘

ریکسن کے لیے آپریشن کا خرچ مشکل نہیں ہے اور یہ انھیں 300 سے 1200 ڈالر میں پڑا ہے۔ مگر ابھی یہ پہلا قدم ہے۔

’اگر یہ پہلا مرحلہ ٹھیک سے مکمل ہو جاتا ہے تو میں مزید آگے بڑھوں گی۔ کون ہے جو خوبصورت نہیں ہونا چاہتا؟‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32487 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp