انڈیا میں بین المذاہب شادیاں اور ’لو جہاد‘: ’آپ کی بیٹی مسلمان لڑکے سے شادی کرنے جا رہی ہے، اس بارے میں معلوم کریں‘


شادی
ممبئی کی ایک ہندو لڑکی نے پولیس میں شکایت درج کرائی ہے کہ انھیں ایک مسلمان لڑکے سے شادی کے فیصلے کے بعد سے دھمکی آمیز فون کالز موصول ہو رہی ہیں۔ لڑکی کے مطابق دھمکی آمیز فون کالز کی وجہ سے اُن کا پورا خاندان ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔

31 برس کی سناینہ (نام تبدیل کیا گیا ہے) نے بی بی سی مراٹھی کو فون پر بتایا کہ ’مجھے اور میرے خاندان کے افراد کو دھمکی آمیز کالز موصول ہو رہی ہیں، نامعلوم افراد کے خطوط آ رہے ہیں اور میرے والد کو ورغلایا جا رہا ہے۔‘

یہ بتاتے ہوئے سناینہ کی آواز میں خوف واضح تھا۔

سناینہ کے مطابق وہ یہ شادی اپنی مرضی سے کر رہی ہیں لیکن کچھ لوگ ان کی شادی کی مخالفت کر رہے ہیں۔

اس حوالے سے ممبئی حوالے سے ممبئی پولیس کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

اس معاملے پر سوشل میڈیا پر بھی کافی بحث شروع ہو گئی ہے۔ عام آدمی پارٹی کی رہنما پریتی شرما مینن نے اپنی ٹویٹ میں لکھا: ’یہ دھمکی آمیز ہے۔ ہندو نواز غنڈے ایک عورت کی بین المذہبی شادی کی درخواست پر دھمکیاں دے رہے ہیں۔‘

پریتی سوال کرتی ہیں کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ (دھمکی دینے والوں کو) اس لڑکی کے بارے میں معلومات کہاں سے حاصل ہوئی ہیں۔

شادی

شادی کی درخواست کے بعد دھمکیاں

سناینہ نے 14 جون کو ممبئی کے کھار علاقے میں میرج رجسٹریشن آفس میں خصوصی شادی ایکٹ کے تحت شادی کے لیے اپنی درخواست جمع کروائی تھی۔ سناینہ کے مطابق درخواست جمع کروانے کے اگلے ہی دن ان کے گھر پر دھمکی آمیز فون کالز اور خطوط آنے شروع ہو گئے۔

سناینہ نے بتایا کہ ’اس درخواست کے اگلے ہی دن یعنی 15 جون کو میرے والد کو ایک گمنام خط بھی موصول ہوا، جس میں لکھا تھا کہ آپ کی بیٹی اس تاریخ کو ایک مسلمان لڑکے سے شادی کرنے جا رہی ہے، اس بارے میں معلوم کریں۔‘

سناینہ نے بتایا کہ یہ خط میراٹھی میں لکھا گیا تھا اور خط بھیجنے والے کے پاس اُن کے بارے میں مکمل معلومات تھیں۔

’لکھا تھا کہ مسلمان لڑکے ہندو لڑکیوں سے شادی کرتے ہیں اور انھیں سعودی عرب میں فروخت کر دیتے ہیں۔ ابھی وقت ہے، آپ اپنی بچی کو بچا سکتے ہیں۔‘

سناینہ کے مطابق خط میں ان کے والد کو خبردار کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سناینہ نے شادی رجسٹریشن کے دفتر فون کیا جہاں سے انھیں بتایا گیا کہ ’جب آپ خصوصی شادی ایکٹ کے تحت اندراج کرتے ہیں تو اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں لہذا ان پر توجہ نہ دیں۔‘

میں نے دروازہ کھولا۔۔۔‘

سناینہ نے کہا کہ ہم شادی کی درخواست دینے کے بعد اس واقعے کو بھول گئے۔ میرے والد نے میرے ہونے والے شوہر سے ملاقات کی اور انھیں بھی وہ پسند آئے۔

’لیکن منگل 13 جولائی کو جب میں نے گھر کا دروازہ کھولا تو میں نے دیکھا کہ تین افراد مجھے مسلمان لڑکے سے شادی نہ کرنے پر راضی کرنے آئے تھے۔‘

’انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ میرے والد سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے انھیں واپس جانے کے لیے کہا لیکن وہ جانے کو تیار نہیں تھے۔‘

وہ کہتی ہیں ’میں 31 برس کی ہوں، میں بالغ ہوں، اپنے فیصلے خود کر سکتی ہوں تو ایسی صورتحال میں کون مجھے دھمکا سکتا ہے کہ مجھے کس سے شادی کرنا ہے۔‘

شادی

رشتہ داروں کی فون کالز

سناینہ نے مزید بتایا ’ہمیں گجرات اور کولکتہ میں رہنے والے اپنے رشتہ داروں کی طرف سے بھی فون آ رہے ہیں۔ جو لوگ میری شادی کی مخالفت کر رہے ہیں، انھوں نے ہمارے بہت سے جاننے والوں کو بھی اس بارے میں آگاہ کیا ہے۔‘

’میرے والد کو سمجھایا جا رہا ہے کہ بیٹی کو گھر سے نکال دیا جائے۔ میرے والد سکیولر ذہن کے مالک ہیں۔ انھوں نے میری شادی کی مخالفت نہیں کی لیکن اس واقعے کے بعد وہ بہت خوفزدہ ہو گئے ہیں۔‘

اب سناینہ کو بھی فکر ہے کہ ان کی شادی کا کیا بنے گا۔ انھوں نے کہا ’میرے والدین بہت خوفزدہ ہیں، ان کی صحت بگڑ رہی ہے۔ ان پر بہت دباؤ ہے۔‘

پولیس کو شکایت

ممبئی کے کھار پولیس سٹیشن میں دی جانے والی اپنی شکایت پر سناینہ نے کہا ’میں نے پولیس کو مکمل معلومات دی ہیں، میرے گھر آنے والے لوگوں کے بارے میں شکایت کی ہے، میرے والدین بھی پریشان ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ آگے کیا ہو گا؟ میں شادی کیسے کروں گی؟‘

ممبئی میں کام کرنے والی تنظیم ’رائٹ ٹو لو‘ کی دیپتی نتن ویئر کے مطابق خصوصی شادی ایکٹ کے تحت دی گئی درخواستوں کو عام نہیں کیا جانا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے

’لو جہاد‘ قانون کا پہلا شکار: ’میں بے گناہ ہوں، لڑکی سے کوئی تعلق نہیں‘

’گھر والوں کو منانے کی کوشش کی لیکن وہ ہندو مرد سے شادی کے خلاف تھے‘

انڈین سپریم کورٹ نے ’لّو جہاد‘ کی شادی بحال کر دی

انھوں نے کہا کہ ’30 دن کا نوٹس بین المذہبی شادی کے لیے طویل عرصہ ہے۔ شادی رجسٹریشن آفس اس بارے میں ایک پبلک نوٹس جاری کرتا ہے جبکہ درخواست دہندگان کو تحفظ فراہم کرنے کا کوئی بندوبست نہیں۔‘

تنظیم ’رائٹ ٹو لوو‘ کے مطابق وہ گذشتہ کچھ برسوں سے ایسی شادیوں کے خواہشمند افراد کو آن لائن نوٹس دلانے کی کوشش کر رہی ہے۔‘

دیپتی کے مطابق ’اگر یہ نوٹس شادی شدہ جوڑے کو براہ راست بھیجا جاتا ہے تو ان کی ذاتی معلومات دوسرے لوگوں تک نہیں پہنچ پائیں گی۔ ان کے نام اور ایڈریس بھی عام ہونے کا خطرہ ہے۔‘

پچھلے چھ برسوں میں تنظیم ’رائٹ ٹو لوو‘ نے خصوصی شادی ایکٹ کے تحت کئی شادیاں کرائی ہیں۔

شادی

خصوصی شادی ایکٹ کیا ہے؟

انڈیا کی پارلیمان سے پاس ہونے والے خصوصی شادی ایکٹ 1954 کے مطابق:

  • دو مختلف مذاہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب کو تبدیل کیے بغیر شادی کر سکتے ہیں
  • شادی کرنے کے لیے آپ کو حکومت کے شادی رجٹریشن دفتر میں 30 دن پہلے درخواست دینا ہو گی
  • ملک میں رہنے والے ہر فرد پر یہ قانون لاگو ہوتا ہے
  • شادی کے لیے لڑکے کی عمر 21 برس جبکہ لڑکی کا 18 سال کا ہونا لازمی ہے
  • اگر درخواست جمع کرانے کی تاریخ سے 30 دن کے اندر کوئی اعتراض موصول ہوتا ہے تو میرج رجسٹریشن آفس کے ملازمین ان اعتراضات کی جانچ پڑتال کرتے ہیں
  • اگر یہ اعتراضات درست ثابت ہوں تو شادی کی اجازت نہیں ہوتی

بین المذہبی شادیوں کی مخالفت

انڈیا میں بین المذاہب شادیاں تنازع کا باعث بنتی ہیں اور عام طور پر انھیں معاشرتی پہچان بھی نہیں ملتی۔

ایک مسلمان لڑکے اور ہندو لڑکی کی شادی کو عام طور پر ’لو جہاد‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور اسے سیاسی طور پر بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔

انڈین ریاست اترپردیش نے حال ہی میں ’جبر‘ یا ’دھوکہ دہی‘ کے ذریعے مذہب کی تبدیلی کے خلاف قانون منظور کیا تھا۔ ’لو جہاد‘ قانون کے تحت جرم ثابت ہونے پر ملزم کو دس قید تک کی سزا ہو سکتی ہے جبکہ یہ جرائم ناقابلِ ضمانت ہیں۔

مدھیہ پردیش حکومت نے بھی کہا ہے کہ وہ بین المذہبی شادیوں کے معاملے پر ایک خصوصی قانون متعارف کرائے گی۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32499 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp