افغانستان کا پاکستانی فضائیہ پر طالبان کی سپورٹ کا الزام: ’پاکستان نے صرف اپنی حدود میں اپنے عوام اور فوجیوں کی حفاظت کے لیے ضروری اقدامات کیے‘


امراللہ
امر اللہ صالح
افغانستان کے نائب صدر امر اللہ صالح نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں پاکستانی فضائیہ کے حوالے سے اپنے گذشتہ روز کے بیان پر پاکستانی ردعمل کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’پاکستان تو بیس سال تک کوئٹہ شوریٰ یا طالبان دہشتگرد رہنماؤں کی اپنی سرزمین پر موجودگی سے بھی انکار کرتا رہا ہے۔‘

افغانستان کے نائب صدر نے کہا ہے کہ ’جو لوگ اس پیٹرن سے واقف ہیں، افغان یا غیر ملکی، انھیں صحیح سے معلوم ہے کہ (پاکستان کا) تریدی بیان ایک پہلے سے لکھا گیا پیراگراف ہے جسے بس شیئر کیا گیا ہے۔‘

افغانستان کے نائب صدر امر اللہ صالح نے گذشتہ روز ٹوئٹر پر ایک پیغام میں دعویٰ کیا تھا کہ پاکستانی فضائیہ نے افغان فوج اور افغان فضائیہ کو سرکاری طور پر متنبہ کیا ہے کہ اگر طالبان کو افغان علاقے سپین بولدک سے بے دخل کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کوششوں کا جواب پاکستانی فضائیہ دے گی۔

نائب صدر کی جانب سے گذشتہ روز دیے گئے بیان کی تردید کرتے ہوئے پاکستان کے دفتر خارجہ نے جمعہ کی صبح ایک وضاحتی بیان جاری کیا ہے۔

واضح رہے کہ رواں ہفتے طالبان کے سپین بولدک کے علاقے میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک اہم تجارتی گزر گاہ ویش منڈی پر قبضہ کیا تھا اور باب دوستی کے مقام پر اپنا پرچم بھی لہرایا تھا۔ یہ علاقہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک اہم تجارتی گزرگاہ ہے جو افغانستان کے دوسرے بڑے شہر قندھار اور جنوب مغربی صوبوں کو پاکستان سے جوڑتی ہے۔

پاکستانی دفتر خارجہ نے اس پورے واقعے کا پس منظر بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ (طالبان کے قبضے کے بعد) افغان حکومت نے پاکستان کو آگاہ کیا تھا کہ وہ چمن سے متصل اپنی علاقے کے اندر ایک فضائی کارروائی کرنا چاہتے ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکستانی حکومت نے افغان حکومت کے اپنے علاقوں میں کارروائیاں کرنے کے حق پر مثبت ردعمل ظاہر کیا، اگرچہ بین الاقوامی روایات کے تحت اس قدر قریبی بارڈر پر آپریشنز کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ تاہم دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے صرف اپنی حدود میں اپنے عوام اور فوجیوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کیے تھے۔

پاکستانی وفتر خارجہ کا مزید کہنا ہے کہ ’ہم افغان حکومت کے اپنے خود مختار علاقوں کے اندر کسی قسم کی بھی کارروائیاں کرنے کے حق کو تسلیم کرتے ہیں۔ تاہم جیسا کہ افغان نائب صدر کی جانب سے کہا گیا ہے پاکستانی فضائیہ نے افغان فضائیہ کو کچھ ایسا نہیں کہا۔ ایسے بیانات افغانستان میں افغان سرپرستی میں کیے جانے والے حل کے لیے پاکستان کی کوششوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔‘

دفترِ خارجہ نے مزید کہا کہ ’پاکستان نے حال ہی میں تمام رینک کے 40 اے این ڈی ایس ایف اہلکاروں کو بچایا ہے جو کہ فرار ہو کر پاکستان آ گئے تھے اور انھیں عزت اور احترام کے ساتھ گیورا لوٹا دیا تھا اور ساتھ میں اے این ڈی ایس ایف کو تمام تر لاجسٹیکل سپورٹ فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی۔ ہم افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں اور اس سلسلے میں دشمنوں کی کوششوں کے باوجود اپنی کاوش جاری رکھیں گے۔‘

یہ بھی پڑھیے

دو دہائیوں تک امریکہ کا مقابلہ کرنے والے طالبان کے ذرائع آمدن کیا ہیں؟

چمن سے متصل افغان علاقے میں طالبان کی موجودگی: ‘بابِ دوستی’ سے آمد و رفت بند

افغانستان کے کون سے حصے طالبان کے کنٹرول میں ہیں اور کہاں قبضے کے لیے لڑائی جاری ہے؟

طالبان کی جانب سے ویش منڈی پر قبضے کے بعد پاکستان، افغانستان بارڈر کو بند کر دیا گیا تھا۔ طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان کے نائب صدر امر اللہ صالح نے اس حوالے سے ایک دعویٰ کیا تھا جس میں انھوں نے پاکستانی فضائیہ پر طالبان کو سپورٹ فراہم کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

ان کا دعویٰ تھا کہ پاکستانی فضائیہ کچھ علاقوں میں اب طالبان کو فصائی سپورٹ فراہم کر رہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ بدغس کے صوبائی مرکز قلعہ نوع میں افغان آرمی نے حملہ آور طالبان کے لیے اس جگہ کو ایک ’کل زون‘ بنا دیا تھا اور آج طالبان نے برادری کے عمائدین کی مدد سے جنگ بندی کروائی ہے تاکہ وہ اپنی لاشیں جمع کر سکیں۔

اس کے علاوہ انھوں نے کہا کہ ہمارے بہادر کمانڈوز نے چکانسور ضلع میں تمام طالبان کو قتل کر کے 10 اے پی سیز واپس حاصل کر لی ہیں جو کہ گذشتہ ہفتے طالبان کے قبضے می گئی تھیں۔ اب بس کچھ وقت ہی باقی ہے۔ افغانستان اب بہت بڑا ہو چکا ہے کہ پاکستان اسے نہیں نگل سکتا۔

اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر شدید ردِعمل سامنے آیا جس پر امر اللہ صالح نے یہ بھی کہا کہ ’اگر کسی کو پاکستانی فضائیہ کے حوالے سے میری ٹوئٹس پر شک ہے تو میں انھیں ڈائریٹک میسج کے ذریعے شواہد بھیج سکتا ہوں۔ سپین بولدک سے دس کلومیٹر دور افغان طیاروں کو متنبہ کیا گیا کہ وہ پیچھے ہٹ جائیں یا میزائلوں کا سامنا کریں۔ افغانستان اب نگلا نہیں جا سکتا۔‘

تاہم پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اب ان تمام معاملات کی تردید کر دی ہے۔

اس سے قبل بدھ کے روز پاکستان میں صوبہ بلوچستان کے وزیرِ داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ پاکستان کے سرحدی شہر چمن سے متصل افغان علاقے ویش منڈی میں طالبان موجود ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ پاکستان کی سرحد کے اس پار افغان علاقے میں طالبان کے جھنڈے بھی نظر آ رہے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بلوچستان کے وزیر داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی سرحد کے اُس پار ہونے والی اس نئی پیش رفت کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان واقع سرحدی گزرگاہ ‘بابِ دوستی’ کو ہر قسم کی آمدورفت کے لیے بند کر دیا گیا ہے جبکہ اس علاقے میں سکیورٹی کو مزید سخت کر دیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ اس حوالے سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر افغان طالبان اور عام پاکستانی شہریوں کی جانب سے ریلیز کردہ چند ویڈیوز پوسٹ کی گئی تھیں جن میں ‘باب دوستی’ کے پار افغان علاقے میں موجود سکیورٹی چیک پوسٹ پر طالبان کا جھنڈا لہراتا نظر آ رہا تھا۔

بی بی سی پشتو کے نمائندے خدائے نور ناصر سے بات کرتے ہوئے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ طالبان نے ویش منڈی کا کنٹرول حاصل کیا ہے اور وہاں اپنا جھنڈا لہرایا ہے۔

باب دوستی

باب دوستی

طالبان کے ترجمان قاری یوسف احمدی نے بی بی سی پشتو کو بتایا تھا کہ انھوں نے ویش منڈی کے تاجروں اور عوام کو یقین دہانی کروائی ہے کہ جلد ہی اس علاقے میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والی تجارت اور ٹریفک کو بحال کر دیا جائے گا۔

مقامی صحافیوں سے موصول ہونے والی چند ویڈیو میں بعض افراد طالبان کی جانب سے ہونے والی اس پیش رفت پر خوشی کا اظہار کرتے بھی دکھائی دیے تھے۔ تاہم ان ویڈیو کی آزادانہ ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ سپین بولدک افغانستان کا چمن کے قریب ایک سٹریٹیجک علاقہ ہے اور یہ ویش منڈی سے شمال میں قندھار کی جانب اندازاً 12 سے 15کلو میٹر کے فیصلے پر واقع ہے۔

شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ بلوچستان سے افغانستان کے جنوب مغربی صوبوں اور وسط ایشائی ریاستوں کے درمیان ویش منڈی طورخم کی طرح ایک اہم گزرگاہ ہے۔ طورخم کی طرح یہاں سے افغانستان اور پاکستان کے درمیان روزانہ لوگوں اور گاڑیوں کی بڑی تعداد کی آمد و رفت ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp