قصہ ایک کتاب کی تقریب رونمائی کا: خوشحالی کی دستک



فیس بک کے دور میں ’بک‘ صفحہ صفحہ لکھنے والے کے خیال سے نکل کر وال پر تو آسانی سے منتقل ہو جاتی ہے مگر فیس ٹو فیس بلکہ ہاتھ سے ہاتھ میں آنے کے لیے اسے پبلشنگ اور رونمائی تک بہت سے کٹھن مراحل سے گزرنا ہوتا ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق کتاب کا لکھنے والے سے قارئین کے ہاتھوں تک آنے کا سفر کچھ یوں ہے جیسے آج کل کے دور میں شادی کے دوران دلہن کے آرائش گیسو اور تزئین جمال کی خاطر بیوٹی پارلر جانے سے لے کر پھولوں بھرے سٹیج تک پہنچنے کے مراحل طے کرنے ہوں یا پھر کم ازکم صفحہ شہود پر منتقل ہونے کے یہ مراحل کسی حاملہ کے بچہ پیدا کرنے کے برابر تو ہیں۔ تخلیق کے معاملات سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے زچہ کے لیے کسی ماہر طبی ادارے کلینک، طبیب یا طبیبہ کا انتخاب بہت اہم ہوتا ہے۔

آزاد مقابلے کی فضا میں اپنی اپنی سماجی حیثیت اور رتبے کے مطابق ہر خاندان کو ایسے تقدیر ساز فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ سر براہ یا لواحقین کو سوچنا پڑتا ہے کہ یہ سرکاری ہسپتال ہو گا؟ نیم سرکاری ہو گا کوئی ٹرسٹ، پرائیویٹ یا اس فہرست میں بھی نمبر ون یا حسب حال اس بات کا فیصلہ اپنی اپنی جیب دیکھ کر استطاعت کے مطابق کرنا ہوتا ہے۔ اول الذکر یعنی کتاب کی پیدائش میں یہ کردار پبلشنگ کے ادارے اور پبلشر کے متعلق ہوتا ہے جو ادیب یا شاعر کو اپنی استطاعت کے مطابق کرنا ہوتا ہے۔

خیر بچہ یا بچی پیدا ہونے کے بعد اس کی رسم عقیقہ بھی واجب ہے سو کتاب کی رونمائی بھی کچھ کچھ ایسی ہی ہوتی ہے۔ اگر اس خوشی کے موقع کو منایا نہ جائے تو کون جانے کہ یہ حسین عمل کہیں رونما ہو چکا ہے یا نہیں یعنی یہ بات کہ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا۔

سو اس تقریب رونمائی کی عینی شاہد بننے کی سعادت ما بدولت کو نصیب ہوئی۔

اس تقریب کا اہتمام ”خوشحال مرکز“ میں ہوا۔ کہا جا سکتا ہے یہ لاہور کا دل ہے پہلے پہل یہ دل چوبرجی ہوا کرتا تھا، چونکہ سیکرٹیریٹ سے قریب مقام دل کہلاتا ہے۔ اس حساب سے یہ مقام البتہ یہاں سے دور ہے اور اسے دل کہنے پر پر اصرار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ وحدت روڈ کے قریب ہے۔ سمجھ لیں شہر کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ اب دل تھوڑا پھیل گیا ہے یا اسے جگر بھی کہہ سکتے ہیں۔

”خوشحال مرکز“ جو مصطفی ٹاؤن میں تین قیوم بلاک پر واقع ہے۔ بذریعہ کریم کشاں کشاں اس وقت پہنچے جب حاضرین کی آمد کی ابتدا ہی ہوئی تھی۔ مرکز کے کشادہ صحن میں دائروں میں میز اور کرسیوں کا انتظام تھا۔

بعد از دعا اس تقریب رونمائی میں کسی اجنبی کی طرح ہم بھی سر جھکائے بیٹھے رہے۔ اجنبیت یوں کہ شناسا چہروں کی تعداد تو تھی مگر ایک قدرے روایتی ماحول میں، روایتی جھجک کہ سلام کرنا ہے، تعارف کیسے کیا جائے، اگر تین افراد بھی اپنی صنف یعنی صنف نازک کے ہوتے تو جماعت ہو جاتی اور تعارف اور سلام کے مراحل بخوبی طے ہو جاتے۔ حاضرین میں اکثریت مرد حضرات کی تھی۔ شدت سے احساس ہوا کہ آج کے روز ہم بھی مرد ہی ہوتے تو اتنے اکیلے سے نہ بیٹھے ہوتے۔

ایک زمانے میں یونیورسٹی کے میتھس کے ڈپارٹمنٹ میں خواتین کی تعداد اتنی ہی ہوا کرتی تھی۔ مستورات کی کمی کو شدت سے محسوس کیا۔ شاید گرمی تھی کرونا یا وہی روز و شب کے مشاغل جو آنے والیاں آ نہ سکیں۔ ان کی کمی کو یہاں آنے کے بعد محسوس کیا مگر مسز فاضل نے اس کمی کو پورا کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ ان کی سنگت خوشگوار رہی۔

ماحول کچھ کچھ ان شادیوں کا سا تھا جہاں کھینچ کے دو فریقین کے بیچ تنبو لگا دیا جاتا ہے یہاں بظاہر ایسا کچھ نہ تھا مگر درون خانہ یہی محسوسات تھے جیسے جماعتی بھائیوں کی موجودگی میں پی ایس ایف کے ارکان کے ہوا کرتے تھے۔ نیم جابرانہ سا تسلط تھا۔

تھوڑا قلق رہا کہ جانی پہچانی شخصیات کی خدمت میں سلام عرض کرنے سے محروم رہے۔ گو یہ جملے اضافی ہیں مگر ایک لکھنے والا اپنے حقیقی محسوسات داخل دفتر نہ کرائے تو لکھنے والا کیونکر ہو۔

کاش کچھ ایسا انتظام ہوتا کہ ادیبوں کا آپس میں تعارف کرانے کی ذمہ داری کسی ایسے رکن کو سونپی جاتی جو دونوں اطراف سے واقف ہوتے، یا کچھ میزبان ارکان رضاکارانہ طور پر ہی یہ فرض ادا کر دیتے۔ کچھ عظیم ہستیاں وہاں بنفس نفیس موجود تھیں مگر ان کی خدمت عالیہ میں عرض مند دست بستہ سلام عرض نہ کر پائی۔

”حسرت ان غنچوں پہ جوبن کھلے مرجھا گئے“

میرا وہاں ہونا اس لحاظ سے خوش قسمتی تھا کہ سوشل میڈیا کی معروف شخصیات کو بولتے سنا۔ مگر اخوت کے بانی جناب ڈاکٹر امجد ثاقب جو تقریب کے مہمان خصوصی تھے ان کی یہ بات من کو بہت بھائی کہ
”ابن فاضل اپنی یہ ایک کتاب مجھے دے دیں اور میری لکھی تین کتابیں لے لیں تو سودا اچھا ہے“

مجھے مومن خان مومن اور غالب کے بیچ مشہور شعر اور اس سے جڑی یہ روایت یاد آ گئی
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

غالباً اسد اللہ غالب نے مومن خان مومن سے کہا تھا کہ یہ شعر مجھے دے دیں اور میرا آدھا دیوان لے لیں۔ کیا وجہ ہے کہ اخوت کے بانی ڈاکٹر امجد ثاقب نے مصنف کو اتنی بڑی بات کہہ دی۔

آج ورق گردانی کی تو احساس ہوا کہ اپنے وطن کے نوجوانوں کو روزگار دینے اور انہیں خوشحال دیکھنے کے خواب سے شروع ہوتی یہ علم و عمل کی کہانی کیسے دل میں جذبہ بھی جگاتی ہے اور ہنر سے زندگی بسر کرنے کا سلیقہ بھی سکھاتی ہے۔

چھپن ابواب میں روزگار کے چھتیس طریقے بتائے گئے ہیں۔ سرورق نہایت عمدہ، کاغذ ریشمی، چھپائی رنگین ترتیب و تزئین بے حد کمال، رنگین تصاویر سے سجی ”خوشحالی کی دستک“ فردا کی فکر مندی سے بھیگی ہوئی، حال کو سنوارنے کے کلمات سے پر ایک منفرد کتاب ہے۔ یہ مصنف کے ذوق مشاہدہ اور بصیرت کی گواہ ہے۔ اس کے ابواب علم و ہنر منتقل کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں۔

سطور اور بین اسطور احساس اور خلوص کی کستوری ہے جو کبھی نافہ ہرن سے مشک حاصل کرنے کے فارمز بتانے پر زور دیتی ہے۔ کہیں اصرار ہے جاگ اے مرد مجاہد جاگ ذرا اور ہرن و بطخ کے فارم بنا لے مرغ بیضہ سے روغن نکال۔ چیڑھ کے درخت کو چیر اور ملک کو اور اپنے حال کو سنوار۔

اٹھ باندھ کمر کیوں ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

یہ اور اس جیسے بیسیوں اشعار میرے ذہن کے دریچوں پر دستک دیتے رہے۔

کہیں رنگ گورا کرنے والی کریموں، روغن بادام عرق گلاب سے عرق کشید کرنے کے لوازمات سے آگاہ کرتی ہے۔ کہیں میدان عمل میں اترنے کی ترغیب دیتی ہے۔ مصنف یہ گر بتا رہے ہیں کہ خوشحالی کے لیے تفکر تدبر سوچ بچار ضروری ہے۔ چیزوں کو لگے بندھے سانچوں سے ہٹ کر دیکھنے کی عادت اپنانی ہو گی۔ کرپشن غربت اور بے روزگاری سے حس لطافت تک آنے کے لیے خوشحالی کی دستک ضروری ہے۔

ہمیں اپنے ملک میں اپنے وسائل کو ہنر مندی سے برتنے کا سلیقہ آ جائے تو ہم جوی کے چھلکوں سے تیل نکال کر اور گنے کے پھوک سے زر مبادلہ کما سکتے ہیں۔ یہ پڑھنے والوں پر دوسرے ممالک کی ترقی کے راز کھولتی ہے۔ معمولی عادات کو بہتر بنانے کی طرف راغب کرتی ہے۔ یہ کتاب جو کہتی ہے ”ہمیں کلرک پیدا نہیں کرنے ہمیں ہنر مند چاہیے۔“

دراصل یہ سماجی بہبود کی منزل کی طرف سنگ میل ہے۔ میرے پڑھنے کا پہلا میدان بھی سماجی بہبود ہی ہے، سو مجھے اس کتاب اور اس میں چھپے خوشحال ہونے کے خواب کو دوسروں کے لیے آسان اور ممکن بنانے کی تحریک کے جذبے اور عوامل کو جان کر بہت تسکین ہوئی۔

دعا ہے کہ ہمارے بچے اور نوجوان وقت کی نبض پہ ہاتھ رکھیں اور کسب حلال کے جدید طریقوں سے استفادہ کریں اور چین، جاپان کے مقابلے میں خود انحصاری کی منازل طے کریں۔

سیپ کے موتیوں کی صنعتیں بنائیں، پھلوں کو خشک کریں تر کریں عرق نکالیں تیل بنائیں پورسلین کے لیمپ بنائیں

صفحہ نمبر ایک سو پینسٹھ باب نمبر اکتالیس آخری سطور پر رقم طراز ہیں

”آئیں غور کی عادت اپنائیں۔ حصول علم اور محنت کو معمول بنائیں۔ مثبت سوچنا شروع کریں۔ آئیں مل کر خوشحال ہو جائیں۔“

علم سے عمل کے میدان تک قاری کو ہنر مند بنانے اور خوشحال مرکز کے قیام، ہنر مندوں کی تربیت کے لیے ورکشاپس کا اجرا، قرضوں کی بلا سود سہولت مہیا کرنے تک ابن فاضل صاحب کی کاوشیں قابل تحسین ہیں۔

امید کرتی ہوں خوشحال پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گا۔ یہ لہر وطن عزیز میں ایک نئی تحریک کو جنم دے گی۔ اس مشکل دور میں جو کام حکومت اور اداروں کو کرنا چاہیے تھا، محترم ابن فاضل صاحب یہ کام اپنی محنت، لگن اور

اخلاص سے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر اپنی مدد آپ کے تحت کر رہے ہیں۔ جناب ابن فاضل صاحب کو حرف سے کتاب اور علم سے عمل تک کا یہ سفر مبارک ہو۔

اس کتاب کی وساطت سے وطن عزیز کے نوجوانوں اور خواتین کو جو روزگار کے لیے پریشان ہیں۔ باعزت روزگار کے لیے ہنر سکھانے اور ایسے سرٹیفکٹ حاصل کرنے والوں کو تین لاکھ تک بلا سود قرضے حسنہ بھی ملنے کا بندوبست ایک امید افزا پیغام ہے۔

میرا پیغام ہے محبت جہاں تک پہنچے مگر یہ کہتے ہیں میرا پیغام ہے محنت جہاں تک پہنچے۔ اخوت کے بانی ڈاکٹر امجد ثاقب کے یہ الفاظ بہت اہم ہیں کہ ”یہ ایک کتاب فکشن کی سو کتابوں پر بھاری ہے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments