با برکت آموں کی رشوت



چاچا قادر بخش ناراض تو تھا ہی مگر اب لہجہ گلو گیر اور رونے والا ہو گیا تھا، مسلسل دوسرا دن تھا چاچا میرے پی اے کے پاس بیٹھا اصرار کیے جا رہا تھا۔ چاچا کا اصرار مجھے شوکت کی یاد دلا رہا تھا، پہلی فیلڈ پوسٹنگ تھی اور میں گھر سے جائے ملازمت پر پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے پہنچا تھا، گاڑی سے اتر کر رکشے کا انتظار کرنے کو سڑک کے کنارے پہ رکا ہی تھا کہ مخالف سمت کو جاتا ایک رکشہ میری طرف مڑا اور چادر لپیٹے رکشہ ڈرائیور مجھ سے مخاطب ہوا۔ سر! آپ بیٹھیں میں ایک منٹ میں آیا۔ ایک ہی ساعت میں چادر پوش شخص واپس آیا اور قریبی کھوکھے سے لائی کولڈ ڈرنک میری طرف بڑھاتے ہوئے بولا! سر آپ یہ پی لیں پھر میں آپ کو گھر چھوڑ آتا ہوں۔ میں حیران و پریشان رکشہ ڈرائیور کو تکے جا رہا تھا۔

مجھے محو حیرت دیکھ کر وہ گویا ہوا، سر! آپ نے مجھے نہیں پہچانا۔ میں شوکت ہوں، آپ کا احسان میں ساری زندگی نہیں چکا سکتا۔ لیکن مجھے تو شوکت یاد تھا نہ اس پہ کیا گیا کوئی احسان۔ ”سر! آپ نے تھانیدار صاحب سے میرے خون پسینے کی کمائی واپس دلوائی تھی“ شوکت مجھے کنفیوز دیکھ کر پھر گویا ہوا تو یاد آیا کہ شوکت کی درخواست پر نکا تھانیدار میرے دفتر میں حاضر ہوا تو کیسے اکڑا ہوا تھا، سر! میں اسے نہیں جانتا اس ”کمی کمین“ نے میرے کسی مخالف کے کہنے پر میرے خلاف درخواست دی ہے۔

اس گستاخانہ طرز تخاطب پر میرا خون پہلی دفعہ کھولا تھا لیکن میں نے اگنور کر کے شوکت کی طرف دیکھا تو ڈرے سہمے شوکت نے اپنے ساتھ آئی چھ سات سال کی بچی کے سر پر ہاتھ رکھ کر بتایا کہ صاحب جی! میں نے اس بچی کے کانوں سے سونے کی بالیاں اتار کر اسے پچیس ہزار دیا تھا لیکن اس نے میرا پرچہ پھر بھی درج نہیں کیا۔

ایک آدھ پیشی پہ ہی معاملہ واضح ہو گیا کہ شوکت کے مخالفین نے اس کے گھر آ کر اسے مارا تھا اور چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا تھا اور شوکت نے قانونی کارروائی کرنا چاہی تو تھانیدار نے اس سے پچیس ہزار رشوت لے کر بھی کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔ اب زخم خوردہ شوکت بڑی جرات کر کے تھانیدار کے خلاف درخواست دے کر اس سے اپنی جمع پونجی واپس لینے کی کوشش میں تھا لیکن تھانیدار اسے دھمکیاں دے رہا تھا۔ معاملہ واضح ہوا تو میں نے تھانیدار کو دو ٹوک پیغام دیا کہ اس نے اگر اگلی پیشی تک شوکت کے پیسے واپس نہ کیے تو پرچہ درج ہوگا۔ اور یوں پچھلی کئی پیشیوں سے شوکت کو پہچاننے سے انکاری تھانیدار اگلی پیشی سے پہلے ہی شوکت کو پیسے واپس کر کے اسے درخواست واپس لینے پہ تیار کر کے آیا تھا۔ اب سڑک کے کنارے اپنے ہاتھ میں کولڈ ڈرنک تھامے شوکت مجھے پورے پروٹوکول سے گھر چھوڑنے پر اصرار کر رہا تھا۔

اور اب چاچا قادر بخش۔ ملتان میں پوسٹنگ ہونے کے پہلے چند دن میں ہی چاچا مجھے سلام کرنے آیا، میں نے حال چال پوچھ کر چاچا کو چائے پلائی تو چاچا کو پھر آنے کا حوصلہ ہوا۔ تیسری ملاقات میں چاچا نے بتایا کہ اس کی بیوی شدید بیمار ہے اور اس کی بیوی کے رشتہ دار اس کی بیوی کے نام تھوڑی سی زمین پہ قبضہ کرنے کے درپے ہیں۔ میں نے چاچا کو حوصلہ دیا اور متعلقہ عملہ کو چاچا کی زمین کے معاملات حل کرنے کی تاکید کی۔ چاچا کا معاملہ روایتی تاخیر کا شکار ہوا تو چاچا ہر دوسرے دن میرے دفتر آ کر پراگریس شیئر کرنے لگا۔

چاچا کی زمین کا مسئلہ تو جوں توں کر کے حل ہوا لیکن چاچا نے ایک دن مجھے افسوسناک خبر سنائی کہ اس کی بیوی وفات پا گئی ہے۔ چند دن بعد چاچا پھر آیا تو پریشان ہو کر بتایا کہ اس کے گھر کی کچی دیوار گر گئی ہے اور اس کے رشتہ دار اسے از سر نو دیوار تعمیر نہیں کرنے دے رہے، عملہ کو ہدایت کی لیکن چاچا کو عملہ سے شکایت ہی رہی، ایک دن عملہ کو دفتر بلا کر خود ریکارڈ دیکھا اور چاچا کے موقف کو درست پا کر چاچا کا مسئلہ حل کرنے کی سختی سے تاکید کی۔

ایک افسر کو درخواست کی اور چاچا نے اس کی نگرانی میں اپنی دیوار از سر نو تعمیر کی۔ چاچا کا مسئلہ حل ہوا تو چاچا بہت خوش ہوا اور ان گنت دعاؤں سے نوازا۔ دو دن پہلے چاچا سلام کرنے آیا تو درخواست کی کہ میں اس کی طرف سے موسمی آموں کا تحفہ قبول کروں۔ چاچا کے حالات کو مد نظر رکھ کر میں نے پہلے آرام سے اور بعد میں تھوڑی سختی سے منع کر دیا۔ چاچا اس وقت تو اداس صورت بنا کر لوٹ گیا لیکن اگلے دن پھر میرے پی اے کو سفارشی بنا کر آم ساتھ لے آیا کہ اس کے آموں کا تحفہ میں ہر صورت قبول کروں۔

میرے پیار سے سمجھانے پر چاچا قادر بخش جذباتی ہو گیا کہ شاید اس کا تحفہ میرے شایان شان نہیں۔ سو میں نے چاچا کے محبت بھرے اصرار کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ اب ملتانی آموں کی بھرمار میں چاچا قادر بخش کے آموں کی خوشبو نے میرے چھوٹے سے سرکاری گھر کو معطر کیا ہوا ہے اور یہ واحد با برکت ”رشوت“ ہے جو میں پہلی بار اپنے ہاتھ سے اپنے بچوں کو کھلاؤں گا۔ اھد نا الصراط المستقیم


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments