کیا ہم استحصالی جبر کا شکار ہیں؟


عصری روایات کے رحم و کرم پر رہتے ہوئے ہم زندگی کے حادثے کو ماضی کے پیمانے میں انڈیلتے ہیں۔ حال اور مستقبل میں کوئی تبدیلی لائے بغیر ہم ماضی کا رزق بن جاتے ہیں۔ حادثات ایک رو میں بہتے ہیں، اور زندگی کی اقدار کو پامال کرتے ہوئے ظلم اور استحصال کی دیوار کو مزید بلند کر دیتے ہیں۔ حادثات یا واقعات کی نوعیت خواہ معمولی ہو یا غیر معمولی، انسانی دماغ سے بنے ہوئے ایک جال کی مانند ہیں، جس میں کمزور اور محروم انسان پھنستے ہی چلے جاتے ہیں۔

انسان، انسان کا شکاری ہے۔ دولت کی بے پناہ قوت رکھنے والا آدمی اپنی حیلہ سازیوں کو بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ کمزوروں کے چھوٹے چھوٹے وسائل ہڑپ کرتے ہوئے وہ نہ صرف ان کی عزت نفس کو قتل کر دیتا ہے بلکہ ان کی ساری صلاحیتوں کو اپنا غلام بنا لیتا ہے۔ اس کا یہ تانا بانا مکڑی کے جالے کی طرح ہے۔ جس میں اگر کوئی مکھی پھنس جائے تو پر نہیں مار سکتی۔

ہر ظالم امیر شخص، خواہ چھوٹا ہے یا بڑا، اپنے استحصالی دائرہ جبر کو وسعت دینا چاہتا ہے۔

یہ عمل ایک محلے سے شہر تک اور پھر پورے سماج میں وسعت پذیر ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور حکومتیں بھی اس کا آلہ کار بن جاتی ہیں۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں کو کیسے معلوم ہو کہ وہ استحصالی جبر کا شکار ہیں۔ علم پر دولت کی برتری استحصالی جبر کی سب سے بڑی علامت ہے۔ جہاں انسان کی عزت دولت کے ترازو میں تولی جائے اس معاشرے میں سیاست دان، فوجی، تاجر، صحافی، مولوی اور پیر وزیر سب اپنے آپ کو عام مخلوق سے اونچا کر لیں گی اور ایک مصنوعی پروٹوکول کے حصار میں چلے جائیں گے۔ ان کا یہ سارا مرتبہ دولت کے زور پر ہو گا۔ ایک اور بنیادی بات کہ استحصالی جبر کرنے والوں کا تعلق مذہب سے ہو یا سیاست سے یا کسی اور شعبہ زندگی سے، آپس میں گہرا ربط اور اتحاد ہو گا۔ چھوٹا جبر، بڑے جبر کو عظیم تر بنانے میں کوشاں ہو گا اور بڑا جبر عظیم تر جبر کو عظیم ترین بنانے میں مصروف عمل ہو گا۔

استحصالی قوتوں کا آپس میں زبردست ایکا ہوتا ہے۔ یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ مذہبی اشرافیہ سیاسی اشرافیہ کی معاون و مدد گار ہوتی ہے۔ جب سیاسی اشرافیہ شجر اقتدار کی چھاوں میں بیٹھتی ہے تو وہ مذہبی لوگوں کو اقتدار کی لذتوں سے آشنا کرتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اعلی بیورو کریسی استحصالی جبر کے خلاف کوئی دیوار کھڑی کرے یا کوئی عدالتی نظام جو اس راستے کی رکاوٹ بنے۔ اس ظلم کی کاری ضرب کس ملک کے تعلیمی نظام پر پڑتی ہے۔

لوگوں کے تعلیمی رویے یکسر تبدیل ہو جاتے ہیں۔ وہ کسی شعور یا آگہی ذات کے لیے تعلیم حاصل نہیں کرتے، ان کی اولین ترجیح پیسہ کمانا ہوتی ہے۔ اس کی پہلی شناسائی تعلیم کا تجارتی بنیادوں پر ہونا ہے۔ تعلیم حاصل کرنے والا اور تعلیم دینے والا تجارت کرتے ہیں۔ حکومت کی اولین ترجیح تعلیم نہیں رہتی۔ استحصالی جبر کو فروغ دینے کے لیے ایک ذہین طبقہ مل جاتا ہے، جو اس ظلم کے نظام کو مضبوط سے مضبوط تر کر دیتا ہے۔ ایسے معاشرے میں ایک غریب انسان تعلیم حاصل نہیں کر سکتا، کیونکہ وہ دو جمع دو، چار روٹیاں کے حساب سے ساری عمر گزار دیتا ہے۔

استحصالی جبر پذیر معاشروں میں کوئی غریب قانون کی سزا سے نہیں بچ سکتا اور کوئی قانون کسی امیر کو سزا نہیں دے سکتا۔ کیونکہ اگر غریب آدمی قانون سے بچ جائے گا تو وہ امیر کے ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہو گا، جس سے معاشرتی انتشار پیدا ہو گا۔ استحصالی جبر کے شکار نظام میں غریبوں کو سزائیں قانونی طریقے سے ملتی ہیں۔ بظاہر محسوس ہو گا کہ انصاف کے تقاضے پورے ہو رہے ہیں، لیکن یہ انصاف امیر طبقے کو محفوظ بنانے کے لیے ہوتا ہے، امیر کو سزا اس لیے نہیں مل سکتی کہ اس کا جرم سامنے نہیں ہوتا۔

اس کے جرم پر دولت کا پردہ پڑا ہوتا ہے۔ دولت ایک ایسی طاقت ہے جو دوسری طاقتوں کو اپنا ہمنوا بنا لیتی ہے۔ ایسی صورت میں قانون اندھا ہو جاتا ہے۔ اور استحصالی جبر کا مکروہ دھندا اپنے فروغ کے لیے ہر طاقت کو اپنا آلہ کار بنا لیتا ہے۔ آپ نے تنگ و تاریک مکانوں میں سسکتی انسانیت دیکھی ہو گی۔ آپ نے جتھوں کے جتھے ملازمین کے دیکھے ہوں گے، جن کے چہرے پر قحط رزق کے نشانات ہیں۔ کچرے کے ڈھیر پر رزق تلاش کرتے ہوئے بچے بھی آپ کی نظروں سے گزرے ہوں گے۔

عورت کی تذلیل کا منظر بھی بارہا نظر آیا ہوگا۔ یہ سب لوگ زندگی کی عظمت سے کتنے دور ہیں، یہ جو زندگی کی عظمت اور انسانیت کی پستی کے درمیان فاصلہ ہے استحصالی جبر کا پیدا کردہ ہے۔ اگر یہ فاصلہ روز بروز بڑھتا ہی رہا تو ہم ظلم اور لا قانونیت سے کبھی نجات نہیں پا سکیں گے۔ ہاں اگر کم ہو رہا ہے، خواہ سست رفتاری سے ہی ہو، تو امید کی کرن باقی ہے، جس سے ایسا سورج طلوع ہو گا جس کی روشنی کو استحصالی جبر کی دیوار روک نہ پائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments