عندلیبِ جاں


آخر اس بچی کے ساتھ مسئلہ کیا ہے۔

بات صرف اتنی ہی نہیں تھی۔ ٹیچر کو اس بچی سے ایسے جواب کی ہر گز توقع نہیں تھی۔ ماریہ نے جھکا ہوا سر اٹھایا اور ٹیچر ذکیہ کے ماتھے پر گھورتی ہوئی نظریں گاڑ دیں۔ ذکیہ حیرانی سے اسے دیکھتے ہوئے بولی

” آخر ہوا کیا ہے تمہیں؟ کیا استاد کے ساتھ ایسی بد تمیزی سے بولتے ہیں؟“

ماریہ کو اندر ہی اندر اس ٹیچر سے سخت نفرت ہو چکی تھی اور وہ جانتی تھی کہ ایک نہ ایک دن ایسا ہی ہو گا۔ اس سکول میں پچھلے سال سے ایک نیا تجربہ کیا جا رہا تھا۔ ٹیچر ذکیہ اگرچہ آرٹس اور ڈرامے کی انچارج تھی تاہم اسے یہ فرض بھی سونپا گیا تھا کہ وہ طالبات اور ان کے والدین کے درمیان تعلقات کی نوعیت بھی دریافت کرے تاکہ ان بچوں اور والدین میں ہم آہنگی پیدا کی جا سکے جو اپنی مصروفیات کے باعث بچوں سے وہ تعلق نہیں رکھتے جو والدین اور اولاد میں ہونا چاہیے۔

نویں جماعت کی طالبہ ماریہ کی یہ نفرت اس دن پیدا ہوئی جب ذکیہ نے ماریہ سے یہ معلوم کر لیا تھا کہ ماریہ کی ماں ان کے گھر میں نہیں رہتی اور نہ ہی ماریہ نے آج تک ماں کی شکل دیکھی ہے، بس اتنا جانتی ہے کہ وہ زندہ ہے۔ ماں کب گھر چھوڑ کر گئی، کس نے پالا، کون خیال رکھتا ہے۔ یہ سوالات پوچھے تو ایک بار ہی گئے تھے لیکن ان کا جواب ماریہ کے پاس نہیں تھا اور یہی ماریہ کی نفرت کا سبب بنا۔ آج اگرچہ چھٹی کا دن تھا لیکن ایک پروگرام کی فائنل ریہرسل کے لئے کچھ بچوں کو سکول بلایا گیا تھا۔

ٹیچر نے پھر ایک دفعہ دوستانہ انداز میں ماریہ کی طرف ہاتھ بڑھایا لیکن وہ اپنی اوور سائز کی جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے ٹس سے مس نہ ہوئی۔ قصہ اصل میں یوں تھا کہ اس سال سپورٹس ڈے پر بچوں کا ایک ڈانس تیار کیا گیا تھا۔ ماریہ کئی دنوں سے اس کی مشق کر رہی تھی اور سب بچوں سے بہت اچھا کر رہی تھی اور خیال تھا کہ وہ اپنی پرفارمنس پر پہلا انعام جیتے گی لیکن مصیبت یہ ہوئی کہ ڈانس کے لئے جو لباس تیار کیا گیا تھا اس میں سرخ رنگ کی ایک شرٹ بھی تھی اور ماریہ نے اس لباس کو پہننے سے انکار کر دیا تھا۔ استاد سمیت تمام طالبات اس بات پر حیران تھیں کہ اتنا خوبصورت لباس، اتنی مہارت سے سلا ہوا، کھلتا سرخ رنگ۔ آخر ماریہ کو پسند کیوں نہیں آیا۔

ٹیچر نے شرٹ ماریہ کی کمر سے لگا کر اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ دیکھو کتنا سج رہا ہے اور تم کتنی خوبصورت لگو گی اسے پہن کر لیکن ماریہ نے ٹیچر کا ہاتھ زور سے پیچھے دھکیلا اور لباس فرش پر جا گرا۔ ذکیہ کا چہرہ شرٹ کی طرح سرخ ہو گیا۔

” یہ کیا بد تمیزی ہے۔ سکول نے جو آداب تمہیں تربیت کیے تھے وہ کہاں گئے اور تم نے میرا ہاتھ زور سے پیچھے کیوں دھکیلا؟“ ٹیچر کا غصہ برداشت سے باہر تھا۔

” میں نے کہا نا میں یہ رنگ نہیں پہنوں گی اور نہ ہی آپ مجھے پہنا سکتی ہیں۔“ ماریہ کی آواز اتنی بلند تھی کہ ساتھ والے کمرے سے سینئر مسٹریس جو دیر سے یہ تماشا دیکھ رہی تھی بھاگی چلی آئی۔

” کیوں اتنا چلا رہی ہو تم، یہ شرٹ تم نے ہمیشہ کے لئے تو نہیں پہننی، صرف سپورٹس ڈے پر ایک دن اور وہ بھی صرف چند گھنٹوں کے لئے۔ اس میں کیا مسئلہ ہے؟“

” نہیں پہنوں گی۔ نہیں پہنوں گی۔ اور میں یہ سکول بھی چھوڑ دوں گی۔“ ماریہ نے دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں سے نکالے تو یوں لگا جیسے وہ سینئر مسٹریس پر حملہ کر دے گی۔ موقعے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے مسٹریس نے ماریہ کے کندھوں پر پیار سے ہاتھ رکھا اور بہت ہی دھیمی آواز لیکن سخت لہجے میں کہا کہ کل وہ اپنے باپ کو سکول لے کر آئے گی۔

” نہیں لاؤں گی۔ نہیں لاؤں گی“ ماریہ پہلے سے بھی زیادہ زور سے چیخی
” خاموش۔ چلاؤ مت۔ بدتمیز۔ کل تم اپنے باپ کو سکول لے کر آؤ گی۔ بس“
ماریہ نے سارا غصہ آنکھوں میں بھر کر سینئر مسٹریس کی طرف دیکھا اور پھر گھورتی نظریں اس پر گاڑ دیں۔
” نیچے کرو نظریں۔ کل اپنے باپ کو سکول بھیجو۔“ سینئر مسٹریس نے ایک جج کی طرح فیصلہ سنایا۔

ماریہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ زمین پر جھکی۔ اس نے زمین پر گری سرخ رنگ کی شرٹ اٹھائی اور بھر پور غصے اور توانائی کے ساتھ اس کے بخیے تک ادھیڑ دیے۔ اسے دوبارہ زمین پر پھینکا، اپنا بیگ اٹھایا اور سکول سے بھاگ کھڑی ہوئی۔ یہ سب کچھ اس قدر تیزی سے ہوا کہ کسی کو اسے روکنے کا موقع ہی نہ ملا اور دوسرے ہی لمحے وہ سکول سے باہر تھی اور کچھ دیر بعد وہ اپنے گھر کے دروازے پر تھی جو سکول سے دو گلیوں کی مسافت پر تھا۔

وہ سچ کہہ رہی تھی۔ سرخ رنگ کا سکرٹ پہننے کی بجائے وہ سکول سے بھاگ جانا پسند کرے گی۔ گھر کے دروازے پر پہنچ کر بھی وہ اپنے ہاتھوں کو ایسے مل مل کر صاف کر رہی تھی گویا سرخ رنگ کسی گندگی کی طرح ہاتھ سے چمٹ گیا ہو۔ اسے ایسے لگ رہا تھا کہ وہ سرخ رنگ کی ہر چیز کو تہس نہس کر دے گی۔ اسے اپنے پاؤں کے نیچے بھی ہر طرف سرخ رنگ پھیلا نظر آ رہا تھا۔ وہ بہت ہی اضطراب میں تھی۔ شاید بجلی نہیں تھی اس لیے کال بیل بجانے کے باوجود دروازہ نہیں کھلا تھا۔

اس نے دروازہ زور زور سے پیٹنا شروع کر دیا۔ اس کے باپ کو اس وقت گھر ہونا چاہیے اس نے سوچا۔ میرا باپ بھی ایک ہی پاگل ہے۔ ضرور میری دادی ایک سخت اور غصہ ور عورت رہی ہوگی یا ہو سکتا ہے کہ میرے دادا یا پر دادا کے اندر کوئی پاگل روح ہو جو میرے باپ میں آئی ہو۔ وہ پیدائشی دیوانہ ہے اور میں اپنے باپ کی بیٹی۔ وہ یہ سب سوچ ہی رہی تھی کہ دروازہ کھلا اور اس کے باپ نے حیرت سے کہا ”تم اتنی جلدی آ گئی سکول سے۔ آ جاؤ آ جاؤ میں تمہارے لئے کھانا بنا رہا تھا۔“ دونوں خاموشی سے اندر چلے گئے اور باپ کوئی نا معلوم سی دھن گنگناتا باورچی خانے کی طرف جانے لگا تو ماریہ نے پوچھا کہ اس کی نئی ملازمت کا کیا بنا۔

” کچھ بھی نہیں۔ میں ان لوگوں کو پسند نہیں آیا۔ انہیں سمارٹ نوجوان خون کی ضرورت ہے۔ میں بوڑھا اور موٹے پیٹ والا ہوں اب مجھے کام پر کوئی نہیں رکھتا۔ مجھے کوئی بھی کام نہیں دیتا۔ وہ اسی فقرے کو زور زور سے گاتا ہوا باورچی خانے کی طرف چلا گیا۔ ماریہ نے غسل خانے میں گھس کر دروازہ بند کیا۔ اس نے سنک کا نلکا کھول دیا، پورے کا پورا تاکہ پانی کے شور میں اسے باپ کے عورتوں کی طرح گانے کی آواز نہ آئے۔ اسے اس بات سے سخت نفرت تھی کہ اس کا باپ عورتوں کی طرح بی ہیو کرنے لگتا اور عورتوں کی آواز میں گانے لگتا۔ اس نے گرم پانی کا نل بھی کھول دیا حتی کہ پانی سنک سے باہر بہنے لگا لیکن باپ کی آواز کم نہ ہوئی۔

” ابا۔ کل آپ کو سکول جانا ہو گا۔ ٹیچر نے بلایا ہے“ ۔ وہ زور سے چیخی،

” کیوں۔ تم نے پھر کچھ کر دیا“ گنگناتی ہوئی آواز میں فکر مندی صاف سنائی دی۔ ماریہ جانتی تھی کہ جب تک وہ ساری بات نہیں بتائے گی اس کی فکر مندی ختم نہیں ہو گی۔ لیکن وہ خاموش رہی۔

ماریہ کی چھوٹی موٹی شرارتوں اور ہم سبقوں سے الجھنے کی بنا پر اس کے باپ کوایک دو بار پہلے بھی سکول طلب کیا گیا تھا لیکن سکول ٹیچر اس کی زنانہ آواز سن کر پہلے تو کھی کھی کرتیں پھر کسی گانے کی فرمائش کرتیں اور یوں معاملہ رفع دفع ہو جاتا۔ ماریہ کے لئے یہ نہایت ہی ناقابل برداشت تھا۔ وہ اس بات سے بہت نالاں تھی کہ اس کا باپ تھیٹر میں زنانہ روپ ہی کیوں دھارتا اور سرخ رنگ کی سکرٹ پہنے تماش بینوں کو زنانہ آواز میں گانے سناتا۔ ہے۔ ایسے وقت میں اسے ماں کی کمی اور غیر حاضری شدت سے محسوس ہوتی لیکن وہ کیا کرتی کہ محبت سے جان چھڑکنے والا باپ ہی تو اس کی کل کائنات تھا۔

” ہاں تو بتاؤ تم نے کیا کر دیا سکول میں“ باپ نے استفسار کیا لیکن ماریہ نے غصے سے سرخ چہرے اور سوجی ہوئی باہر نکلتی آنکھوں سے باپ سے ایک عجیب بات کہہ دی۔

” بابا اس بار آپ سکول نہیں جاؤ گے۔ اور میں نے سکول چھوڑ دیا ہے۔ مجھے ماں کے پاس جانا ہے۔ بس۔ میں آپ کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔“ اس کا لہجہ اس قدر سخت اور فیصلہ کن تھا کہ باپ کچھ نہ بول پایا۔ اس نے پانی کا گلاس پیا پھر کچھ دیر بعد بولا

” اچھا جو کھانا میں نے تیار کیا ہے وہ کھا لو پھر آرام کرو۔ رات کو اپنا سامان پیک کرو۔ صبح روانہ ہوں گے۔“ ماریہ باپ کے اس قدر جلد مان جانے پر ششدر رہ گئی لیکن اس نے وہ سب کچھ کیا جو باپ نے کہا۔

اگلی صبح، دس گھنٹوں کا بس کا سفر طے کر کے وہ سرحد کے ایک دور افتادہ قصبے میں غروب آفتاب کے وقت پہنچ گئے۔ یہ پہاڑوں سے گھری ایک ٹھنڈی جگہ تھی۔ دونوں باپ بیٹی مختصر سامان کے ساتھ زمرد محلے کی طرف چل دیے۔ اس بستی کے آس پاس کبھی زمرد کی کانیں ہوا کرتی تھیں۔ اگرچہ سارا زمرد نکال لیا گیا تھا تاہم بستی ابھی تک زمرد محلہ ہی کہلاتی تھی۔ دس منٹ کی مسافت کے بعد باپ نے ایک گھر کے دروازے پر دستک دی۔ کچھ دیر کے بعد اندر سے ایک بوڑھا ضعیف باہر آیا۔

ماریہ کے باپ نے اپنی بیوی کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ کسی فیکٹری میں کام کرتی ہے اور یہاں صرف رات نو بجے اس کی روٹی پکانے آتی ہے۔ بوڑھے نے یہ بھی مشورہ دیا کہ گھر کے سامنے والے ہوٹل نما تندور پر اس کا انتظار کرو۔ دونوں نے تندور کا رخ کیا۔ کھانا کھایا۔ آگ سینکی۔ کچھ لوگوں نے ماریہ کے باپ کو اس کے تھیٹر والے روپ کے حوالے سے پہچان بھی لیا۔ ابھی وہ چائے پی رہے تھے کہ ایک عورت سر پر سامان کی گٹھڑی اٹھائے بوڑھے کے گھر میں داخل ہوئی۔

تھیٹر والے کو دیکھ کر لوگ آگے کو سرک رہے تھے۔ اس سے پہلے کہ ہجوم اکٹھا ہو جاتا، اس نے ماریہ کا ہاتھ پکڑا اور گھر کے دروازے پر دستک دی۔ اندر سے بوڑھے نے آواز دی کہ انتظار کریں۔ فارغ ہو گی تو مل لینا۔ تقریباً پچیس منٹ کے بعد عورت گھر سے باہر نکلی تو اس نے دروازے پر کھڑے شوہر کو پہلی نظر میں ہی پہچان لیا۔ مرد نے آگے بڑھ کر گٹھڑی اٹھانے کی پیشکش کی جسے عورت نے ٹھکرا دیا۔ تینوں ایک ساتھ چلنے لگے۔

” یہ ماریہ۔ میرے ساتھ رہ رہ کر تنگ آ چکی ہے اور اب تمہارے ساتھ رہنا چاہتی ہے“ باپ نے کہا لیکن عورت نے اس بات کا کوئی نوٹس نہ لیا۔ وہ تینوں ایک دو گلیاں چھوڑ کر ایک گھر کے سامنے رکے جس کے دروازے پر ٹاٹ کا پردہ تھا۔ عورت نے پردہ اٹھایا اور دونوں کو اندر آنے کو کہا۔ ماریہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ ٹاٹ کے پردے کے پیچھے سرے سے کوئی دروازہ ہی نہیں تھا اور اندر داخل ہونے کو بس کھلا سا راستہ تھا۔ کھلے صحن میں ایک دیوار بنا کر اسے دو کمروں کی شکل دی گئی تھی۔

ایک حصے میں چولہا، ایندھن اور کھانا پکانے کے برتن اور دوسرے حصے میں ایک چارپائی بچھی تھی جس پر کوئی بستر نہیں تھا۔ چارپائی کے قریب اینٹوں کے اوپر کار کا ایک پرانا ٹائر رکھا تھا جو بطور نشست استعمال ہو سکتا تھا۔ ماریہ اور عورت چارپائی پر بیٹھ گئیں اور مرد ٹائر پر۔ ماریہ مسلسل ماں کو دیکھے جا رہی تھی اور اس بات پر خوش تھی کہ اس کی ماں ادھیڑ عمر میں اتنی پر کشش ہے تو جوانی میں کتنی خوبصورت ہو گی اور یہ کہ اس کے پاگل باپ نے آخر ایسی خوبصورت عورت کو کیوں چھوڑ دیا۔

عورت نے دونوں کو گرم گرم قہوہ پلایا۔ قہوہ پینے کے بعد ماریہ کے باپ نے سگرٹ سلگایا تو عورت نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ وہ یہ شغل باہر جا کر کرے۔ وہ گھر سے باہر نکل آیا۔ ماریہ آہستہ آہستہ عورت کے قریب آئی اور پھر بڑی گرم جوشی سے اسے بھینچ لیا۔ اسے ایسے لگا کہ اس کی ساری نفرت ایک لمحے میں تحلیل ہو گئی ہے اور وہ اس مامتا کے حصار میں ہے جس کی وہ اس نفرت کے باوجود ساری زندگی متلاشی رہی۔ عورت نے پیار سے ماریہ کے بالوں میں ہاتھ پھیرا، اس کے ماتھے کا بوسہ لیا۔

عورت کے استفسار پر ماریہ نے بتایا کہ اسے باپ کا یہ نسوانی کردار ہر گز پسند نہیں اور اگرچہ وہ اس پر جان نچھاور کرتا ہے پھر بھی وہ اب اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔ وہ اس بات کے لئے اپنی تعلیم کو بھی خیر باد کہہ آئی ہے اور اب وہ صرف ماں کے پاس رہنا چاہتی ہے۔ ماریہ کے لہجے میں بے انتہا التجا تھی۔

” میں تمہاری ماں نہیں ہوں۔ جس دن تمہارا باپ تمہیں گھر لے کر آیا تھا اسی دن میں نے تمہیں دیکھے بغیر اس کا گھر چھوڑ دیا تھا۔ مجھے نہیں معلوم تمہاری ماں کون ہے لیکن میں نہیں۔ میں تمہیں اپنے پاس نہیں رکھ سکتی۔ تم دونوں اسی تندور نما ہوٹل پر رات بسر کرو گے کیونکہ اکثر رات کے مسافر بس کے انتظار میں رات انہی چارپائیوں پر گزارتے ہیں۔“ ماریہ یک دم بہت افسردہ ہو گئی اور آنکھوں میں آنسو لئے باہر نکل آئی جہاں لوگ اس کے باپ سے نسوانی بہروپ کی مختلف فرمائشیں کر رہے تھے اور وہ لوگوں سے جان چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا۔

اگلی صبح دونوں باپ بیٹی بس میں بیٹھے واپسی کا سفر طے کر رہے تھے۔

” بابا۔ میری ماں کون ہے۔ آپ نے کبھی مجھے کھل کر نہیں بتایا ماں کے بارے میں اور آپ مجھے اس عورت کے پاس کیوں لے کر آئے جو میری ماں نہیں، مجھے ماں کے پاس جانا ہے، کیا وہ زندہ ہے یا مر چکی ہے، میں کون ہوں اور اب تو مجھے یہ بھی پوچھنا ہے کہ میرا آپ کا تعلق کیا ہے۔ کہیں آپ بھی تو۔“

باپ نے ماریہ کی بات کاٹ دی۔ پیار سے کندھے پر تھپکی دی اور بولا

” بیٹا۔ مجھے نہیں معلوم۔ ایک دن جب میں سٹیج پر پرفارم کرنے کے بعد واپس آ رہا تھا تو آرٹس کونسل کے پچھواڑے سڑک کنارے کوڑے کے ڈھیر پر، ایک پھٹے پرانے کمبل میں لپٹی، تم رو رہی تھی۔ میں نے تمہارے رونے کی آواز سنی اور اپنے گھر لے آیا۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments