دوائیاں اور ہم


دواؤں یعنی میڈیسن کو لے کر ہماری قوم کا رویہ بڑا دلچسپ ہے۔ ایسی تمام دوائیاں بالخصوص ویکسین کے بارے میں ہمارا ماننا ہے کہ ان کو لینے سے مردوں میں بانجھ پن ہوتا ہے اور مردانہ صلاحیت میں کمی آتی ہے۔ ویسے بھی پاکستان کے طول و عرض پر پھیلی ہوئی دیواروں کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ پوری قوم مردانہ کمزوری کا شکار ہے۔ اس لیے اس کا ہر جگہ شرطیہ علاج کیا جا رہا ہے۔ ویکسین کو نہ لینے کی وجہ سے ابھی تک اس ملک سے پولیو کا خاتمہ ممکن نہیں ہو پایا اور ہم پوری دنیا کے ان دو ممالک میں شامل ہیں جہاں پولیو کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پولیو کا خاتمہ دنیا سے کیونکہ یہودیوں کی سازش ہے اس لیے ہم کبھی بھی یہودیوں کی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ کرونا کی ویکسین بھی لوگ لینے کو تیار نہیں۔

اکثر لوگ میڈیسن کو جادو سمجھتے ہیں اور اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ ان کے استعمال کے بعد بیماری جڑ سے نکل جائے گی۔ مثال کے طور پر لطیف صاحب شوگر کے مریض ہیں اور اس کی گولیاں دن رات کھاتے ہیں اور ساتھ ہی میٹھے کا بھی بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں تو شوگر کی دوائی لے رہا ہوں مجھ کو میٹھا کچھ نہیں کہتا۔ اگر ان کو یاد کرایا جائے کہ بھائی ڈاکٹر نے دوا کے ساتھ پرہیز اور ورزش کرنے کا بھی کہا ہے تو وہ جواب دیتے ہیں اصل کام تو دوا نے کرنا ہے میں پرہیز کر کے اپنے منہ کا مزہ کیوں خراب کروں اور ورزش کر کے خود کو کیوں تھکاؤں۔ کچھ لوگ شوگر کا علاج شوگر سے کرتے ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ لوہے کو لوہا کاٹتا ہے۔

ہمارے ہاں کچھ لوگ ہیں وہ اپنے ڈاکٹر خود ہوتے ہیں بلکہ اپنے کیا وہ دوسروں کو بھی مفت مشورہ دیتے نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر وقت گولیوں کو نگلتے نظر آتے ہیں۔ ذرا سا کچھ ہوا ’پینا ڈول‘ استعمال کی، گلے میں خراش ہوئی تو ’انٹی بائیوٹک‘ کا استعمال کر لیا۔ ہمارے ملک میں جتنا ’انٹی بائیوٹک‘ کا استعمال ہوتا ہے اتنا پوری دنیا میں کہیں بھی نہیں ہوتا اور ہم ذرا سے بخار پر اور گلے میں خراش پر ’کورس‘ کر لیتے ہیں۔

ہمارے ہاں چند لوگ ایسے بھی ہیں کہ ان کا ایک ہی نعرہ ہوتا ہے ’پرہیز علاج سے بہتر ہے‘ جو کہ ان کو بیماری سے اکثر دور رکھتا ہے۔ لیکن بعض دفعہ کچھ ایسی بیماریاں ہوتی ہیں جو کسی دوسرے کے ذریعے یعنی وائرس یا بیکٹیریا کی وجہ سے لگتی ہیں جس کا علاج کرنا ضروری ہوتا ہے۔ لیکن کیونکہ انہوں نے قسم کھائی ہوئی ہے کہ دوا کو ہاتھ نہیں لگانا تو اس لیے وہ اس صورت حال میں بھی دوا سے پرہیز کرتے ہیں کیونکہ ’پرہیز علاج سے بہتر ہے‘ ۔

ہمارے ایک دوست کے والد صاحب کو دل کی بیماری ہوئی اور وہ دل کے دورے میں بال بال بچے۔ اگر وہ ہسپتال میں وقت پر نہ پہنچتے تو اللہ کو پیارے ہو جاتے۔ پانچ، سات دن وہ ہسپتال میں داخل رہے اور پھر ڈاکٹر نے ان کو نسخہ لکھ کر فارغ کر دیا اور کہا کہ دل کی دوا کو مستقل کھائیں اور مہینے بعد پھر اپنا معائنہ کروائیں۔ ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے ایک ہفتہ صرف دوائی کا استعمال کیا اور شکایت کی کہ ان دوائیوں کے استعمال سے ان کو کمزوری ہو رہی ہے اور وہ دن اور آج کا دن نہ انہوں نے دوائی کو ہاتھ لگایا ہے نہ ہی ڈاکٹر کے پاس دوبارہ تشریف لے گئے ہیں اور اللہ کا کرنا دیکھیں کہ ان کو ابھی تک دل کا دورہ بھی نہیں ہوا۔

صفدر صاحب نے ایک نسخہ اپنی جیب میں رکھا ہوا ہے جب غور کیا تو معلوم ہوا کہ بیس سال پہلے کسی ڈاکٹر سے لکھوایا تھا۔ ہم نے پوچھا کہ اب تک کیوں سنبھال کر پھرتے ہو تو کہنے لگے کہ جب بھی میں بیمار ہوتا ہوں تو یہی نسخہ دکھا کر دوا لے لیتا ہوں اور میں ٹھیک ہو جاتا ہوں، اس ڈاکٹر کے ہاتھ میں بہت شفا ہے، اس لیے میں نے نسخہ سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔

اس طرح ہمارا معاشرہ دوائیوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہا ہے، دیکھتے ہیں کہ کب تک یہ آنکھ مچولی چلتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments