’طالبان کو افغانستان میں فتح نظر آ رہی ہے تو وہ پاکستان کی کیوں سنیں گے؟‘


ازبکستان میں بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے افغان صدر کی پاکستان پر تنقید کے جواب میں سوال اٹھایا کہ جب افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کی تاریخ کا اعلان کیا گیا تو اس کے بعد کیوں طالبان بات چیت پر راضی ہوئے؟
ویب ڈیسک — پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ طالبان کو جب افغانستان میں اپنی فتح کی امید نظر آ رہی ہے تو وہ پاکستان کی کیوں سنیں گے؟

ازبکستان میں ‘وسطی اور جنوبی ایشیائی خطے میں رابطہ’ کے عنوان سے منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے افغان صدر اشرف غنی کی پاکستان پر تنقید کے جواب میں سوال اٹھایا کہ جب افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کی تاریخ کا اعلان کر دیا گیا ہے تو طالبان کیوں سمجھوتے پر راضی ہوں گے؟

خطاب کے دوران عمران خان نے لکھی ہوئی تقریر کچھ دیر کے لیے پڑھنا چھوڑ دی اور کہا کہ وہ افغانستان کے صدر اشرف غنی کے خطاب کے حوالے سے کچھ کہنا چاہتے ہیں کیوں کہ انہوں نے افغان تنازع میں پاکستان کے منفی کردار کا ذکر کیا ہے۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم نے افغان صدر اشرف غنی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ افغان تنازع سے سب سے زیادہ جو ملک متاثر ہوا ہے وہ پاکستان ہے۔ ان کے بقول پاکستان میں گزشتہ 15 برس میں 70 ہزار شہری ہلاک ہوئے۔ پاکستان کی معیشت اپنے انتہائی مشکل دور سے نکل کر اب بہتری کی جانب جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ یقین دہانی کرانا چاہتے ہیں کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے کسی بھی ملک نے اس قدر سخت جدوجہد نہیں کی جتنی پاکستان نے کی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق افغان صدر اشرف غنی نے کانفرنس سے خطاب کے دوران الزام عائد کیا تھا کہ کئی ہزار جنگجو پاکستان سے افغانستان میں داخل ہوئے ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ طالبان سے مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں طالبان سے جنگ کی جائے گی۔

عمران خان نے کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ افغانستان کے حالات کے لیے پاکستان پر لگائے جانے والے الزامات سے انہیں شدید مایوسی ہوئی ہے۔

افغانستان کی موجودہ صورتِ حال کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہاں جو کچھ ہو رہا ہے یہ سب گزشتہ دو دہائیوں سے جاری ہے اور وہاں شدید تقسیم موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے امریکہ افغانستان میں تنازع کا فوجی حل چاہتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں جس وقت ایک لاکھ 50 ہزار سے زائد فوجی موجود تھے۔ اس وقت طالبان کو کہا جانا چاہیے تھا کہ آئیں اور میز پر بیٹھ کر بات کریں۔

عمران خان نے کہا کہ افغانستان وسطی اور جنوبی ایشیا کو جوڑنے والا قدرتی خطہ اور پل ہے۔ البتہ رابطوں کو برقرار رکھنے کے لیے افغانستان میں امن سب سے اہم ترین جُز ہے۔

افغان تنازع کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن اور استحکام سب سے اہم ہے۔ اس سے خطہ براہِ راست متاثر ہوتا ہے۔

اسلام آباد کے کردار کے حوالے سے وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان میں امن کے قیام اور مفاہمت کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی ہمیشہ حمایت کرتا رہے گا۔ اس سے افغانستان میں بھی ترقی ہو گی اور معاشی استحکام آئے گا۔

افغانستان میں قیامِ امن کے حوالے سے کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان میں سیاسی تصفیے کے لیے تمام پڑوسیوں کے ساتھ ساتھ خطے اور بین الاقوامی طاقتوں کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن کے لیے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی تاکہ تنازعے کا پُر امن حل نکالا جا سکے۔

کابل کی جانب سے پاکستان پر لگانے جانے والے الزامات کے حوالے سے پاکستان کے وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ افغانستان میں جو کچھ اس وقت ہو رہا ہے اس کے لیے پاکستان کو موردِ الزام ٹھیرانا انتہائی غیر منصفانہ عمل ہے۔

اپنے افغانستان کے دورے کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ پاکستان کو اگر افغانستان میں امن کے قیام کی خواہش نہ ہوتی تو وہ کیوں کابل کا دورہ کرتے۔ اس سب کا مقصد یہی تھا کہ افغانستان پاکستان کو امن کے قیام میں شراکت دار کے طور پر دیکھے۔

عمران خان نے ازبکستان کے صدر شوکت میرضیایف کا حوالہ دے کر کہا کہ انہوں نے ازبک صدر سے طویل تبادلۂ خیال کیا ہے کہ کس طرح افغانستان کے پڑوسی ممالک تاجکستان، ازبکستان اور پاکستان مشترکہ طور پر قیامِ امن کے لیے مدد کر سکتے ہیں۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق بعد ازاں وزیرِ اعظم عمران خان اور افغان صدر اشرف غنی کی وفود کے ہمراہ ملاقات اور مذاکرات ہوئے۔ ملاقات میں افغان امن عمل اور خطے کی صورتحال پر گفتگو بھی کی گئی۔

واضح رہے کہ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان ازبکستان کے صدر کی دعوت پر دو روزہ دورے پر جمعرات کو تاشقند پہنچے تھے۔

اس دورے کے دوران پاکستان کا اعلیٰ سطح کا وفد بھی وزیرِ اعظم کے ہمراہ ہے۔ پاکستان اور ازبکستان کے درمیان متعدد معاہدوں اور مفاہمت کی یاداشتوں پر بھی دستخط کیے گئے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ وزیرِ اعظم عمران خان نے ازبکستان کی میزبانی میں بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کی ہے جس کا محور علاقائی رابطوں کے امکانات اور چیلنجز ہے۔

اس کانفرنس میں پاکستان کے وزیرِ اعظم کے علاوہ افغانستان کے صدر اشرف غنی سمیت کئی دیگر ممالک کے اعلیٰ حکام نے بھی شرکت کی ہے۔

یہ کانفرنس ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب خطے کے اہم ملک افغانستان کو ایک غیر یقینی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ ایک طرف غیر ملکی افواج کا انخلا ہو رہا ہے۔ دوسری جانب طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

حالیہ دنوں میں افغان قیادت کی طرف سے پاکستان پر افغانستان میں بدامنی میں معاونت کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔ جمعرات کو افغانستان کے نائب صدر امر اللہ صالح نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کی فضائیہ نے افغان فوج اور افغان فضائیہ کو سرکاری طور پر متنبہ کیا ہے کہ اگر طالبان کو افغان علاقے اسپین بولدک سے بے دخل کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کوششوں کا جواب پاکستانی فضائیہ دے گی۔

پاکستان کی حکومت کی طرف سے اس الزام کی تردید کی گئی۔ تاہم اس تردید کے جواب میں امر اللہ صالح نے کہا ہے کہ پاکستان تو 20 سال تک کوئٹہ شوریٰ کی موجودگی سے بھی انکار کرتا رہا ہے۔

ان بیانات کے باعث پاکستان اور افغان قیادت کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوا ہے اور وزیرِ اعظم عمران خان نے افغان صدر اشرف غنی کی موجودگی میں سینٹرل اینڈ ساؤتھ ایشیا 2021 کانفرنس میں افغانستان میں مداخلت کے الزامات کو مسترد کیا اور انہیں غیر منصفانہ قرار دیا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments