سی پیک سے پاکستانی زراعت کی ترقی


زراعت انسانی تہذیب کی ترقی ایک فعال نمائندہ تھی اور ہے۔ اس صدی میں فصلوں کی پیداواری اور تکنیکی بہتری سے پیداوار میں اضافہ ہوا۔ معیشت میں زراعت اہم کردار ہوتا ہے۔ زرعی ٹیکنالوجی و تحقیق پر توجہ دی اور ریگستان میں بھی فصلیں۔ زراعت ترقی و خوشحالی کی ضامن۔ عوام کی بنیادی ضروریات پورا کرتی ہے۔ صنعت معیشت کی ترقی میں کردار ادا کرتا ہے۔ کسانوں کو سہولیات فراہم کر کے معیشت اور زرعی پیداوار سے متعلق صنعتوں کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔

زرعی شعبہ کی ترقی سے دیہاتوں میں خوشحالی اور آئل شوگر، رائس شیلرز، فلور ملز ٹیکسٹائل، اور لیدر جیسی صنعتوں و دیگر درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ اور خطیر زر مبادلہ معیشت میں منتقل ہوتا ہے۔ کسی ملک کی ترقی کے لیے صنعت اور زراعت لازم و ملزوم ہیں پاکستان زرعی ملک ہے ہماری ترجیحات زراعت، پاکستان کی معیشت میں زراعت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ آئل، رائس شیلرز، فلور ملز، ٹیکسٹائل، شوگر، اور لیدر جیسی صنعتوں و دیگر ان کے روزگار کا دار و مدار زراعت پر یا زراعت سے متعلقہ ہے اور یہ سب زراعت پر یا زراعت سے اثر انداز ہوتے ہیں۔

پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال، ماحول اور موسم بھی زراعت کے لئے بہترین۔ ہر قسم کی غذائی اشیاء کی پیداواری صلاحیت موجود ہے۔ سرسبز جنگلات، آبی وسائل، معدنی پہاڑ اور قدرتی وسائل معیشت کا اہم حصہ ہیں۔ زراعت کو کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل، پاکستان کا کل رقبہ 79.6 ملین ایکڑ، 23.77 ملین ایکڑ، زرعی رقبہ ہے جو کل رقبے کا 28 % بنتا ہے۔ فصلوں کی بدولت قیمتی زرمبادلہ حاصل کر سکتا ہے۔ ماضی میں ملکی زرعی شعبے کی ترقی کی رفتار نہایت سست رہی ہے۔

دنیا کے دیگر ملک زیادہ پیداوار اور ہماری پیداوار کم ہے۔ ناخواندگی کسانوں کا بہت بڑا مسئلہ اور زراعت میں جدت لانے میں رکاوٹ ہے۔ جدید دور میں کسان پرانے طریقوں سے کاشتکاری، زرعی آلات اتنے مہنگے ہیں کہ کسان کی استطاعت سے باہر ہیں۔ اجناس کی کسانوں کو معقول قیمت نہیں ملتی جس سے روزمرہ کے اخراجات بھی پورے نہیں کر پاتے۔

چھوٹے چھوٹے کھیتوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ان میں جدید طریقوں سے کاشتکاری ممکن نہیں ہوتی۔ ساتھ غیر معیار بیجوں کا استعمال سے پیداوار پر کم ہوتی ہے۔ فی ایکڑ فصل خرچہ زیادہ ہوتا ہے۔ ٹیوب ویل یا بجلی کا فکس ریٹ نہ ہونا، مہنگا ڈیزل، مہنگی کھاد، اس کے علاوہ پاکستان اس وقت پانی کی کمی کے خطرناک مسئلے سے دوچار ہے۔ کسان کھیتی باڑی کی بجائے اپنی زرعی زمینیں فروخت کر کے شہروں میں منتقل ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں زراعت کا معیشت میں بہت بڑا کردار ہے۔ پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے جس کی 50 % زیادہ آبادی دیہات میں رہتی ہے اور ان کا تمام تر دار و مدار زراعت پر ہے۔

معیشت کو سنوارنے کے لیے اسے بہتر اور جدید زراعت نظام بنانا لازمی ہے۔ اس سے عوام کو خوشحال کیا جاسکتا ہے ہر سال فی ایکڑ پیداوار کو زیادہ سے زیادہ کہا جائے تاکہ قومی آمدنی میں اضافہ ہو۔ آج کل پوری دنیا میں میکانکی زراعت کا طریقہ رائج ہے جس میں کیڑے مار ادویہ، مصنوعی کھاد، ٹریکٹر، تھریشر وغیرہ کا استعمال شامل ہیں۔ پنجاب کبھی پورے ہندوستان کے صوبوں کو گندم فراہم کرتا تھا مگر اب خود بیرونی ممالک سے گندم درآمد کرنا پڑتی ہے۔ کسان نہ صرف جدید مشینی ذرائع تک رسائی حاصل ہو۔ حکومت اسے وسائل کے حصول میں مدد دے۔ تاکہ ملک غذائی اجناس میں خود کفیل ہو سکیں۔ یہ تب ممکن ہے زراعت کے جدید طریقوں سے استفادہ کیا جائے۔

حکومت زراعت کی ترقی کے لئے انفراسٹرکچر پر توجہ دے رہی ہے۔ آج کل پیداوار کی کامیابی کا انحصار جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر ہے۔ کم جگہوں پر زیادہ فصل یہ کسان کے لئے زیادہ نتیجہ خیز اور منافع بخش ہے، پاکستانی کی زرعی جامعات میں اس پر کام ہو رہا ہے۔ پاکستان کی آبادی زیادہ ہو رہی ہے خو راک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے زراعت کو ترقی دینے کی بہت ضروری ہے۔ زراعت کے جدید طریقے نہ ہونے کی وجہ سے بھی پیداوار میں کمی آ رہی ہے۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری کے پہلے مرحلے کے منصوبوں کے ثمرات عوام کو ملنا شروع ہو گئے ہیں۔ پہلے مرحلے کے منصوبوں میں توانائی کے منصوبے اور انفراسٹرکچر کے منصوبے شامل ہیں۔ اب دوسرے مرحلے میں صنعتی ترقی اور زراعت پر توجہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان سی پیک کے تحت زراعت کو جدید رجحانات ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کر رہی ہے، کاشت کاروں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے اور قومی معیشت میں اس کے مثبت اثرات کو بڑھانے کے لئے خاص توجہ دی جا رہی ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے دوسرے مرحلے میں زراعت کے شعبے پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان چین نے سی پیک کے تحت زراعت کے شعبے میں ترقی کے لئے بھی مشترکہ تعاون کمیٹی تشکیل دیدی گئی ہے۔

سی پیک کا بنیادی مقصد صنعتی ترقی اور توانائی کے بحران کا خاتمہ ہے لیکن درحقیقت اس منصوبہ سے سب سے زیادہ فائدہ ہمارے زرعی شعبہ کو ہوگا۔ زراعت پاکستان کی معیشت کا اہم ستون ہے جس کا جی ڈی پی میں حصہ 21 % ہے۔ زراعت کا شعبہ پاکستان کی ترقی کے لئے کلیدی اہمیت ہے۔ سی پیک کے تحت مقصد کے حصول کے لئے تفصیلی منصوبے ترتیب دیے گئے ہیں جن پر کام کا آغاز ہو چکا ہے۔ زراعت کی میکانائزیشن پر خاص توجہ دی جا رہی ہے۔ بیج اور زراعت کی میکانائزیشن کے ٹیکنالوجی ٹرانسفر / امپورٹ پیکیج، چین سے متوقع سرمایہ کاری اور زرعی سائنسدانوں کی صلاحیتوں کی ترقی شامل ہوگی۔ چئیر مین سی پیک اتھارٹی لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے کہا کہ 2021 میں چین۔ پاک اقتصادی راہداری کے تحت پاک۔ چین صنعتی اور زرعی تعاون پر بھر پور توجہ دے جائے گی۔

چین نے زراعت کے شعبے میں بہت ترقی کی ہے، کاشت کاری کے جدید طریقے، جدید مشینری کا استعمال شا مل ہیں۔ چین میں نہ صرف زرعی پیداوار اضافہ ہوا ہے کسانوں کی آمدنی میں اضافہ، ان کا معیار زندگی بہتر، خوشحالی ہوئی ہے۔ پاکستان چین کے قیمتی تجربات سے سیکھے گا بلکہ چین کی مدد سے کاشت کاری کے جدید خطوط پر بھی استوار ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ زراعت سے وابستہ صنعت کو بھی فروغ ملے گا۔ بلوچستان میں آبپاشی کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ قابل کاشت رقبہ بنجر پڑا ہے، سی پیک میں شامل منصوبوں کے ذریعے دستیاب پانی کو ذخیرہ کرنے اور آبپاشی کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے سائنسی طریقہ کار استعمال کیا جائے گا۔

بلوچستان، چولستان، ڈی آئی خان، سابق قبائلی اضلاع وہاں نئی زرعی تکنیک کو بروئے کار لائیں گے اور زیتون کی کاشت کر سکتے ہیں۔ چین کے زرعی ماہرین پاکستان دورے مقامی افراد کو تربیت۔ سی پیک دوسرے مرحلے میں زراعت کے شعبے میں ٹیکنالوجی کی منتقلی ہے۔ تحقیق کے شعبوں میں تعاون، پودوں کے کیڑوں کی بیماریوں کے پائیدار کنٹرول کے لئے مرکز کے قیام، چین نے زراعت، مویشیوں اور ماہی گیری قومی زراعت ریسرچ سینٹر میں سنٹر آف ایکسی لینس کے قیام کے لئے مالی اعانت، گلگت بلتستان میں تجارتی پیمانے پر چیری کی کاشت، ۔ چائنہ کے ساتھ کپاس کی پیداوار اور ریسرچ پر کام۔ زراعت کے شعبہ کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے جدید ترین ٹیکنالوجی سے استفادہ۔  پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے جیوونکس اینڈ ایڈوانس بایو ٹکنالوجی میں چینی سائنس دانوں کے ساتھ طویل اناج گرین سپر چاول اور اعلی پیداوار دینے والے گنے اور روئی کی ترقی کے لئے بھی کام کر رہے ہیں تھوڑے ہی عرصے میں مقامی کاشت کے لئے فصلیں دستیاب ہوں گی جس سے ملک میں زراعت کے شعبے پر انقلابی اثرات مرتب ہوں گے۔ سی پیک کے دوسرے فیز میں زراعت کی ترقی فروغ مل رہا ہے، پاکستان کو چینی ماہرین کی بھرپور معاونت حاصل رہے گی زرعی پیداوار میں نمایاں اضافہ کیا جا سکے گا۔ چینی ادارے پاکستانی اداروں کے مل کر زرعی پیداوار کو محفوظ رکھنے کے لیے گوداموں نظام ترتیب دیں گے جس میں مصنوعات کی خریداری اور انہیں محفوظ رکھنے کے گودام، عبوری گودام اور بندرگاہ پر بنائے جانے والے گودام شامل ہیں۔ سبزیوں کے پراسیسنگ پلانٹ لگائے جائیں گے۔

ٹریکٹرز، اجناس کو محفوظ بنانے کی مشینری، انرجی سیونگ پمپس، کھادوں اور بیج بونے اور فصل کاٹنے کے آلات خریدنے کے لئے مختلف وزارتیں اور چین کا ترقیاتی بنک بلا سود قرضے فراہم کرے گا۔

100 ایکڑ اراضی پر مرچ فارم کا پائلٹ پروجیکٹ مکمل دوسرے مرالہ مرچ فارم کا رقبہ 3 ہزار ایکڑ تک، دوسرے فیز میں کے پی کے اور سندھ میں 30000 ایکڑ پر کاشت کی منصوبہ بندی، مقامی کسانوں کو ایک ایکڑ سے ایک لاکھ روپے سے زائد ؟ مدنی ہو گی جبکہ 8000 ٹن سے زیادہ خشک مرچیں پیدا ہوں گی ۔ جنوبی پنجاب میں بھی اچھی قسم کی مرچ کاشت اچھا ہے۔ چائے اور دیگر پر کام ہو رہا ہے۔ سی پیک پاکستانی معاشرے اور عوام کی حالت زار میں بہتری کے لئے انتہائی اہم کردار ادا کرے گا۔

حکومت زراعت کے شعبہ کی اہمیت دے رہی ہے، اس کو اپنی ترجیحات میں شامل کر لیا ہے۔ مسائل پر توجہ، اب حل ہو رہے ہیں۔ اس سے زراعت کا شعبہ دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرے گا ان شاء اللہ۔ پاکستان خوشحال ہوگا، عوام آسودہ ہوں گے۔ ان شاء االلہ۔ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے وافر افرادی قوت سے بھی نوازا ہے۔ جو ہنر مند اور باصلاحیت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments