قدرتی آکو پنکچر


اگر آپ اس مضمون کا عنوان قدرتی آکو پنکچر پڑھ کریہ سوچ رہے ہیں کہ ہم آپ کو کسی نئی قسم کے آکو پنکچر کے طریقے کے بارے میں بتا رہے ہیں تو آپ غلط فہمی کا شکار ہیں۔ کیونکہ ہم اس قدرتی آکو پنکچر کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو مکھیاں، چیونٹیاں، مکوڑے اور مچھر بلا معاوضہ آپ کے ساتھ کرتے ہیں۔

مکھیاں دن کو جان بوجھ کر اس وقت آپ کے جسم کے کسی حصے سے آ کر دو تین کی شکل میں اکٹھی ہو کر ٹکرا جاتی ہیں۔ جب آپ ابھی گہری نیند میں ڈوبے ہوتے ہیں۔ نتیجتاً آپ کی نیند خراب ہو جاتی ہے اور آپ سر کھجاتے ہوئے یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ابھی سونے سے پہلے تو نہایا تھا، یعنی جسم پر کوئی ایسی میل نہیں تھی کہ جس کی وجہ سے مکھیوں کو بیٹھنے کا بہانہ مل سکتا تو آخر انہوں نے ایسا کیوں کیا۔

بچپن میں ایک نظم پڑھی تھی جس کے چند اشعار اب تک یاد رہ گئے
یوں تو چھوٹی سی ذات ہے بکری کی
دل کو لگتی ہے بات بکری کی
تو کچھ یہی حال اس مکھی نام کی چیز کا بھی ہے کہ یہ چھوٹی سی مکھی آپ کو ناکوں چنے چبوا دیتی ہے۔

مکوڑوں نے اگر ٹھان لی ہو کہ آپ کو ضرور کاٹنا ہے تو ان کو آپ جتنا نظر انداز کرنے کی کوشش کریں، جتنی کوشش کریں کہ آپ کو انہیں نہ مارنا پڑے لیکن یہ آپ کو کاٹ کر اور اس کے نتیجے میں آپ کے ہاتھوں مر کر ہی رہیں گے۔ اسی لیے سرائیکی زبان میں کسی کے کسی کام کے پیچھے پڑ جانے کو بیان کرنا ہو تو کہا جاتا ہے کہ وہ شخص تو مکوڑے کی طرح ضدی اور ہٹ دھرم ہے۔

ویسے تو کہا جاتا ہے کہ جس جگہ صفائی ہوتی ہے اس جگہ مکھیاں، چیونٹے، مکوڑے وغیرہ نہیں آتے، کسی حد تک تو یہ بات صحیح ہے لیکن تمام تر صفائی ستھرائی کے باوجود یہ اپنے رہنے کا کوئی نہ کوئی ٹھکانہ تلاش کر لیتے ہیں اور پھر اپنی اس کمین گاہ کے مورچے سے آپ پر حملہ آور ہونے کے نت نئے منصوبے بناتے ہیں۔ ان مکھیوں کو آپ کی چائے، پانی، سالن اور مشروب وغیرہ میں تیراکی کرنے کا اتنا شوق ہوتا ہے کہ لگتا ہے کہ یہ اولمپکس میں غوطہ خوری اور تیراکی کے مقابلوں میں حصہ لینے کی تیاری کر رہی ہیں لیکن چونکہ ان کو کوئی ماہر استاد دستیاب نہیں ہوتا تو یہ آپ کے سالن، پانی، مشروب وغیرہ میں کود کر اس کی تیاری کرنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن چونکہ کسی استاد کی خدمات سے محروم ہوتی ہیں، اس لیے ان کی یہ کوشش خود کشی کے زمرے میں آ جاتی ہیں لیکن داد دیجئے ان کی بہادری کو کہ انہیں اپنی صلاحیتیں دکھانے کی اتنی بے تابی ہوتی ہے کہ انہیں اپنی جان جانے کی بھی کوئی فکر نہیں ہوتی۔

ویسے اس مکھی کا آپ کے جسم کے جس کے جس حصے سے بیر پڑ جائے، پھر آپ بار بار ہاتھ کھڑے کیجئے، پنکھا تیز چلائیں، کمرے میں مکھیاں آنے سے روکنے کے کتنے ہی جتن کیجئیے لیکن جس مکھی یا چند مکھیوں کا آپ سے بیر پڑ چکا ہو تو وہ دشمن کے وفادار فوجی کی طرح کوئی نہ کوئی طریقہ دریافت کر کے آپ پر ضرور حملہ آور ہوں گی۔

اسی طرح اگر مچھروں کی بات کی جائے تو آپ رات کو چاہے خود کو کپڑے کی چادر میں کتنا ہی لپیٹ لیں، کتنا ہی تیز پنکھا چلاء لیں، کوئی کوائل جلائیں یا مچھر بھگاؤ محلول لگائیں، یہ کوئی نہ کوئی موقع تلاش کر کے سیدھے آپ کے کان کے قریب آ کر اس طرح بھنبھنائیں گے یا حملہ آور ہوں گے کہ آپ کی آنکھ ایک جھٹکے سے کھل جائے گی۔ اوپر سے ستم یہ کہ محکمۂ توانائی بھی ان مچھروں، مکھیوں کے سہولت کار کار کردار ادا کرتا ہے۔ خاص طور پر رات کو جب بجلی چلی جائے تو ان کی موج ہو جاتی ہے۔

اس موقع پر صارف واپڈا سے یہ شکایت کرنے پر مجبور ہوتا ہے کہ
مجھے گلہ رہزنوں سے نہیں سوال تیری رہبری کا ہے

چیونٹیوں کی کئی اقسام ہوتی ہیں جنھوں نے اپنے اپنے کام بانٹ رکھے ہوتے ہیں۔ مثلاً موٹی چیونٹیاں آپ کو عموماً زیادہ کاٹتی ہیں۔ ایک انتہائی چھوٹی جسامت کی بھورے رنگ کی چیونٹیاں کسی مرے ہوئی کیڑے مکوڑے یا روٹی وغیرہ کے انتہائی باریک باریک ٹکڑے تیار کر کے دوسروں کی دعوت کا اہتمام کرتی ہیں۔ یہ باریک چیونٹیاں عموماً انسانوں کے قریب نہیں آتیں لیکن کبھی کبھار جب کاٹتی ہیں تو ان کا ڈنک سب سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔

ان چیونٹیوں سے بچنے کے لیے آپ اپنی چارپائی یا کرسی کو کھانے وغیرہ کی اشیاء سے پاک رکھنے کی جتنی بھی کوشش کر لیں، یہ کوئی نہ کوئی وجہ تلاش کر کے آپ کی چارپائی پر آ ہی جائیں گی اور عین اس وقت آپ کو کاٹیں گی کہ جب آپ کو ابھی ابھی گہری نیند آئی ہو گی، نتیجتاً آپ ایک انتہائی جھٹکے سے اٹھ بیٹھیں گے، حیرانی سے ادھر ادھر دیکھیں گے پھر سونے کی کوشش کریں گے لیکن اب نیند آپ سے روٹھ چکی ہوگی اور آپ یوں ہی بغیر وجہ کے اختر شماری کرنے پر اور دل ہی دل میں چیونٹی کو کوسنے پر مجبور ہوں گے۔

اس موقع پر آپ کو ”چیونٹی اور چیونٹی خور“ (The Ant and The ardvark) کے کارٹون ضرور یاد آئیں گے اور آپ کی بھی یہی خواہش ہوتی ہوگی کہ کہیں سے ایک چیونٹی خور ”ارے ایک مزیدار چینٹا“ (ہندی میں چیونٹا کو کہتے ہیں ) کا نعرہ ء مستانہ بلند کرتے ہوئے آ جائے اور ان ساری چیونٹیوں کو کھا جائے مگر افسوس کہ آپ کی یہ خواہش پوری نہیں ہوتی۔ ہاں ہم نے چڑیوں کو ضرور چیونٹی اور مکوڑے کھاتے دیکھا ہے اور مینا کو بھی اچھل اچھل کر مکوڑے کو کھاتے دیکھا ہے، ایسے موقع پر دل کو ایک کمینی سی خوشی اور تسلی ضرور ہوتی ہے کہ چلو کوئی تو ہے جو ہمارا بدلہ ان سے لے رہی ہیں۔

ویسے کچھ عرصہ پیشتر جب بھی بارش ہوتی تو برساتی مینڈک اور ان کے بچے ٹرٹراتے ہوئے باہر آ جاتے اور ان مکھیوں، چیونٹیوں اور مچھروں پر حملہ آور ہو جاتے لیکن اب پچھلے کئی سالوں سے ہم نے تو شہر میں کبھی برسات کے موسم میں یہ مینڈک نہیں دیکھے ہیں۔ خدا جانے انسانی حرکتوں کی وجہ سے یا کسی بیماری/وبا کی وجہ سے مینڈک کم از کم شہروں میں تو آنا بند کر چکے ہیں۔

جس طرح سے یہ مکھیاں، مچھر، مکوڑے اور چیونٹیاں بلا وجہ آپ کو ستانے اور تنگ کرنے میں مصروف کار رہتے ہیں تو اس پر ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ ایک نوجوان راہ چلتی لڑکیوں کو چھیڑتا، بزرگوں کو کوسنے دیتا، بچوں کو گالیاں اور کتوں کو لاتیں مارتا چرچ کی جانب رواں دواں تھا۔ جب اس سے اس بے ہودگی کی وجہ پوچھی گئی تو اس نے بتایا ”میں اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے چرچ جا رہا ہوں مگر میرے پاس گناہوں کے ذخیرے کی کمی ہے“ تو کچھ ایسا ہی معاملہ ان مکھیوں، چیونٹیوں، مکوڑوں، مچھروں کا بھی لگتا ہے کہ جیسے یہ اپنے گناہوں میں اضافہ کرنے کے لیے ہم انسانوں کو بغیر کسی وجہ سے ستانے کی کوشش کر رہے ہوں۔

دنیا میں کوئی غریب ہو کہ امیر، بادشاہ ہو کہ گداء، کوئی ان سے محفوظ رہنے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔
ویسے ہمارا خیال ہے کہ ان چیونٹیوں، مچھروں، مکھیوں، مکوڑوں کے بچے اپنے بچپن میں یہ گنگناتے ہوں گے۔
میں چھوٹا سا اک لڑکا ہوں پر کام کروں گا بڑے بڑے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments