گوہر جان کلکتے والی


انیسویں صدی میں انگریزی حکومت کے زیراثر ہندوستان میں نئی نئی ایجادات کی آمد شروع ہوئی۔ گراموفون بھی اس زمانے کی نئی ایجاد تھی۔ آواز کو مشین کے ذریعے ریکارڈ میں بھر لیا جاتا تھا اور پھر گراموفون پر بجا کر سنا جاتا تھا۔ موسیقی ہمیشہ سے ہی ہندوستانی تہذیب کی پہچان سمجھی جاتی تھی اس لیے انگلینڈ کی کمپنی گراموفون اینڈ ٹائپ رائٹر لمیٹڈ نے اپنے ایجنٹ فریڈرک ولیم گیسبرگ کو ہندوستان بھیجا تاکہ ہندوستانی سنگیت کو ریکارڈوں میں بھرا جائے۔

گیسبرگ جولائی 1901ء میں کلکتہ آیا۔ اس نے دیکھا کہ ہندوستان بہت بڑا ملک ہے لیکن اس کی موسیقی کا دائرہ اس سے بھی بڑا ہے۔ وہ حیران تھا اور سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اس کام کی شروعات کہاں سے کی جائے۔ انھی دنوں گیسبرگ کو کلکتہ میں کسی رئیس نے کھانے پر مدعو کیا۔ دعوت کے انتظام سے لے کر ناچنے گانے والیوں تک سب کچھ پھوہڑ پن کا نمونہ تھا۔ موسیقی کی ریکارڈنگ کے لیے حسب خواہش فن کار نہ ملتے دیکھ کر اس نے ناکام ہی انگلینڈ واپس جانے کا ارادہ کر لیا تھا، تبھی اسے کسی اور رئیس کے ہاں سے محفل میں شرکت کی دعوت موصول ہوئی۔ یہ محفل عمدہ معلوم ہوتی تھی۔ ابھی گانے والی پہنچی نہیں تھی لیکن محفل جس طرح اس کی منتظر تھی، گیسبرگ کو اندازہ ہو گیا کہ ضرور کوئی نامی فن کارہ آنے والی ہے۔

فن کارہ بگھی میں سے اتری تو گیسبرگ نے دیکھا شاندار لباس اور قیمتی زیورات سے سجی ایک بے حد خوبصورت لڑکی ہے جو مہمانوں کے ساتھ نہایت شائستگی کے ساتھ مل رہی ہے۔ قریب آنے پر گیسبرگ نے غور کیا کہ لڑکی کا چہرہ مہرہ، رنگت اور قد کاٹھ سب یورپین تھا۔ اسے یوں لگا جیسے اس کے ہاتھ خزانہ لگ گیا ہو۔ لڑکی نے مسکرا کر گیسبرگ کو دیکھا اور خوش خلقی سے انگریزی زبان میں کہا، ’ہیلو جنٹلمین۔‘ گیسبرگ نے تعظیماً سر جھکا دیا۔ محفل شروع ہوئی، لڑکی نے ٹھمری گانا شروع کی اور سماں ہی بدل گیا۔ اس گانے والی کا نام گوہر جان تھا، یہ ایک طوائف تھی اور فن گائیکی اور رقص میں اپنا ثانی نہ رکھتی تھی۔ گیسبرگ نے اسی وقت یہ فیصلہ کر لیا کہ ہندوستان کی پہلی ریکارڈ ہونے والی آواز گوہر جان ہی ہوگی۔

ان دنوں گراموفون رکارڈز کی ریکارڈنگ صرف دو یا تین منٹ کی ہی ہو سکتی تھی۔ ادھر کلاسیکی گانا لمبا ہوتا ہے۔ آلاپ اور بندش میں لے کے بھی تین حصے ہوتے ہیں ولمبت، مدھیہ اور درت۔ اس کے علاوہ بھی کئی چیزیں شامل ہوتی ہیں۔ کلاسیکی موسیقی کو محض تین منٹ میں گانا اور ریکارڈ کروانا چنوتی بھرا تو تھا ہی، بے حد مشکل بھی تھا، اسی وجہ سے اس وقت کے بڑے بڑے گائیکوں نے گراموفون کمپنی کے لیے گانے سے منع کر دیا تھا۔ کلاسیکی موسیقی تو ایک طرف کسی بھی ہندوستانی سنگیت کو محض تین منٹ میں گانا اس زمانے میں بظاہر ناممکن کام تھا۔ لیکن اس چنوتی کو گوہر جان نے قبول کیا۔

آٹھ نومبر 1902ء وہ تاریخی دن ہے جب ہندستان میں پہلی بار گلوکاری کی ریکارڈنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔ گوہر جان یہ ریکارڈنگ کروانے اسٹوڈیو پہنچیں۔ کلکتہ کے ایک ہوٹل کے دو بڑے کمروں کو اس مقصد کے لیے اسٹوڈیو میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ گیسبرگ نے اپنی کتاب میں اس دن کا احوال کچھ یوں درج کیا ہے : ”جب وہ ریکارڈنگ کے لیے آئیں تو ان کے سازندے اس قدر پرجوش تھے کہ میلبا اور کیلوے (یورپ کی دو مشہور اوپیرا گلوکارائیں ) بھی شرما جائیں۔

ہندوستان کی سب سے بڑی گانے والی کی خود اعتمادی بھی بے پناہ تھی۔ وہ اپنی قدر جانتی تھیں، ان سے محنتانہ طے کرنے میں ہمیں پسینہ آ گیا“ ۔ گوہر جان نے کمپنی سے فی ریکارڈنگ کے عوض 3000 روپے طے کیے، جو اس وقت کے حساب سے بہت زیادہ تھے، یہ وہ زمانہ تھا جب سونے کی فی تولہ قیمت 20 روپے تھی۔ گیسبرگ نے مزید لکھا کہ جب بھی وہ ریکارڈنگ کے لیے آتیں تو ہمیشہ خوبصورت اورمہنگا لباس زیب تن کیے ہوتیں اور ایک بار پہنے ہوئے لباس اور زیورات کو انھوں نے دوبارہ کبھی نہیں پہنا۔

وکرم سمپتھ نے اپنی کتاب ’مائے نیم از گوہر جان‘ میں لکھا ہے کہ ریکارڈنگ والے دن گیسبیرگ انھیں سمجھا رہا تھا کہ انھیں گراموفون کے سامنے کس طرح گانا ہے، کوئی حرکت نہیں کرنی ورنہ آواز پر اثر پڑے گا اور یہ کہ گانے کو صرف تین منٹ میں سمیٹنا ہوگا۔ گیسبیرگ سمجھا ہی رہا تھا کہ وہ بولیں، ’ریکارڈنگ شروع کریں مسٹر گیسبرگ‘ ۔ ان کے چہرے پر ایسا اعتماد جھلک رہا تھا گویا وہ اسی کام کے لیے بنی ہیں۔

گوہر جان کے پرانے ریکارڈ سنیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح انھوں نے ٹھمری کو تین منٹ میں ادا کرنے کے لیے گائیکی کے انداز میں اہم تبدیلیاں کیں لیکن کچھ اس طرح کہ گیت کی شیرینی اور کلاسیکیت بھی برقرار رہی۔ ان تبدیلیوں کو بعد میں آنے والے فنکاروں نے جوں کا توں استعمال کیا۔ ’سا‘ کے سر کے ساتھ چند سیکنڈ کا الاپ، پھر مکھڑے کی استھائی۔ گوہر استھائی کو دو تین طرح سے گاتیں اور فوراً ہی انترے پر کچھ دیر رک کر استھائی پر لوٹ آتیں، پھر تان لے کر کچھ دیر مکھڑے پر رکتیں اور استھائی پوری کرتیں۔ گانا ختم ہونے پر بہ زبان انگریزی کہتیں : ”مائی نیم از گوہر جان“

ان کا یہ انداز آج بہت منفرد اور انوکھا معلوم ہوتا ہے لیکن دراصل یہ ایک تکنیکی ضرورت تھی۔ گانے ریکارڈ کر کے اس کی پلیٹس بنانے کے لیے انھیں جرمنی کے شہر ہنوور بھیجا جاتا تھا، وہاں ٹیکنیشنز گانے کو سنتے، ان کی پلیٹس بناتے، اور آخر میں بولے گئے گلوکار کے نام کو سن کر یہ سمجھ جاتے کہ اس گیت کو گایا کس نے ہے۔ پھر اس گلوکار کے نام کا لیبل پلیٹس پر لگا کر ہندوستان کے بازاروں میں بھیج دیا جاتا۔ اس سارے مرحلے سے گزر کر گیت کے ریکارڈ کو ہندوستان کے بازاروں میں آنے میں تقریباً سال بھر کا وقت لگ جاتا۔ گوہر جان کے نئے ریکارڈز کے آنے کی خبر پھیلتے ہی ہندوستان کے بازاروں میں خریداروں کی بھیڑ امڈ پڑتی تھی۔

گوہر جان نے ٹھمری دادرا، بھجن، ہوری اور چیتی کے علاوہ خیال اور دھرپد بھی گایاجن میں جونپوری، پھوپالی، ملتانی، بھیروی اور پہاڑی جیسے راگ بھی شامل ہیں۔ انھوں نے بیس مختلف زبانوں میں گایا اور ان کے گائے ہوئے گیتوں کے چھ سو ریکارڈ بنائے گئے۔

گوہر جان کو ہم ہندوستانی کی پہلی ’انٹرنیشنل سٹار‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان کی شہرت ہندوستان سے باہر بھی موجود تھی۔ آسٹریا میں بننے والی ماچس کی ڈبیہ پر ان کی تصویر ہوتی تھی۔ ڈبیہ پر ’میڈ ان آسٹریا‘ لکھا ہوتا تھا اور وہ آ سٹریا کے علاوہ ہندوستان میں بھی فروخت ہوتی تھی۔ گراموفون رکارڈز کی کمپنیاں ان کی تصویریں شائع کرتی تھیں اور اپنی فروخت میں اضافہ کرتی تھیں۔ ان کی تصویریں پوسٹ کارڈوں پر ہوتی تھیں جنھیں لوگ کتابوں پر چسپاں کرتے تھے۔ پنجاب اور راجستھان کے کٹھ پتلی کھیلوں میں ان کے نام کے کردار بنائے جاتے تھے۔

26 جون 1873ء کو گوہر جان کی پیدائش اعظم گڑھ میں ہوئی تھی۔ ان کے ماں باپ دونوں ہی یورپین تھے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق آرمینیا سے تھا۔ ان کے باپ کا نام ولیم رابرٹ یوورڈ تھا اور وہ کسی آئس فیکٹری میں ملازم تھے۔ ان کی ماں کا نام وکٹوریہ ہیمنگ تھا اور کہا جاتا ہے ان کی پیدائش ہندوستان ہی کی تھی۔ وکٹوریہ کو ناچ گانے کا شوق تھا۔ ولیم اور وکٹوریہ کی شادی 1872ء میں ہوئی تھی اور اگلے ہی برس 26 جون 1873ء کو ان کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام انجیلینا یوورڈ رکھا گیا۔

لیکن اس دوران دونوں کے درمیان ناچاقی ہو چکی تھی اور بات طلاق پر ختم ہوئی۔ وکٹوریہ نے طلاق کے بعد بنارس کا رخ کیا اور ناچ گانے کا پیشہ اختیار کر لیا۔ بنارس میں اس زمانے میں مسلمان طوائفوں کا بول بالا تھا۔ وکٹوریہ نے بھی ترک مذہب کر کے اپنا نام اور پہچان بدل لی۔ خورشید نامی ایک شخص سے نکاح کر لیا، بیٹی کو اینجلینا سے گوہر جان بنا دیا اور خود وکٹوریہ سے بڑی ملکہ جان بن گئی۔ انھیں بڑی ملکہ جان کہنے کی یہ وجہ تھی کہ اس زمانے میں ملکہ جان نامی تین اور مشہور طوائفیں بھی موجود تھیں۔

یہ ان سب سے بڑی تھی اس لیے اسے بڑی ملکہ جان کہا جانے لگا۔ بہت جلد بڑی ملکہ جان نے ایک رقاصہ اور گائیکہ کے طور پر بنارس میں مستحکم ہو گئی۔ اور 1883ء میں کلکتہ میں نواب واجد علی شاہ کے دربار میں اپنا فن پیش کرنے لگی۔ یہی وہ وقت تھا جب گوہر جان کی موسیقی اور رقص کی تعلیم شروع ہوئی۔ گوہر کو پٹیالہ کے کالے خاں عرف کالو استاد، رام پور کے استاد وزیر خاں، اور پٹیالہ گھرانے کے استاد علی بخش نے کلاسیکی موسیقی کی تعلیم دی۔

کتھک استاد برندا دین مہاراج مشہور کتھک رقاص برجو مہاراج کے دادا کے بھائی تھے، ان سے گوہر جان نے کتھک رقص کی تعلیم حاصل کی۔ سرجن بائی سے دھرپد اور چرن داس سے بنگالی کیرتن کی تعلیم پائی۔ درحقیقت بڑی ملکہ جان اور ان کی بیٹی گوہر جان کے پہلے استاد امداد خاں تھے جو ملکہ جان کے گانے کے ساتھ سارنگی پر سنگت کیا کرتے تھے۔

گوہر کی ماں بڑی ملکہ جان چونکہ رقص و موسیقی کی ماہر تھی اس لیے ان فنون کی باریکیوں کو دیکھتے سنتے گوہر کا بچپن گزرا۔ ہندوستانی کلاسیکی موسیقی اور کتھک رقص سیکھنے کے علاوہ گوہر جان نے بنگال کے رابندر سنگیت کی تعلیم بھی حاصل کی تھی۔ اپنی گائیکی سے لوگوں کو حیرت میں ڈال دینے والی گوہر جان پہلی ’ڈانسنگ گرل بھی تھیں۔ اور گراموفون پر ریکارڈنگ کروانے والی پہلی آواز کا اعزاز بھی انھیں حاصل ہے۔ ریاست دربھنگہ کے مہاراج لکش میشور سنگھ کے محل لکش میشور ولاس پیلس میں 1887ء میں جب گوہر نے محض 14 سال کی عمر میں گانا پیش کیا تو وہاں موجود تمام لوگ گوہر کی گائیکی کے قائل ہو گئے۔ گوہر کو شہر دربھنگہ اتنا پسند آیا کہ وہ دربھنگہ راج سے باقاعدہ منسلک ہو گئیں۔ لکش میشور سنگھ جب تک زندہ رہے، دربھنگہ راج سے گوہر منسلک رہیں۔

1896ء میں انھوں نے کلکتہ میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنا شروع کیا، ان کی شہرت بڑھتی گئی اور ملک بھر میں ان کی گائیکی کے چرچے ہونے لگے۔ دسمبر 1911ء میں دلی کے دربار میں پرنس آف ویلز کنگ جارج پنجم کی تاج پوشی کے موقع پر منعقدہ تقریب میں گانے کے لیے گوہر جان کو بلوایا گیا تھا۔ جہاں انھوں نے اپنی ہم عصر گلوکارہ الہ آباد کی جانکی بائی عرف چھپن چھری کے ساتھ مل کر خاص طور پر تیار کی گئی ایک مبارکبادی گائی تھی جس کے بول تھے : ”یہ جلسہ تاج پوشی کا، مبارک ہو، مبارک ہو۔“ جب یہ گیت ختم ہوا تو بادشاہ نے دونوں کے فن کی بہت تعریف کی اور بطور انعام سونے کی سو اشرفیاں پیش کیں۔

گوہر جان نے محفلوں کی گائیکی سے زیادہ اپنی ریکارڈنگ کے ذریعے ٹھمری، دادرا، کجری، چیتی، بھجن اور ترانہ دور دور کے لوگوں تک پہنچایا۔ اس وجہ سے ان کی شہرت اس تیزی سے پھیلی کہ وہ بیسویں صدی کی تین دہائیوں تک ہندوستانی کی سب سے بڑی گائیکہ بنی رہیں۔ محفل میں گانے کا بلاوا دینے کے لیے آنے والے قدر دانوں سے جب تک وہ سونے کی سو اشرفیاں نہ دھروالیتں، محفل میں جانے کی حامی ہی نہ بھرتیں۔

ہندوستان کی سب سے بڑی گائیکہ کو بڑے بڑے راجے مہاراجے اپنی محفلوں میں بلانا اپنے لیے شان کی بات سمجھتے تھے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ نہایت دلچسپ ہے۔ مدھیہ پردیش کی ریاست دتیہ کے راجہ نے انھیں اپنے دربار میں گانے کے لیے مدعو کیا۔ چھوٹی ریاست جان کر گوہر جان نے دعوت قبول نہ کی۔ دتیہ کے راجہ نے بنگال کے گورنر پر اپنا اثر رسوخ استعمال کر کے گوہر کو آنے پر رضا مند تو کر لیا لیکن گوہر نے جشن میں شرکت کی کڑی شرائط رکھیں۔

انھوں نے اپنے لیے علیحدہ شاہی ریل گاڑی کا مطالبہ کیا جس میں ان کے ہمراہ ان کے سازندوں، خانساماں، دھوبی، حکیم اور دوسرے عملے نے بھی جانا تھا۔ گوہر نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ انھیں 2000 روپے یومیہ اعزازیہ دیا جائے گا۔ مہاراج نے ان کی ساری شرائط پوری کیں۔ لیکن انھوں نے گوہر کی ان شرائط کو اپنی توہین پر محمول کیا۔ گوہر کو پورے اعزاز کے ساتھ ٹھہرایا گیا۔ جشن کئی دن جاری رہا لیکن گوہر کو ایک دن بھی گانے کے لیے مدعو نہ کیا گیا۔ البتہ ان کا معاوضہ انھیں ہر روز پہنچتا رہا اور ان کی مہمان نوازی میں بھی کوئی کمی نہ کی گئی۔ گوہر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انھوں نے دتیہ کے مہاراج سے معافی مانگی۔

شہرت کے ساتھ ساتھ دولت کی دیوی بھی ان پر مہربان تھی۔ محل نما گھر، قیمتی زیورات، موٹر گاڑیاں اور مہنگے ملبوسات۔ اس زمانے کے ہندوستان کی وہ پہلی کروڑ پتی گائیکہ تھیں جو ملکاؤں کی طرح ٹھاٹ باٹ سے رہتی تھیں۔ شاہ خرچ ایسی کہ پالتو بلی نے جب بچے دیے تو انھوں نے اپنی کوٹھی پر ایک جشن برپا کیا جس میں بیس ہزار روپے پھونک ڈالے جو آج کے کروڑوں کے برابر ہوں گے۔ وہ دولت مند تھیں اور اس دولت کی نمائش بھی خوب کرتی تھیں۔

اکثر شام کو سج دھج کر، چھ گھوڑوں والی بگھی میں بیٹھ کر کلکتہ کی سڑکوں پر سیر کرنا اور اپنی دولت اور حسن کی نمائش کرنا گوہر کا شغل تھا۔ کہتے ہیں ایک شام وہ اپنی چھ گھوڑوں والی بگھی میں بیٹھی کلکتہ کی سڑک پر چلی جا رہی تھیں کہ اسی وقت انگریز گورنر کی سواری بھی وہاں سے نکلی۔ ان کی یورپین رنگت اور شان و شوکت دیکھ کر گورنر انھیں بنگال کے کسی شاہی خاندان کی فرد سمجھا۔ وہ اپنی گاڑی سے اتر آیا اور سر سے ہیٹ اتار کر انھیں سلام کیا۔

گوہر نے ایک شان بے نیازی سے سلام کا جواب دیا اور ان کی بگھی فراٹے بھرتی وہاں سے گزر گئی۔ بعد میں جب گورنر کو معلوم ہوا کہ یہ کسی شاہی خاندان کی فرد نہیں بلکہ ایک طوائف تھیں تو وہ بہت بگڑا۔ اس نے چھ گھوڑوں والی بگھی رکھنے پر گوہر جان پر ایک ہزار روپے کا جرمانہ کر دیا۔ اس زمانے میں ایسی سواری پر صرف شاہی لوگ استعمال کر سکتے تھے۔

گوہر صرف رقاصہ اور گائیکہ ہی نہیں تھیں، وہ شاعرہ بھی تھیں۔ انھیں اردو شعر و شاعری سے بے انتہا لگاؤ تھا اور وہ ہمدمؔ تخلص کیا کرتی تھیں۔ گوہر جان ہمدم ؔ کا کلام تو حوادث زمانہ کی نذر ہو گیا البتہ ان کا ایک شعر اب بھی ان کے چاہنے والوں کے حافظے میں محفوظ ہے :

شاید کہ یاد بھولنے والے نے پھر کیا
ہچکی اسی سبب سے ہے ہمدمؔ لگی ہوئی

گوہر جان کے کئی قصے مشہور ہیں۔ کہتے ہیں ایک جلسے میں اس زمانے کی ایک اور مشہور گانے والی بے نظیر بائی کو گوہر سے پہلے اپنا گانا پیش کرنا تھا۔ بے نظیر بائی سر سے پاؤں تک ہیرے جواہرات سے مزین زیورات سے سجی ہوئی تھی۔ بے نظیر جب گا چکی اور گوہر گانے کے لیے جانے لگیں تو جانے سے پہلے انھوں نے بے نظیر سے کہا ہمارے زیورات کے ہیروں اور جواہر میں چاہے کتنی ہی چمک ہو، لیکن محفل میں صرف ہمارا فن ہی چمکتا ہے۔ یہ کہہ کر انھوں نے اپنا گانا شروع کیا۔

گوہر کا بے مثل فن دیکھ کر بے نظیر اٹھ کر گوہر جان کے پاس گئی اور اپنے تمام زیورات اتار کر گوہر کے قدموں میں ڈھیر کریے اور کلاسیکی سنگیت کی تربیت پھر سے لینا شروع کردی۔ دس برس بعد ایک محفل میں ان دونوں گائیکاؤں کا پھر سے آمنا سامنا ہوا، گوہر جان نے بے نظیر کا گانا سن کر کہا، خوش رہو، اب واقعی تمھارے زیورات چمک رہے ہیں۔

ایک بار گوہر جان اپنی سہیلی جانکی بائی سے ملنے الہ آباد گئیں، مشہور شاعر اکبر الہ آبادی بھی قریب ہی رہتے تھے۔ گوہر نے جانکی بائی سے کہا میرا دل چاہتا ہے اکبر الہ آبادی سے ملا جائے۔ جانکی بائی نے کہا کہ آج میں وقت مقرر کرلوں گی تو کل چلیں گے۔ چنانچہ دوسرے دن دونوں اکبر الہ آبادی کے ہاں پہنچیں۔ جانکی بائی نے تعارف کرایا اور کہا یہ کلکتہ کی نہایت مشہور و معروف مغنیہ گوہر جان ہیں۔ آپ سے ملنے کا بے حد اشتیاق تھا، لہذا ان کو آپ سے ملانے لائی ہوں۔

اکبر نے کہا، زہے نصیب، ورنہ میں نہ نبی ہوں نہ امام، نہ غوث، نہ قطب اور نہ کوئی ولی جو قابل زیارت خیال کیا جاؤں۔ پہلے جج تھا اب ریٹائر ہو کر صرف اکبرؔ رہ گیا ہوں۔ حیران ہوں کہ آپ کی خدمت میں کیا تحفہ پیش کروں۔ خیر ایک شعر بطور یادگار لکھے دیتا ہوں۔ یہ کہہ کر مندرجہ ذیل شعر فی البدیہہ ایک کاغذ پر لکھا اور گوہر جان کے حوالے کیا:

خوش نصیب آج بھلا کون ہے گوہر کے سوا
سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا

ایسا نہیں تھا کہ رقص و موسیقی کے اس سفر میں محبت نے کبھی گوہر کے دل پر دستک نہ دی تھی۔ 1904ء میں ان کی ملاقات تھیٹر کے ایک فن کار امرت کیشو نایک سے ہوئی تھی۔ امرت پارسی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ ملاقات ہوتے ہوتے محبت میں بدل گئی تھی ممکن تھا کہ دونوں شادی کرلیتے لیکن قسمت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا، چند ہی سال بعد یعنی 1907ء میں امرت کیشو کا انتقال ہو گیا۔ گوہر کے لیے یہ صدمہ ناقابل برداشت تھا۔ انھوں نے پھر عمر بھر شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا، لیکن اکبر الہ آبادی کا شعر شاید ان کے دل میں تیر بن کر لگا تھا، انھوں نے واپس آتے ہی اپنے سیکریٹری عباس کے ساتھ، جو عمر میں ان سے بہت چھوٹا تھا، شادی کرلی۔

لیکن یہ شادی بھی کچھ ہی عرصے چل پائی۔ دراصل عباس شروع ہی سے ان کے ساتھ وفادار نہیں تھا اس کی نظر گوہر جان کی مال و دولت اور جائیداد پر تھی۔ دونوں کے درمیان جب ناچاقی شروع ہوئی تو طلاق کا معاملہ عدالت تک پہنچ گیا۔ مہنگے وکیلوں کی فیسیں ادا کرنے اور کورٹ کچہری کے چکر کاٹنے میں گوہر کی جائیداد کا بڑا حصہ فروخت ہو گیا، ان کی مالی حالت دن بہ دن خراب تر ہوتی چلی گئی۔

عمر کے آخری حصے میں انھیں میسور کے راجہ کرشن وڈیار کی جانب سے دربار میں آنے کا دعوت نامہ ملا۔ ناکام محبت اور ٹوٹی ہوئی شادی کے بعد مالی تنگی نے گوہر جان کو گھیر رکھا تھا۔ انھوں نے بخوشی اس دعوت نامے کو قبول کر لیا۔ 1928ء میں وہ میسور کے شاہی محل چلی گئیں، جہاں یکم اگست کو انھیں شاہی گائیکہ قرار دیا گیا، لیکن وہ صرف اٹھارہ مہینے ہی اور جی پائیں، 17 جنوری 1930 کو ان کا انتقال ہو گیا۔ انھوں نے 57 برس کی عمر پائی۔ برصغیر کی موسیقی کی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ اس خصوصیت کے باعث زندہ رہے گا کہ وہ پہلی ایسی گلوکارہ تھیں جن کی آواز ریکارڈوں کے ذریعے ہم تک پہنچی اور آج ہم ایک صدی سے زیادہ پرانی اس گائیکی کو سن سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments