آزادی، ہمارے ادارے اور انصاف کا حصول


\"\"لوگ اکثر بھول جایا کرتے ہیں کہ برصغیر پاک و ہند، بشمول بنگلہ دیش کی آزادی کسی مسلح انقلابی جد وجہد کا نتیجہ نہیں ہے۔یہ ایک طویل آئینی ارتقا کی داستان ہے۔جس میں قائداعظم اور گاندھی جی کی تکون نے بنیادی کردار ادا کیا۔قائداعظم اور گاندھی جی کا فطری رحجان پر امن کاوش سے حقوق کا حصول تھا۔برصغیر کی داستان آزادی کی یہی خوبی ہے، یہی خرابی ہے۔
مذکورہ بالا ہر دو حضرات نے ڈومینن سٹیٹس سے اپنا مطالبہ حقوق شروع کیا۔یہ توحالات و واقعات نے آزادی کے اس سفر پر اپنا اثر اس حد تک دکھایا کہ یہ فدویانہ درخواست مکمل آزادی کی تحریک میں بدل گئی۔ اس تناظر میں کسی مسلح انقلابی جماعت کی عوامی جڑیں نہ ہونے کا سب سے زیادہ فائدہ انگریزی سرکار کو ہوا۔وہ آخر تک بادشاہ اور بادشاہ گر رہے۔
دوسری عالمی جنگ کے نتائج میں سے ایک نتیجہ تھا کہ برطانوی سامراج ازحد کمزور ہو گیاجس کا ضمنی فائدہ برطانوی مقبوضہ جات کو ہوا۔ (تصور کریں کہ دوسری عالمی جنگ میں ابھی وہ مقام ہے جس وقت جرمنوں کے ہاتھوں انگریزوں کی پٹائی ہورہی ہے۔اسی زمانے میں گاندھی جی نے \’ ’ہندوستان چھوڑ دو‘ کی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا۔ اگر اس تحریک کے پیچھے مسلح انقلابی قوت موجود ہوتی تو سامراج کا کیا حال ہوتا اور آزادی کی تاریخ کتنی مختلف ہوتی؟)۔حقیقت میں گاندھی جی کا بنا کسی تیاری کے یہ اعلان انگریز حکومت کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوا۔ جوش وجذبے سے بھرے سرپھرے نوجوان اور کانگرس کی تمام قیادت نظر بند کر دی گئی۔(اس کا موازنہ ایم آر ڈی کی تحریک سے کیا جائے تو شاید بات زیادہ واضح
ہو جائے۔ضیا حکومت کے خلاف جو عوامی غم وغصہ تھا اسے بغیر کسی تیاری کے میدان میں جھونک دیا گیا۔شاید اس ڈر سے کہ یہ تحریک کوئی انقلابی رخ نہ اختیار کر لے۔اس معاملے میں بہر حال استحصالی طبقے غفلت کا مظاہرہ نہیں کرتے)۔ہندوستان چھوڑ دو کے ضمن میں جناح صاحب کا تجزیہ درست ثابت ہوا ، مسلم لیگ کو تنظیم سازی کے لیے مزید وقت مل گیاجبکہ کانگرس کے اعلیٰ سطح کے رہنما عوام اور زندگی سے کٹے زنداں میں وقت گزار رہے تھے۔
مسلح انقلابی قوتوں کے نہ ہونے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہو سکتا تھا کہ یہ خطہ قتل و غارت گری سے بچ جاتا کیونکہ جہاں مسلح جدجہد ہو تی ہے وہاں آزادی کے لیے لڑنے والے گروہوں کے مابین قتل و غارت گری ایک معمول بن جاتا ہے جیسا کہ ہم انگولا سے افغانستان تک دیکھ چکے ہیں اور دیکھ رہے ہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ سامراج کے خلاف گوریلاجنگ نہ لڑنے کے باوجود تاریخ انسانی میں سب سے بڑی ہجرت اور مکمل مذہبی صفائی ہمارے حصے میں ہی آئی۔خصوصاً پنجاب میں۔اس ضمن میں چند پہلو ایسے ہیں جو ابھی بھی تاریک ہیں۔مثلاً راولپنڈی اور اس کے دیہات میں سکھ مسلم فساد جو غالباً اس سلسلے کی اولین کڑی ہیں۔اسے جس طریقے سے بے قابو ہوجانے دیا گیا وہ حکومت وقت کی انشا و منشا کے بغیر ممکن نہ تھا۔اگست، ستمبر1947 ءکے زمانے میں ایک شخص دہلی کے گورنرجنرل ہاﺅس میں منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنستا ہو گا۔یہی فرد دل میں یہ بھی کہتا ہو گا ، اب لو آزادی کے مزے۔بہر حال ہمیں اس کی تعریف کرنا ہو گی کہ دو سو سال تک برصغیر کو لوٹنے کے بعد بھی اس کا الوادع گالیوں، جوتیوں اور پھٹکار سے نہیں ہو رہا بلکہ اعلیٰ حضرت آزاد بھارت کے پہلے گورنر جنرل بننے کا اعزاز حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہے۔ ویسے کانگرس،خصوصاً چاچا نہرو کی وطن پرستی اور آزادی کی لگن کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
پیارے بڑوں، پاکستان اورہندوستان نے آزادی، برطانوی حکومت کے ایک پارلیمانی بل کی منظوری کے تحت حاصل کی ہے۔اس ’پر امن‘ انتقالِ اقتدار سے حکومت کرنے کے وہ تمام ادارے محفوظ و مستحکم ہو گئے جو انگریز کی عطا تھے بلکہ ہیں۔ہمارے ہاں یعنی برصغیر میں کسی ادارے ، کسی سوچ یا کسی کام کو مطعون قرار دینا ہو تو اسے انگریزی سرکار کی یا دگارکہہ دینا کافی ہے۔باقی کام خود بخود ہو جا ئے گا۔ حالانکہ یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ انتظامیہ، پولیس اور ٹیکس جمع کرنے والی مشینری ہر دور میں ہر حکومت کی ضرورت ہوتے ہیں۔ خیال رہے کہ جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد انگریزی سرکار نے شعوری طور پر مغلوں کی نشانیوں کو دبانے اور نظر انداز کرنے کا عمل اختیار کر لیا تھا۔تاہم اکبراعظم کے زمانے میں راجہ ٹوڈر مل کا بنایانظام سامراجی حکمرانوں نے بھی جاری و ساری رکھا۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بھا رت اور پاکستان کی نو زائیدہ ریاستوں کے لیے منطقی راستہ ہی یہ تھا کہ’\’ انگریز کے بنائے نظام‘ کو جاری رکھیں۔ انتظامیہ، حفاظتی محکمے ، عدلیہ اور ٹیکس کی وصو لی۔
جب سے تہذیب انسانی معاشرتی پیچیدگی کے اس مقام تک پہنچی ہے جہاں ریاست کا قیام ناگزیر ہو جاتا ہے، یہ تمام ادارے ہمیشہ ہی ریاست کا جزوِ لاینفک رہے ہیں۔ باقی رہ گئے ریلوے، ڈاکخانہ اور تار برقی۔ جدید زمانے کی یہ ایجادات بھی انگریزی دورسے ہی ہماری ثقافت کا حصہ بن چکی ہیں۔اصولاً یہ ادارے اب بھارتی، پاکستانی یا بنگلہ دیشی قوم کے ادارے ہیں۔بدقسمتی سے عمل میں یہ اصول کارفرما نظر نہیں آتا۔بلکہ عام شکایت یہ ہے کہ یہ تمام ادارے انگریزوں کے زمانے سے زیادہ بدعنوان اور نااہل ہو چکے ہیں۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان اداروں کی کایا کلپ کیسے ہو؟ اداروں کا عمومی رویہ سی ایس ایس میں کامیاب ہونے والے افسران کا ہوتا ہے جو اپنی تربیت کے ناگزیر اثرات کے تحت پاکستانی ’عوام‘ کا حقارت سے ذکر کرتے ہیں۔ یہ افسران آپ کو الہامی سچ کے طور پر اس قوم کے دو واقعات ضرور سنائیں گے۔اول مقام اس بوڑھے کے قصے کا ہے جو بستر مرگ پر پڑا اپنے بیٹوں کو کہتا ہے کہ میں بیکار مر رہا ہوں، بہتر یہ ہے کہ تم مجھے شدید زخمی کر دو تاکہ میں مرنے سے پہلے پولیس کو اپنے آخری بیان کے طور پر دشمنوں کا نام لے سکوں۔دوسرا انعامی واقعہ اس چور یا ڈاکو کا ہے جو تین دن سے الٹا لٹکا اپنی تواضع کروا رہا ہے۔جب پولیس کا اعلیٰ افسر تفتیش کا جائزہ لینے آتا ہے تو ملزم کو بھی لعنت ملامت کرتا ہے کہ وہ بتا کیوں نہیں دیتا؟اس پر ملزم کہتا ہے کہ اگر اسے اس کی پسند کا کھانا کھلایا جائے تووہ سب کچھ بتا دے گا۔اس پر افسر خوش ہو کر اس کی تمام فرمائشیں پوری کرتا ہے۔کھانا کھا کر ملزم کہتا ہے۔’لے وئی افسرا ، جے توں اے روٹی منوا لویںتے میں تینوں من جاوا ںگا‘۔
اس کے بعد یہ ’حقائق‘ سنانے والے افسر کا چہرہ دیکھنے والا ہوتا ہے۔جس حقارت سے وہ ایک ایسی قوم کا ذکر کرتا ہے جو مرتے ہوئے بھی درست بیان نہیں دیتی اور جس کی ڈھٹائی کا یہ عا لم ہے کہ آپ آنکھوں دیکھا بھی منوا نہیں سکتے۔یہ منظر دیکھنے سے تعلق رہتا ہے۔ہم جیسے نیاز مند تو اِن فرمودات کے بعد احتیاطاً صاحب کی جلد کا رنگ اور چہرہ ایک دفعہ پھر دیکھ لیتے ہیں کہ تاج برطانیہ کا یہ نمائندہ کب پاکستان تشریف لایا ہے!
اس ضمن میں ایک درخشاں استثنا جنرل(ر) راحیل شریف کا طرزِ کمانداری تھا۔جنرل مذکور کے محاذ پر جوانوں کے ساتھ عیدین سے لیکر شہدا کے ورثا سے افسوس تک، ڈھیر سارے اقدامات ایسے ہیں جو پاکستانی فوج کے پاکستانی سپہ سالار کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔تاہم عمومی سوچ اب بھی یہی ہے کہ انگریز نے جو ادارے اپنے سامراجی مفادات کے تحفظ کے لیے بنائے تھے، ان کا کردار تبدیل نہیں ہوا۔بلکہ برصغیر کی تینوں جانشین ریاستوں میں اداروں کا استحصالی کردار بڑھا ہے۔ان سارے اداروں میں سب سے اہم اور بنیادی کردارانصاف کر نے والے اداروں کا ہے۔ اس ضمن میں امید کی کرن پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کی شکل میں اب بھی موجود ہے۔چوہدری افتخار سے پہلے جو عدلیہ آمروں اور انتظامیہ کی شکل دیکھ کر فیصلے کیا کرتی تھی اب وہ ایک خودمختار اور باوقار ادارہ ہے۔چوہدری افتخار صاحب کے زمانے سے ہی ایک عام پاکستانی عدالت عظمیٰ کو اپنی آخری پناہ گاہ سمجھتا ہے۔اس تصور کو قائم و دائم رکھنا ایک بہت بڑی اور مسلسل ذمہ داری ہے جو عدلیہ کو نبھانی ہے۔ایک اور خوشگوار اضافہ لاہور ہائی کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس ہیں۔تاہم شخصی نیک نیتی کو ادارہ جاتی اصلاحات میں بدل کرعدالتی نظام کا مستقل حصہ بنانے کے لیے بہت محنت درکارہے۔لیکن وقت بالکل نہیں ہے کیونکہ زیریں عدالتی نظام کا جو حال ، وکلا کے خصوصی تعاون کے با عث ہو چکا ہے ،وہ فوری اصلاح کا متقاضی ہے۔ورنہ اس وقت ہم جانتے ہیں کہ جو فرد، خواہ مجرم ہو یا معصوم، اس عدالتی گرداب میں آ جائے اس کی زندگی تباہ ہو جائے گی۔
ایک ایسا نظام وضع کرنا جس میں زیریں سطح پر بھی مقدمات کا فیصلہ تین ماہ کے اندر اندر ہو جائے،وقت کی پکار ہے۔ ایسا کیوں نہیں ہوتا ؟
عدالتوں میں مقدمات کی بھر مار اس کی بنیادی وجہ بیان کی جاتی ہے۔ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ مقدمہ سننے کے بعد بھی فیصلہ نہیں کیا جاتا۔ بجائے اس کے کہ ایسے خواتین و حضرات سے جواب طلبی کی جائے، سیشن کی سطح کے جج صاحبان سے اظہار ہمدردی کیا جاتا ہے کہ وہ بے چارہ کیا کرے ، روزانہ کے مقدمات کی فہرست ایک سو پچیس یا ایک سو پچاس ہوتی ہے۔حالانکہ ہمیں یہ فہرست ہی بتا رہی ہے کہ سائلین کو ذلیل کرنے کے علاوہ کچھ بھی کرنے کی نیت نہیں ہے۔ورنہ ایک دن میں ڈیڑھ سو مقدمات کی سماعت کون انسان کر سکتا ہے؟
اصولاً کسی بھی منصف کو چھ تا آٹھ مقدمات سے زیادہ روزانہ کی بنیاد پر نہ سننے پڑیں۔لیکن یہ ہے کہ پھر جواب بھی طلب کیا جائے کہ فیصلہ تین ماہ میں کیوں نہیں ہوا۔ اس ضمن میں ایک تجویز تو ہم بھی دے سکتے ہیں کہ جس وکیل، موکل یا منصف کی وجہ سے مقدمے کی پیشی اگلی تاریخ پر جا پڑے اسے پہلی دفعہ پچاس ہزار، دوسری پیشی ملتوی کروانے پر ایک لاکھ، پھر پانچ لاکھ اور اسی نسبت سے بڑھتا ہوا جرمانہ کیا جائے۔ ایسے موکل اور وکیل کا نام بلیک لسٹ میں شامل کیا جائے اور ایسے منصف کو نوکری سے نکال دیا جائے۔باقی ظاہر ہے یہ نظام مکمل تطہیر مانگتا ہے۔
چیف جسٹس صاحبان کی زیر نگرانی ایک ایسا کمیشن قائم کیا جائے جو فوری انصاف کے لیے ایک قابل عمل طریقہ کار وضع کرے۔معاشرے کی بہتری کے لیے یہ ایک ایسا قدم ہے جو خلوص دل کے ساتھ ساتھ ٹھوس قوت کار مانگتا ہے کیونکہ اٹھارہویں صدی سے موجودہ زمانے میں جست لگانے کے لیے انصاف پر مبنی سماج بنیادی شرط ہے۔عدلیہ کی سمت درست ہو جائے تو باقی اداروں کو درست ہونے میں وقت نہیں لگے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments