داسو میں چینی انجینیئرز کی بس میں ’دھماکہ‘، عینی شاہدین اور حکام کیا بتاتے ہیں؟

حمیرا کنول - بی بی سی اردو ڈاٹ کام


پاکستان، چین، بس، حادثہ، حملہ، کوہستان
داسو ہائیڈرو پاور منصوبے میں کام کرنے والی چینی کمپنی غضوبہ کی بس میں دھماکے کے بعد عملے کو چھٹی دے کر تیزی سے جاری کام کو فی الحال روک دیا گیا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ اس حوالے سے اب وہاں مکمل خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ حادثے سے چند کلومیٹر کی دوری پر داسو شہر میں اب اس خبر پر زیادہ بات نہیں کی جا رہی اور معمولاتِ زندگی بحال ہو چکے ہیں۔

یہاں کام کرنے والے پاکستانی مزدور گھروں کو لوٹ رہے ہیں لیکن انھیں یہ نہیں بتایا گیا کہ کام دوبارہ کب شروع ہو گا۔

ایسے ہی ایک مزدور نے بی بی سی کو بتایا کہ بدھ کو ’ہمارا قافلہ صبح سات بجے کے بعد اپنے معمول کے مطابق چائنہ غضوبہ کیمپ، برسین سے باہر نکلا۔ ابھی پانچ منٹ ہی گزرے تھے، یوں کہیے کہ ہم نے تقریباً 500 میٹر کا فاصلہ طے کیا ہوگا تو ایک زور دار دھماکے کی آواز سنائی دی اور ہر جانب مٹی اور دھوئیں کے بادل اٹھنے لگے اور پھر اندھیرا سا چھا گیا۔

’ہوا بہت تیز تھی اس لیے پہلے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ جس بس میں چینی اہلکار موجود تھے سڑک پر دکھائی نہیں دے رہی تھی وہ ہوا میں پلٹا کھا کر کئی فٹ نیچے کھائی میں گری جو دریائے اباسین کا کنارہ ہے۔ پھر ہم اپنی گاڑیوں سے نیچے اترے۔ اور دریا کے کنارے زخمیوں کی مدد کے لیے دوڑے۔‘

جس مقام پر یہ حادثہ ہوا وہاں سے پاکستانی حکام نے شواہد اکھٹے کر لیے ہیں۔ اگلے ہی روز چینی سفیر اور ملٹری اتاشی سمیت چین کے اعلیٰ حکام نے اس مقام کا دورہ کیا اور ایک چینی ٹیم نے بھی الگ سے شواہد اکھٹے کیے ہیں۔

مقامی افراد کا کہنا ہے کہ جمعرات کو اعلیٰ حکام کے دورے بعد خاموشی چا چکی تھی لیکن جمعے کی شام ایک بار پھر پولیس سکواڈ کے ہمراہ ایک اعلیٰ وفد داسو پہنچا۔

بی بی سی سے گفتگو میں مزدور نے شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ پراجیکٹ پر کام کے لیے جانے والے ہمارے قافلے میں دیگر گاڑیوں کے علاوہ رینجرز کی گاڑیاں بھی ہوتی ہیں۔

‘اس روز بھی ایسا ہی تھا ہم برسین کیمپ جو مرکزی شہر کومیلہ/ داسو سے سات کلومیٹر دور ہے پر شاہراہ قراقرم کے ایک موڑ پر تھے جب چلتے چلتے ہم سے آگے جانے والی ایک گاڑی کے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ کیمپ سے ڈیم کی سائٹ پر پہنچنے کے لیے اُنھیں روزانہ گاڑی میں تقریباً آدھا گھنٹہ لگتا تھا۔

’ایک شفٹ میں چینی ورکرز بشمول انجینئیرز اور عملے سمیت تقریباً ڈیڑھ سو سے دو سو مزدور ہوتے ہیں، چینیوں کے لیے الگ گاڑیاں ہوتی ہیں جن کے اندر بھی سکیورٹی اہلکار ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ اور صبح و شام کی دونوں شفٹوں میں یہی معمول ہوتا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ یہ قدرے خراب اور دشوار گزار راستہ ہے کیونکہ متبادل شاہراہ قراقرم کے لیے اس علاقے میں بائی پاس تعمیر ہو رہے ہیں۔ موجودہ سڑک کی چوڑائی 22 فٹ ہے۔ اس لیے گاڑی 20 سے 25 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہی چلتی ہے اور دو گاڑیوں کے درمیان ہمیں بہت فاصلہ رکھنا پڑتا ہے۔

بس حادثہ

وہ کہتے ہیں کہ بدھ کی صبح جب ہم شاہراہ قراقرم کے ایک موڑ پر پہنچے تو یہ واقعہ ہو گیا۔

’سب لوگ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ کسی کا ہاتھ ٹوٹا ہوا تھا کوئی زخمی تھا۔ نیچے دریا کے پاس موجود بس کے گرد زخمی چینی بکھرے ہوئے تھے۔ اوپر موجود چینیوں کو رینجرز اہلکاروں نے نیچے نہیں جانے دیا۔ اس لیے ہم مقامی لوگ نیچے گئے ریسکیو والے بھی پہنچ آئے تو ایک ڈیڑھ گھنٹے میں ہم زخمیوں کو نیچے سے اوپر لے کر آئے اور پھر دیہی مرکز صحت، آر ایچ سی داسو پہنچایا۔‘

وہ کہتے ہیں چونکہ پاکستانی کیمپ اوچھار اور چین کا کیمپ برسین دونوں جائے وقوعہ سے زیادہ دور نہیں تھے اس لیے وہاں سے بھی جلد ہی عملہ یہاں آ گیا۔

بی بی سی سے گفتگو میں اس پراجیکٹ میں شامل مقامی مزدور نے بتایا کہ حادثے والی گاڑی تو مکمل طور پر تباہ ہوئی تاہم اس کے آگے اور پیچھے جانے والی گاڑیوں کے شیشے بھی ٹوٹ گئے اور ایک گاڑی میں موجود ایک مقامی مزدور ہلاک بھی ہوا اور دو زخمی ہوئے۔

یہ بھی پڑھیے

گلگت بلتستان میں انتہائی مطلوب شدت پسند کمانڈر کی ساتھیوں سمیت ’کھلی کچہری‘ کی ویڈیو

گلگت بلتستان میں عسکریت پسند پھر کیوں سرگرم؟

’لاشیں ملنے تک ہلاکتوں کی تصدیق نہیں کر سکتے‘

وہ کہتے ہیں کہ جس گاڑی میں یہ حادثہ ہوا اس کا ڈرائیور اور آگے موجود دو سکیورٹی اہلکار بری طرح زخمی ہو کر ہلاک ہو گئے جبکہ تین چینی بھی جائے وقوعہ پر ہلاک ہو چکے تھے۔ واقعے میں نو چینیوں سمیت کل 13 ہلاکتیں ہوئی ہیں اور 27 افراد زخمی ہوئے۔

انھوں نے بتایا کہ ’کچھ لاشیں تو اتنی متاثر تھیں کہ پتہ بھی نہیں چلتا تھا کہ کس کی لاش کون سی ہے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمیں نہیں معلوم یہ دھماکہ کیسے ہوا لیکن واقعے کے بعد قریب میں ایک نامعلوم شخص کی کھوپڑی پڑی دیکھی گئی تھی۔

’معلوم نہیں وہ کس کی کھوپڑی تھی کیونکہ دیگر مرنے اور زخمی ہونے والوں کا تو سب کو معلوم تھا لیکن وہ کس کی کھوپڑی تھی معلوم نہیں۔ ہاں یہ تو معلوم ہے کہ وہ کوئی مقامی شخص بھی نہیں تھا کیونکہ کوہستان کا یہ علاقہ داسو تو اتنی چھوٹی جگہ ہے کہ اگر کسی گھر کا کوئی اور شخص بھی مرتا تو ہمیں کم ازکم اب تک اطلاع مل چکی ہوتی۔ اور گاڑیوں میں موجود چینی یا پاکستانی عملے میں سے کتنے ہلاک ہوئے کتنے زخمی ہوئے یہ تو معلوم تھا اور ان سب کی لاشیں بھی موجود تھیں۔‘

مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ واقعے کے فوری بعد پاکستانی فوج اور سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں نے علاقے کا دورہ کیا۔ ابتدائی تحقیقات میں جہاں جائے وقوعہ سے شواہد اکھٹے کیے گئے وہیں علاقے میں سرچ آپریشن بھی کیا گیا اور مقامی لوگوں سے پوچھ گچھ بھی کی گئی۔

وقوعے کی جگہ کہیں کہیں آبادی ہے اور اکا دکا گھر دکھائی دیتے ہیں تاہم داسو کی مجموعی آبادی 33 ہزار ہے۔

واقعے کے بعد پراجیکٹ کی تمام سائٹس پر جاری کام کو بھی فوری طور پر روک دیا گیا۔

اس واقعے کے بعد بم ڈسپوزل سکواڈ کے عملے کو جائے وقوعہ تک پہنچنے میں دوپہر ہو گئی۔ ٹیم نے دوسرے روز بھی وہاں سے شواہد اکھٹے کیے ہیں۔ جائے وقوع کے قریب سے ایک گاڑی کا بونٹ اور انجن بھی ملا ہے جس پر چیسز نمبر درج تھا جسے سکواڈ کی جانب سے نوٹ کیا گیا۔

اس واقعے کے ایک عینی شاہد نے بی بی سی کو بتایا کہ انجن کے علاوہ گاڑی کی کوئی چیز سلامت نہیں بچی تھی اور کہا جا رہا تھا کہ وہ ہنڈا گاڑی تھی۔ وہیں موجود ایک ڈرائیور کے حوالے سے مذکورہ عینی شاہد نے بتایا کہ اُن کے قافلے میں موجود چینیوں کی بس سے راولپنڈی سے آنے والی ایک گاڑی ٹکرائی۔ وہ کہتے ہیں کہ گاڑی نے پہلے آگے جاتی کوسٹر کو کراس کرنے کی کوشش کی اور پھر بس کو ٹکر ماری اور پھر دھماکہ ہو گیا۔

انھوں نے بتایا کہ جائے وقوعہ کے قریب سے ہمیں ایک شخص کی انگلی بھی ملی اور ایک جگہ تقریباً دیگر اعضا بھی ملے ہیں جن کے نمونے بھی فورینزک ٹیم نے حاصل کیے۔

’بارودی مواد کے شواہد ملنے کی تصدیق ہوئی ہے’

مقامی انتظامیہ، پولیس اور حکومت کی جانب سے اس واقعے کے حوالے سے ابھی کوئی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں تاہم وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ملک کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بیان کے برعکس بیان دیا ہے۔

حادثے کے بعد وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ حادثہ بس کی تکنیکی خرابی کے باعث ہوا ہے۔

لیکن بعد میں اپنی ٹویٹ میں فواد چوہدری نے لکھا کہ داسو واقعے کی ابتدائی تفتیش کے دوران بارودی مواد کے شواہد ملنے کی تصدیق ہوئی ہے، اس لیے اس واقعے میں دہشت گردی کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔

اس ٹویٹ کے بعد بس میں تکنیکی خرابی یا اس کے اندر مبینہ طور پر موجود گیس کے سلینڈروں کے پھٹنے کی اطلاعات کے غلط یا درست ہونے پر مزید بات نہیں کی جا رہی۔

فواد چوہدری کی ٹویٹ سے پہلے ہی گذشتہ روز چینی حکام کی جانب سے کہا گیا تھا چینی انجینیئرز کی بس کو پیش آنے والا حادثہ دہشتگردوں کا حملہ تھا تو اس میں ملوث مجرموں کو فوراً گرفتار کر کے سخت سزا دی جانی چاہیے اور اس واقعے سے سبق سیکھتے ہوئے چین، پاکستان تعاون کے منصوبوں پر سکیورٹی کو مزید بڑھانا چاہیے تاکہ ان منصوبوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔

پھر ایک دن کے وقفے کے بعد پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے بھی چینی صدر سے واقعے پر اظہار افسوس اور سکیورٹی کی یقینی دہانی کے لیے فون پر رابطہ کیا۔

تاہم اس بارے میں حکام کی جانب سے میڈیا کو سرکاری طور پر یا آن ریکارڈ تفصیلات دینے سے گزیز کیا جا رہا ہے۔

جائے حادثہ سے ملحقہ مکینوں کا کہنا تھا کہ اس سے قبل بھی ڈیم کی سائٹ پر بارودی سرنگوں کے دھماکے محسوس ہوتے تھے مگر یہ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ سب گھر لرز گئے تھے اور وہ اپنے بال بچوں سے گھروں سے چیختے ہوئے باہر نکل آئے۔

جہاں تک مقامی صحافیوں کی بات ہے تو وہ بھی اس معاملے پر اپنی شناخت ظاہر کر کے کچھ بھی کہنے سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں۔

ایک مقامی صحافی شمس الرحمان شمس نے بی بی سی سے گفتگو میں کہا کہ کئی دہائیوں بعد داسو ڈیم کی صورت میں اُن کے لیے اچھے مستقبل کی امید ہے، چنانچہ وہ اس واقعے پر کوئی بات نہیں کر سکتے، کیونکہ اُنھیں ڈر ہے کہ اس سے پراجیکٹ کو کوئی نقصان نہ ہو۔

ان کا کہنا ہے کہ اُن کے علاقے میں یہ پہلی بار ہے کہ اس قسم کا کوئی واقعہ ہوا ہے۔ ’ملک میں دہشت گردی کی لہر کے دور میں بھی اس علاقے کے علما نے طالبان کے خلاف فتوے جاری کیے تھے اور مقامی لوگوں نے ان کی حمایت کی تھی۔‘

’جب ملک میں دہشت گردی کی کارروائیاں ہو رہی تھیں تو کوہستان کے علما اور مقامی افراد نے مل کر دہشت گردی کو اپنے علاقے میں آنے سے روکا اور اس کی مذمت کی۔‘

تو کیا اس حوالے سے کوئی سکیورٹی الرٹ موجود نہیں تھا؟

یہ سوال میں نے ایک حکومتی اہلکار سے پوچھا تو انھوں نے بھی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ افغانستان کی صورتحال کے پیشِ نظر الرٹ تو موجود تھا اور یہاں معمول کی سکیورٹی بھی فراہم کی جا رہی تھی تاہم خصوصی طور پر اس علاقے میں کسی بھی دہشت گردی کی ممکنہ کارروائی کا خطرہ موجود نہیں تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ اس واقعے کے بعد وہاں مزید سکیورٹی تعینات کر دی گئی ہے۔

سرکاری اہلکار نے بتایا کہ داسو ڈیم کا عملہ جب بھی نکلتا ہے تو قافلے کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔

’گاڑی کا فورینزک تجزیہ ہو گیا ہے‘

حکومتی اہلکار نے تصدیق کی ہے کہ گاڑی کا فورینزک تجزیہ ہو گیا ہے اور جائے وقوعہ پر ایک ہنڈا سٹی کا انجن بھی ملا ہے۔ یہ گاڑی بظاہر قافلے کا حصہ نہیں تھی اس لیے اس کی وہاں موجودگی پر بھی سوالیہ نشان ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گاڑی کے پارٹس کا فورینزک تجزیہ ہوا ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ وہ کس کی ملکیت ہے۔

مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ حادثے کے بعد مذکورہ گاڑی کا انجن جائے وقوعہ سے غائب کر دیا گیا ہے۔

ایسی کیا وجوہات ہیں کہ اس دھماکے کی نوعیت کو واضح طور پر بتانے میں اتنا وقت لیا جا رہا حالانکہ عام طور پر ماضی میں ایسی کم ہی مثالیں ملتی ہیں؟

اس سوال کے جواب میں حکومتی اہلکار نے کہا کہ یہ درست ہے کہ دریائے اباسین کے اوپر زیر تعمیر پن بجلی کا یہ منصوبہ نہایت اہم ہے جو ورلڈ بینک کی مدد سے 2012 میں شروع ہوا تھا اور چینی کمپنی غضوبہ سی جی جی سی نے اس کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ حادثہ نہیں مگر دہشت گردی کی کارروائی کی تصدیق کی صورت میں ملک کو معاشی طور پر نقصان ہو سکتا ہے۔ تاہم انھوں نے یہ بھی بتایا کہ سبوتاژ کی کارروائی دیکھائی دینے کے باوجود یہ ابھی تک معلوم نہیں ہو پایا کہ دھماکے میں کون سا مواد استعمال کیا گیا ہے کیونکہ جائے وقوعہ سے نہ بال بیرنگ ملے ہیں نہ ہی وہاں کوئی گڑھا نہیں بنا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ دھماکے کے بعد جیسے سکیورٹی سکواڈ کے ہاتھ میں موجود اسلحے کی گولیاں چل پڑتی ہیں تو اس واقعے میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔

حکام کے مطابق ورلڈ بینک کی فنڈنگ سے چلنے والے اس ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کا 30 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔

اس واقعے کے بعد ورلڈ بینک کی جانب سے تاحال کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔

اس پراجیکٹ سے آگاہ ایک حکومتی ادارے کے اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ حادثے کی نوعیت کچھ بھی ہو، مگر ایسا نہیں لگتا کہ اس پراجیکٹ پر زیادہ عرصے تک کام کو روکا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی اس پراجیکٹ میں زمین کے حقوق اور ملکیت کے بارے میں مقامی لوگوں سے مذاکرات گاہے بگاہے ہوتے رہتے ہیں مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اس کا کام کبھی روکا گیا ہو۔

اس پراجیکٹ میں کم و بیش 500 چینی انجینیئر و دیگر عملہ شریک ہے جبکہ مجموعی طور پر دو ہزار سے زیادہ مزدور اس پراجیکٹ کی تکمیل کے لیے دن رات بارہ، بارہ گھنٹے کی شفٹ پر کام کرتے ہیں۔ مقامی افراد کے علاوہ دوسرے صوبوں سے آنے والے مزدور بھی یہاں کام کرتے ہیں۔

ضلعی انتظامیہ اس حادثے کی تحقیقات میں ہونے والی پیش رفت کے بارے میں کچھ بھی بتانے سے گریزاں دکھائی دیتی ہے تاہم ڈی سی اپر کوہستان عارف یوسفزئی نے واقعے کے بعد اپنے بیان میں بتایا کہ گاڑی میں کل 39 بندے سوار تھے اور 13 ہلاکتیں ہوئی ہیں اور 26 زخمی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ابھی تک حادثے کی تحقیقات جاری ہیں اور جیسے ہی تحقیقات کی رپورٹ سامنے آئے گی تو اس سے آگاہ کیا جائے گا۔

مقامی افراد چینیوں کی یاد میں شمعیں روشن کرنا چاہتے ہیں

حکام کا کہنا ہے کہ اس حادثے میں ہلاک ہونے والے 95 فیصد چینی باشندے انجیینئیر تھے۔

حادثے میں زخمی ہونے والوں کو پہلے گلگلت اور اس کے بعد راولپنڈی سی ایم ایچ پہنچایا گیا۔

انتظامیہ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ مقامی افراد کی مدد کے بغیر زخمیوں کو ہسپتال تک فوری طور پر پہنچانا ممکن نہیں تھا۔

تاہم ایک اور مسئلہ یہاں موجود ہسپتال میں سہولیات کے فقدان کا تھا۔

مقامی صحافی شاہ نواز بتاتے ہیں کہ ’یہاں ایک چھوٹا دیہی مرکز صحت داسو ہے جہاں مرہم پٹی کی سہولت کے علاوہ کچھ سہولت دستیاب نہیں اور یہاں موجود ڈی ایچ کیو ہسپتال برسوں سے بند پڑا ہے۔ نہ ہی یہاں کوئی مردہ خانہ موجود ہے۔ چینیوں کے کیمپ میں بھی بس ڈسپینسری کی سہولت ہی موجود ہے۔‘

یہی وجہ ہے کہ زخمیوں کو فوری طور پر سی ون تھرٹی اور ایمبولینسز کے ذریعے سی ایم ایچ گلگت اور ایبٹ آباد منتقل کیا گیا۔ بعد ازاں زخمیوں کو راولپنڈی سی ایم ایچ منتقل کیا گیا۔

علاقے کے مکین ہلاک ہونے والے چینی شہریوں کی یاد میں شمعیں روشن کرنا چاہتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ وہ اس واقعے کی مذمت کریں گے جبکہ حکام کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر اگلے ایک دو روز میں واقعے کے حوالے سے تفصیلات جاری کی جائیں گی۔

مقامی صحافی شمس الرحمان شمس نے بی بی سی کو بتایا کہ حادثے کے دوسرے روز داسو ڈیم کے متاثرین نے جرگہ کر کے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ داسو پراجیکٹ کی تعمیر اور غیر ملکیوں کی حفاظت کے لیے کسی بھی قربانی دینے سے گریز نہیں کریں گے اور اس سلسلے میں ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کر کے دنیا کو ایک پیغام دیا جائے گا کہ کوہستان ایک پر امن ضلع ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32490 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp