اور شمالی اتحاد کے دو کمانـڈر ایک خوبصورت لڑکے کے لیے 6 ماہ جنگ کرتے رہے


اب اس میں تو کوئی شک نہیں کہ مردوں کے درمیان ہم جنس پرستی ایک کھلی حقیقت کی صورت سامنے ہمارے سامنے موجود ہے اور پوری دنیا اس چیز کو تسلیم کرچکی ہے، یہاں تک کہ ویٹی کن سے پوپ بھی اپنے پادریوں کے ایسے معاملات کو تسلیم کرچکے ہیں اور یہ ایشو اب پوری دنیا کے لیے ایک خاص نوعیت کی اہمیت حاصل کرچکا ہے، بعض لوگ اسے مرض کہتے ہیں اور بعض اسے ایک عام جنسی معاملہ کہ جس کا ترجیحی بنیادوں پر نوٹس لینا ”امتیازی سلوک“ کہا جا رہا ہے، اسی وجہ سے دنیا کے بیشتر ممالک میں مرد کے مرد کی طرف لگاؤ کو برائی سمجھنا ناپسندیدہ طرزعمل گردانا جا رہا ہے اور ان کا خیال ہے کہ ہر کسی کو اپنی مرضی سے جینے کا حق حاصل ہے لیکن اس سوچ کی مخالفت والے اگر دیکھیں تو صدر پیوٹن نے ابھی حال ہی میں ببانگ دہل انسانی حقوق کی اعلی عدالت کے ہم جنس پرست جوڑوں کی شناخت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ

”روس کسی بھی صورت اس طرح کی شادیوں کو نہ تو تسلیم کرے گا اور نہ ہی قانونی حیثیت دینے کی راہ اختیار کرے گا“

پیوٹن نے مزید کہا کہ ”اس عمل کے لیے دباؤ ڈالنا روس کے داخلی معاملات میں مداخلت سمجھی جائے گی“

اب ایک طرف پیوٹن کی سوچ والے لوگ ہیں جو کہ ان ممالک میں بھی موجود ہیں جہاں کہ ہم جنس پرستی کی قانونی طور پر اجازت ہے اور جہاں کھلے عام برہنہ پریڈ تک ہوتی ہے بلکہ سنا گیا کہ فرانس میں ایسے ہی شوقین مزاجوں کے لیے ”برہنہ ٹرین“ چلانے پر بھی غور ہو رہا ہے لیکن ساتھ ہی ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جب امریکہ میں ایک لڑکی اپنی شرٹ کھول کر ”مردوزن کی یکساں آزادی“ کا نعرہ لگاتی ہے تو اسے پکڑ کر عدالت میں پیش کر دیا جاتا ہے جو کہ اسے نہ صرف جرمانہ کرتی ہے بلکہ آئندہ کے لیے تنبیہ بھی کرتی ہے، اب یہ دو سوچیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں اور سننے، دیکھنے اور پڑھنے والے اس پر خاصے کنفیوژ سے ہو جاتے ہیں۔

بہرحال اگر ہم مغربی ممالک سے نکل کر اسلامی ممالک کی طرف آئیں تو یہاں بھی ”گے ازم“ نہ صرف ماضی میں موجود نظر آتا ہے بلکہ حال میں بھی مفتی عزیز الرحمن سے لوگ اس کا عملی ثبوت دیتے ہوئے ملتے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہوتی ہے کہ یہاں بھی دو گروہ سامنے آ جاتے ہیں جن میں سے ایک تو مفتی کو مینار پاکستان سے داعش کی اس فعل کے بعد دی جانے والی مقبول ترین سزا بلند عمارت سے گرانے کا حامی ہے اور دوسرا گروہ اس فعل کے حوالے سے طرح طرح کی تاویلیں پیش کر کے مفتی کو بچانے کی کوشش کرتا ہوا ملتا ہے۔

خیر اگر ہم تھوڑا ماضی کے افغانستان میں جائیں تو کہا جاتا ہے کہ شمالی اتحاد کے دو جنگجو کمانڈروں کی آپس میں ایک خوبصورت لڑکے کے پیچھے تقریباً 6 ماہ تک باقاعدہ ٹینکوں، توپوں اور دیگر بھاری اسلحے سے جنگ ہوئی تھی اور دونوں اس خوبصورت لڑکے پر اپنا تصرف چاہتے تھے۔ اسی طرح ایران کے سابق رضا شاہ پہلوی کی آزاد خیالی اس انتہا پر پہنچ چکی تھی کہ اس کے دو جرنیلوں کے بیٹوں نے آپس میں دھوم دھام سے شادی کی تھی، اس ہم جنس پرستانہ شادی میں رضا شاہ سمیت اس کے سارے وزیروں، جرنیلوں اور کئی غیر ملکی سفیروں نے بھی دلجمعی سے شرکت کی تھی۔

چلتے چلتے رضا شاہ کی آزاد خیالی بارے ایک واقعہ سنتے جائیں کہ ایک بار جب رضا شاہ کسی غیر ملکی دورے سے واپس آیا تو تہران ائرپورٹ پر یونیورسٹی کی طالبات اس کے استقبال کے لیے موجود تھیں اور آٹو گرافس دیتے دیتے جب وہ ایک طالبہ کے پاس پہنچے تو اس کے پاس کوئی نوٹ بک نہ تھی اور پھر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ اس خوبصورت طالبہ نے اپنے گریبان کے بٹن کھول کر سینے پر آٹو گراف لے لیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments