مرنے والی کبھی واپس نہیں آتے


مرنے والے کبھی واپس نہیں آتے۔
جس نے بھی کہا ایک ہزار فی صد درست کہا کہ قبر کا عذاب فقط مردہ جانتا ہے۔

”ستارے کیا کہتے ہیں“ اور ”آپ کا یہ ہفتہ کیسا رہے گا“ والے صفحات ہمیشہ مزاح سمجھ کر پڑھے اور کبھی ان پر یقین نہیں کیا۔ مگر آج خیال آ رہا ہے کہ ہو سکتا ہے واقعی ستارے گردش میں آتے ہوں۔

اسلام آباد کا ایچ نائن اتوار بازار جو جی نائن کراچی کمپنی کے اشارے پر کشمیر ہائی وے کے کنارے لگنے والا دارالحکومت کا سب سے بڑا اور سستا اتوار بازار ہے۔ یہاں آپ کو سبزیاں، پھل، جوتے، کپڑے غرض ضروریات زندگی کی تمام اشیا ہول سیل ریٹ پر اور حکومتی ریٹ پر باآسانی مل جاتی ہیں۔ یہ اتوار، جمعہ اور منگل ہفتے میں تین دن لگتا ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے اس بازار میں رات کے وقت آگ لگنے کے واقعات تواتر سے ہر دو ایک سال بعد رونما ہوتے ہیں۔ اگر آپ مذہبی ہیں تو آپ جنوں اور پریوں کے وجود پر بھی یقین رکھتے ہوں گے لہذا میرا خیال بھی یہی ہے کہ جن، دیو، پریاں، چڑیلیں اور ڈائنیں رات کو اس بازار میں آگ لگا جاتی ہیں اور آن کی آن میں اربوں روپے کا سامان خاکستر ہوجاتا ہے۔ جس کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔

دکان دار البتہ اس آگ کا الزام بڑے مگرمچھوں اور مافیا پر لگاتے ہیں۔
اس سستے بازار کی کوئی ڈھنگ کی پارکنگ نہیں ہے۔

پارکنگ کے نام پر چلچلاتی دھوپ میں بڑا سا ایک پلاٹ مختص کیا گیا ہے جس میں دخول و خروج کا راستہ شوگراں سے سری پایہ جانے والے رستے سے مشابہ ہے۔

اس میں گاڑی پارک کرنے کی کوئی رسید کوئی پرچی کچھ بھی نہیں ہے۔ کبھی کبھار کوئی مکئی کے سٹے کھاتا سیکیورٹی یا پولیس اہلکار موجود ہو تو سادے کاغذ پر گاڑی کا نمبر لکھ کر پکڑا دیتا ہے جس کے نیچے پرنٹ ہوتا ہے

”پارکنگ اپنی ذمہ داری پر کریں نقصان کی صورت میں ذمہ داری نہ ہوگی۔“
مطلب گاڑی آپ کی چوروں کے آسرے پر ہے۔

پولیس، ٹریفک پولیس اور سیکیورٹی کے اہلکار یہاں گشت کرتے رہتے ہیں اور چور چوریاں کرتے رہتے ہیں۔ اور عوام شاپنگ کرتے رہ جاتے ہیں۔

غرض ہر ایک اپنا اپنا کام کرتا ہے۔ عوام شاپنگ کر کے باہر آتے ہیں تو انکشاف ہوتا ہے کہ پوری خریداری میں کل بچت ہوئی پندرہ سو روپے جبکہ گاڑی چوری ہو گئی۔

اب آپ بیتی سنیئے۔
پچھلے مہینے گاڑی کی ڈکی سے سٹپنی (اضافی ٹائر مع رم) کوئی نالائق نکال کر لے گیا۔

آج گاڑی کھڑی کر کے دس منٹ کے لئے اندر گیا تو واپسی پر بیٹری غائب تھی۔ بیگم نے ہماری شکل پر جب بارہ، دو اور چار اکٹھے بجے دیکھے تو پریشان ہو گئی۔ رہ رہ کر مجھے حوصلہ دیتی۔ آخر اس بہشتی عورت سے رہا نہ گیا کہنے لگی

”چل چھڈ یارا! تو اپنا جگری دوست بھی تو ہے۔ اس بیٹری کے پیسے میں تجھے دے دیتی ہوں“
اور ایک دم پرس سے پیسے نکال میری جیب میں ڈال دیے۔ میں نے بہتیرا منع کیا لیکن اس نے واپس نہ لئے۔
کہنے لگی

یار صرف بیٹری گئی ہے ناں؟ اگر چور سالا پوری گاڑی لے جاتا تب تو کیا کر لیتا؟ ہیں؟ اب تو ریلیکس ہو جا بھائی؟ ”

اس بات سے مجھے بھی تھوڑی تسلی ہوئی۔

ایک اسلام آباد پولیس کا اہلکار بیچارہ وہاں ٹہل رہا تھا۔ میں نے صورت حال سے آگاہ کیا اور گاڑی دکھائی۔ اسے ترس آیا اس نے کہا میں اتنی مدد کر سکتا ہوں کہ بائیک پر آپ کے ساتھ جا کر جی نائن مرکز سے بیٹری خرید کر لانے میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں۔ اس نے اپنے سینیئر کو فون پر ساری بات بتائی اور جانے کی اجازت طلب کی تو منع کر دیا گیا۔

بالآخر بیچارے نے اپنی موٹر سائیکل ہمارے حوالے کر دی۔

میں آن کی آن میں نئی بیٹری لایا۔ اور پولیس والے کا شکریہ ادا کر کے پوچھا بھائی اس کی کوئی شکایت کہاں درج کراؤں؟

وہ مرد دردمند تھوڑی دیر سوچ کر بولا

”سر سیکٹر آئی نائن تھانے میں درج کروا دیں یا پھر وزیراعظم کے سٹیزن پورٹل پر درج کروا دیں۔ بات ایک ہی ہے۔ بیٹری مگر آپ کی اب واپس نہیں آ سکتی۔ یوں سمجھ لیں وہ فوت ہو گئی ہے۔ اور مرنے والے کبھی واپس نہیں آتے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments