بیوی کو سیکس ورکر مت کہیں


ریپ, جنسی زیادتی ,ہراسمنٹ اور زنا بالجبر جیسے موضوعات پر آج کل مصنفین بہت زیادہ کالم نویسی کر رہے ہیں. درحقیقت اس طرح کے بلاگ اور کالم ہمارا قاری بڑی دلچسپی کے ساتھ پڑھتا ہے. دوسرے موضوعات مثال کے طور پر سیاست, فارن ریلیشنز اور معاشی امور وغیرہ لوگوں کے لئے اتنی کشش نہیں رکھتے. جتنے ہم جنس پرستی اور سیکس سے متعلقہ آرٹیکل. چند دن قبل ہم جنس پرستی پر لکھے گئے ایک کالم کو آٹھ سو کے قریب لوگوں نے پسندیدگی کا شرف بخشا ہے. جو قاری کے  رحجان اور دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے. قارئین اس طرح کی سنسنی خیز اور سیکس پر مبنی تحریر کو دانستہ بڑے شوق سے پڑھتے ہیں. جب کہ چند بلند پائے کے لکھاریوں کے مضامین پڑھنے والوں کی اتنی زیادہ توجہ نہیں حاصل کر پاتے. حالانکہ ایسے مضامین اہم ترین مسائل کا احاطہ کرتے ہیں. اس کے علاوہ بڑی دلچسپ اور نصیحت آموز معلومات پر مبنی تحریریں جو ہماری توجہ کی منتظر ہوتی ہیں. مگر ہم ان کو  بڑی بے مروتی کے ساتھ نظرانداز کر دیتے ہیں. عام قاری کے موڈ کو دیکھ کر لکھاری حضرات شائد اس طرح کے موضوع کا انتخاب کرتے ہیں.
میں نے پچھلے دنوں دو تین ایسے مضامین کا مطالعہ کیا ہے. جس میں مصنفین نے میاں بیوی کے ازدواجی تعلقات اور جنسی تعلق کو موضوع بحث بناتے ہوئے بعض اہم نکات اٹھائے ہیں. بقول ان کے اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کے ساتھ زبردستی جنسی تعلق قائم کرتا ہے. یا تشدد کرکے اس کے ساتھ ہم بستری کرنے کی کوشش کرتا ہے. ایسے عمل کو جبری زنا کےطور پر لیا جانا چاہئے. علاوہ ازیں سولہ سال تک کی لڑکی کے ساتھ مباشرت پر بھی اعتراض اٹھایا گیا ہے. اسی طرح ایک دوسرے مضمون میں بیوی کو سیکس ورکر سے تشبیہ دیتے ہوئے چند  متنازعہ باتیں قلمبند کی گئی ہیں. ان مضامین کا مطالعہ کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں. کہ ان محترم لکھاریوں کے ابہام کو دور کرنے کے لئے اپنی چند گزارشات پیش کروں.
دراصل میاں بیوی کے درمیان پیار محبت اور چاہت کا رشتہ استوار ہوتا ہے. جو باہمی احترام اور اعتماد کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے. اوپر سے دونوں کی کیمسٹری بھی ملی ہوئی ہوتی ہے. اس لئے وہ ہر چیز اپنے حسن سلوک اور باہمی رضامندی کے ساتھ مینج کرتے ہیں. فرض کرتے ہیں ایک عورت جو کسی مرد کے عقد میں آتی ہے. لیکن وہ بعض اوقات اس کی جنسی خواہش پورا کرنے میں دانستہ رکاوٹ ڈالتی ہے. ایسا کیوں ہوتا ہے اور اس کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں.
 میرے خیال میں پہلی ٹھوس وجہ اس عورت کی شادی سے پہلے شائد کسی دوسرے مرد میں انوالمنٹ ہوتی ہے . اسی لئے وہ اپنے موجودہ شوہر کو قبول نہیں کر پاتی. اور دونوں کے درمیان ناچاقی پیدا ہوجاتی ہے.
بعض اوقات لڑکیوں کا ہم جنس پرستی کی علت میں مبتلا ہونا بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے. جس کی وجہ سے وہ مرد کے ساتھ  جنسی تعلق  بنانے میں رغبت نہیں رکھتیں. اس طرح کی لڑکیوں کو جنس مخالف کے ساتھ مباشرت میں بالکل دلچسپی نہیں ہوتی. خواہ دنیا ہی کیوں نہ ادھر سے ادھر ہوجائے. بہت سے مرد بھی ہم جنس پرست ہوتے ہیں. جو اپنی بیوی کے لئے وبال جان بن جاتے ہیں.
 اس کے علاوہ بعض عورتیں کسی اور وجہ سے بھی اپنے شوہر کو جنسی طور پر تسکین پہنچانے میں ناکام رہتی ہیں. شائد ان کے اندر کی عورت مر چکی ہوتی ہے. جہاں تک  لوگوں کے اس اعتراض کا تعلق ہے. یعنی سولہ سال تک کی لڑکی کے ساتھ مباشرت نہیں کی جا سکتی. شرعی طور پر اس لڑکی کو بالغ قرار دیا گیا ہے. جس کو حیض اور احتلام آنا شروع ہوجائے. ورنہ پندرہ سال کی لڑکی جوان کہلائے گی.
ایک محترمہ کا فرمانا ہے کہ بیوی کو اس وقت تک ہم بستری پر مجبور نہیں کیا جاسکتا. جب تک وہ اس عمل کے لئے راضی نہ ہو . یا اس کا موڈ نہ ہو. وہ مزید فرماتی ہیں کہ شوہر بیوی کو سیکس ورکر(بیوی جیسے قابل احترام اور انمول رشتے کے لئے اس قسم کے الفاظ کا استعمال افسوس ناک ہے) سمجھتے ہوئے جبری تعلق قائم کرکے اس کا استحصال کرتا ہے. اسی طرح اس عمل کو ایک اور جگہ جنسی ریپ سے تشبیہ دی گئی ہے. بقول تحریر نگار بعض عورتیں نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے شوہر کی جنسی خواہشات محض اس لئے پوری کرنے پر مجبور ہوتی ہیں. کہ مبادا ان کو طلاق دے کر گھر سے نکال نہ دیا جائے. یا ان کو تشدد کا نشانہ نہ بننا پڑھے. ایک  لکھاری نے یہ بات تحریر کی ہے. کہ عورت کو اس کا شوہر بغاوت پر مجبور مت کرے. ورنہ وہ بے حیائی پر اتر آئے گی. ان کی یہ بات عقل  ماننے کے لئے تیار نہیں ہے. کیوں کہ کسی شخص کی منکوحہ صرف اسی صورت احتجاج یا  بغاوت کرنے کی مجاز ہوتی ہے. جب اس کا مجازی خدا اس کی روزمرہ کی ضرورتیں پوری کرنے سے انکار کرتا ہو. اگر بیوی کو ایسی کسی صورتحال کا سامنا نہیں ہے. اور اسے اپنے گھر میں ہر طرح کی آسودگی حاصل ہے. اس صورت میں اس کی طرف سے مباشرت سے انکار غیر مناسب اور ناقابل قبول اقدام ہے.
ہمارا دین اسلام مرد کو ظلم, زیادتی اور جبر سے اجتناب برتنے کی ترغیب دیتا ہے. اسلامی احکامات کے تحت شوہر کو حیض کے مخصوص ایام میں بیوی  کے ساتھ ہم بستری سے منع کیا گیا ہے. لیکن حیض کے دن پورے ہونے کے بعد عورت شرعی اور اخلاقی طور پر اس بات کی پابند ہے .کہ اپنے مجازی خدا کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اس سے ازدواجی تعلقات قاہم کرنے میں پس وپیش نہ کرے. اگر اسے کوئی مسئلہ درپیش ہے تو اس کو اپنے شوہر کو اس معاملے سے آگاہ کرنا چاہئے.
 قرآن  مجید میں ارشاد ہوتا ہے.” تمہاری عورت تمہاری کھیتی  کی مانند ہے. تم اپنی کھیتی میں جب چاہو جاؤ.”
 قرآن  پاک میں ایک اور جگہ  مرد اور عورت کے حقوق یکساں بیان کئے گئے ہیں. اور ساتھ ہی اس بات کا ذکر بھی کیا گیا ہے. کہ مرد کو عورت پر فضیلت حاصل ہے.
دین میں کسی جگہ بھی مباشرت کو عورت کی مرضی اور موڈ سے مشروط نہیں کیا گیا. جیسا کہ قرآن پاک میں عورت کو مرد کی کھیتی  سے تشبیہ دی گئی ہے. اس کا مطلب بڑا صاف اور واضع  ہے. کہ شوہر اور بیوی کے درمیان جنسی تعلقات کسی فریق کے موڈ کے تابع نہیں ہیں. بشرطیکہ اس عمل میں کوئی بیماری یا شرعی مسئلہ حائل نہ ہو. دین میں بیوی کے ساتھ مباشرت کے اصول بھی بیان کر دئے گئے ہیں. ان اصولوں میں سے ایک کا اوپر ذکر کر دیا گیا ہے. یعنی کہ عورت کے پاس حیض کے دنوں میں جانے سے سختی کے ساتھ  ممانعت کی گئی ہے. اس کے علاوہ  میاں بیوی کو مباشرت کے لئے صرف مروجہ طریقہ کار استعمال کرنے کا پابند بنا دیا گیا ہے. ہمارے مرد اور خواتین اس طریقے سے بخوبی واقف ہیں. یہاں اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے. اس کے علاوہ کسی دوسرے طریقے کو ناپسندیدہ اور شریعت کے منافی قرار دے کر اس سے منع کر دیا گیا ہے.
مگرحیران کن بات یہ ہے کہ لوگ میاں بیوی کے مقدس اور خوبصورت رشتے کے بارے  میں  بعض ایسی باتیں تحریر کر دیتے ہیں.   جو سیاق اور سباق سے ہٹ کر بھی ہوتی ہیں  اور ان کا حقیقت سے بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا.
فرض کریں اگر ایک نوجوان شوہر جو جسمانی طور پر بڑا فٹ اور صحت مند ہے. اور اس کے اندر جنسی اشتہا پیدا ہو چکی ہو. مگر دوسری طرف اس کی منکوحہ اس کےساتھ مباشرت کے لئے راضی نہیں ہورہی.  تو اس صورت میں وہ نوجوان کیا کرے گا. لا محالہ اس کو اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے کوئی غیر فطری اور نامناسب طریقہ کار اختیار کرنا پڑے گا.جو  شرعی طور پر قابل گرفت بھی ہوگا. کیوں کہ اس نازک کیفیت میں انسان کی قوت برداشت جواب دے جاتی ہے. اس کنڈیشن میں اگر کوئی مسئلہ بن جاتا ہے. اس صورت میں بیوی اس کی ذمہ دار ہوگی.
 یہ بات ذہن نشین رہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میاں بیوی کے درمیان اس حد تک انڈرسٹینڈنگ پیدا ہوجاتی ہے.کہ وہ بعض اوقات ناسازگار حالات میں صبر اور برداشت کے ساتھ اور ایک دوسرے کی سہولت کے مطابق چیزیں مینج کر لیتے ہیں . یہاں میں ایک اور بات کہنا اپنا فرض سمجھتا ہوں. کہ خاوند کو جانور یا ظالم  نہیں سمجھنا چاہئے. بلکہ وہ گوشت پوست کا ایک انسان ہوتا ہے. اس کو اپنی زندگی بھر کی ساتھی کی صحت اور جذبات کا خیال ہوتا ہے. اس کی بیوی کو ذرا سی بھی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ تڑپ اٹھتا ہے. میری ان باتوں کی تصدیق وہ شادی شدہ حضرات ضرور کریں گے. جو ایک آئیڈیل ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں
مرد اور عورت میاں بیوی جیسے نازک اور حسین بندھن میں اس لئے بندھتے ہیں. تاکہ وہ شرعی احکامات کی روشنی میں اپنی ازدواجی زندگی کو آگے بڑھا سکیں . اور پھر اپنی اولاد کی اچھے والدین کی طرح تربیت کریں. یہ بات بھی ہر کسی کو ذہن نشین رہے کہ بیوی شوہر کی زینت ہوتی ہے. عزت اور غیرت ہوتی ہے. اس مقدس رشتے کو سیکس ورکر کہہ کر اس کی تذلیل کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے.

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments