افریقہ کے بلوچ


چند سال قبل میں اور پناہ بلوچ گجرانوالہ میں منعقدہ ادبی تقریب اٹینڈ کرنے گئے تو وہیں مجھے جانکاری ملی کہ گجرانوالہ میں ایک بستی ہے بلوچ کالونی کے نام سے۔ بلوچ بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ جانے کا اشتیاق پیدا ہوا جب گئے وہاں تو کھڑا مجمع ہم پر پھول برساتا رہا۔ بلوچی بیٹھک کا اہتمام تھا۔ بلوچی میں ایک دوسرے سے حال احوال ہوتی رہی۔ قدیم زمانے سے آباد یہ لوگ رند ہیں دوسری اقوام کے ساتھ بندھن جوڑنے سے اس لیے کتراتے ہیں کہ کہیں مادری زبان ہاتھ سے نکل نہ جائے بولی ان کی بلوچی ہے اور اسی میں بات کرنا پسند کرتے ہیں۔ بلوچ ثقافتی ورثے کو یہ نسل در نسل منتقل کرتے چلے جا رہے ہیں۔

تاریخ ویسے بھی ایک نامکمل باب ہے آپ کو جتنی نئی چیزیں ملیں گی معلومات اور تحقیق سے باب اپنے اوراق میں اضافہ کرتا چلا جائے گا۔ یہ بلوچ گجرانوالہ میں کیسے آباد ہوئے نقل مکانی کا سلسلہ کب اور کہاں سے شروع ہوا اسے تحقیق ہی تاریخ کا حصہ بنا سکے گی۔

”افریقہ کے بلوچ“ یار محمد بادینی کی تحقیقی تحریروں، افریقہ کے بلوچ باشندگان کے خیالات و آرا اور ان کی تاریخ پہ مبنی ایک دستاویزی کتاب ہے۔ اگر یار محمد بادینی اپنے ساتھی نور خان محمد حسنی کے ساتھ افریقہ نہ جاتا اور وہاں کی بلوچ آبادی کو دریافت کر کے چیزوں کو ڈاکومنٹ نہ کرتا تو یقیناً ہم تاریخ کے اس گوشے سے نا آشنا رہتے۔ اس اہم دستاویز نے بلوچ تاریخ کے باب میں چند اہم اوراق کا اضافہ کیا ہے جو آنے والے وقتوں میں تاریخ کے میدان میں کام کرنے والے محققین کے لیے بطور پرائمری ڈیٹا کام آئے گی۔

افریقہ کے بلوچ آئے کہاں سے؟ کب اور کیسے وہاں آباد ہوئے؟ اور ان کی معاشی، سیاسی اور سماجی صورتحال کیا ہے کا احاطہ یار محمد بادینی نے 1999 میں افریقہ دورے کے دوران لکھی تحاریر اور انٹرویوز کے ذریعے سے کیا ہے۔

یار محمد بادینی شروعات میں لکھتے ہیں کہ اس کام کے لیے انہیں بنیادی معاونت اس وقت کے وزیراعلیٰ میر جان محمد جمالی نے فراہم کیا اس رقم سے اتنا ہوا کہ انہیں آنے کا جانے کی سفری ٹکٹ کا خرچہ اپنی جیب سے ادا نہ کرنا پڑا۔ باقی خرچہ انہوں نے اپنی جیب سے کیا۔ ایک جذبہ وہاں تک لے جانے میں کارفرما تھا وہ تھا بلوچوں کی زبان، ادب، ثقافت اور تاریخ کو جاننے، قریب سے دیکھنے اور اس سے بلوچستان والوں کو آشنا کرانے کا۔ جب ماہتاک بلوچی لبزانک نے ترکمانستان کے بلوچوں کے حوالے سلسلہ وار معلوماتی تحاریر و انٹرویو کا سلسلہ شروع کیا تو افریقہ کے بلوچوں کی جانب سے خطوط کا سلسلہ شروع ہوا کہ افریقہ میں بھی بلوچ آباد ہیں ان کا حال معلوم کرنے یہاں کے دورے پہ آ جائیں جسے بنیاد بنا کر انہوں نے وہاں کے لیے رخت سفر باندھا۔

پہلے باب میں یار جان بادینی نے وہاں کے بلوچوں کی تاریخ کا احاطہ کیا ہے کہ بلوچ یہاں آ کر کیسے آباد ہوئے جہاں بلوچ آباد ہیں ان علاقوں کا بیک گراؤنڈ اور موجودہ صورتحال کیا ہے بلوچ کس طرح رہ رہے ہیں ان کے دیگر اقوام کے ساتھ سماجی تعلقات کیا ہیں، زبان کس قدر خطرے سے دوچار ہے اور یہ کہ ثقافتی تقریبات کو کس طرح منایا جاتا ہے۔ وہ کون سے رسم ہیں جن میں اب تک مماثلت پائی جاتی ہے وہ کون سی رسومات ہیں جن سے وہاں کے باشندے دستبردار ہوئے ہیں۔ دستبردار ہونے کی وجوہات کیا تھیں؟

بلوچ زبان و ادب کا مختصراً احاطہ کر کے لکھا ہے کہ مشرقی اور وسطی افریقہ کے بلوچوں میں بلوچی زبان کا استعمال بہت ہی کم ہو کر رہ گیا ہے وجہ یہ بیان کیا ہے کہ وہاں زبان و ادب پر کام نہیں ہوا ہے زیادہ تر بلوچوں نے مادری زبان کو ترک کر کے وہاں کی مقامی زبانوں کو اختیار کیا ہے۔ اس زمانے میں روابط مفقود تھے دور جدید نے آسانیاں پیدا کی ہیں رابطے بحال کر کے زبان کے حوالے سے پیش رفت ہو سکتی ہے۔

مہمان نوازی جو بلوچوں کی ثقافت کا حصہ ہے افریقہ میں مہمان نوازی کی ایک جھلک دکھلاتے ہوئے مصنف لکھتا ہے کہ جب بھی ان کی گزر ڈاکٹر فوزیہ میر در کی دکان کے سامنے سے ہوتا تو وہ انہیں اپنی دکان پہ بلاتی اور چائے اور کافی سے ان کا تواضع کیا جاتا۔ جب کھانا کھانے کے لیے اصرار کرتیں تو ہم معذرت خواہ ہوتے ایک روز ان کی طرف سے پیسوں کا لفافہ آیا کہ جب یہاں کھانا کھانے سے انکاری ہیں تو یہ آپ لوگوں کی دعوت ہے مگر ہم نے پیسے لینے انکار کیا اور وہ اس شرط پہ پیسے واپس لینے پر راضی ہوئیں کہ ہم ان کے گھر جا کر کھانا کھائیں گے۔

وہاں کے لوگوں کے معاشی ذرائع کیا ہیں اور افریقہ کے بلوچ بلوچستان کے بارے میں کتنی آگاہی رکھتے ہیں کا مختصر سا احاطہ پہلے باب میں بیان کیا ہے۔

آگے چل کر چار ملتی جلتی تحریروں ”مشرقی افریقہ میں بلوچوں کی آمد“ ، ”بلوچ مشرقی افریقہ کس طرح آئے“ ، ”بلوچ مشرقی افریقہ میں“ اور ”افریقہ کے بلوچ“ موضوع کو دہرایا گیا ہے جو کہ موضوع کی موزونیت کو متاثر کرنے کا باعث بن رہی ہے۔ پروف ریڈنگ اور جملوں کی بے ساختگی مطالعے کی روانی کو متاثر کرتی ہیں جس پر مزید کام کرنے کی گنجائش تھی اور کہیں پہ بھی حوالہ جات موجود نہیں جو موضوع کی تاثیر کو کم کرتا ہے۔

کتاب کا اگلا حصہ انٹرویوز پہ مشتمل ہے مختلف شعبوں سے منسلک وہاں کی مقامی افراد کی گفتگو کو کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے جن میں خیر محمد بلوچ، یوسف درا، نواز خان بلوچ، قادر بخش اسماعیل، زبیدہ محمد ابدو، امینہ کمال، ڈاکٹر فوزیہ میر در، رفیع بلوچ، شمس خاتون اور بانا علی شامل ہیں۔ ناموں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچ نقل مکانی کرنے کے باوجود ناموں کو بھلا نہیں سکا۔ نام بطور شناخت استعمال میں لائے جاتے ہیں بقول مصنف کے کہ جہاں کہیں ہندوستانی ناموں کا چھاپ موجود ہے تو وہیں ان کے ساتھ بلوچی ناموں کا لاحقہ ضرور نظر آتا ہے۔ گفتگو کی ریکارڈ شدہ رنگین تصاویر بھی کتاب کا حصہ ہیں۔

بلوچی سے اردو میں ترجمے کا کام غلام فاروق بلوچ نے جبکہ اشاعت کا کام بلوچی لبزانکی دیوان کوئٹہ نے کیا ہے۔ یہ تمام تحاریر، یاداشت اور انٹرویوز ماہتاک ”بلوچی لبزانک“ میں سن انیس سو نناوے میں شائع ہوئیں مگر موضوع کے اعتبار سے نہ ان کی اہمیت کم ہوئی اور نہ آئندہ ہوں گی بلکہ قاری کو اپنی تازگی کا احساس دلاتی رہیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments