کیا پاکستان طالبان سے خوفزدہ ہے؟


ازبکستان میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے صدر اشرف غنی کے ان دعوؤں کو ناقابل قبول اور غیر منصفانہ قرار دیا کہ افغانستان میں پاکستان کا رول منفی ہے اور وہ امن کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کسی صورت افغانستان کے مسائل کا ذمہ دار نہیں ہے اور نہ ہی اب طالبان اس کی بات سنتے ہیں۔ امریکی فوج نکلنے کے بعد طالبان خود کو مضبوط سمجھ رہے ہیں۔ اب وہ کسی کی بات کیوں مانیں گے۔

 کانفرنس کے دوران صدر اشرف غنی کی الزام تراشی اور عمران خان کی طرف سے اسے مسترد کرنے کے بعد اگرچہ پاکستانی وزیر اعظم اور اشرف غنی نے اپنے وفود کے ہمراہ ملاقات کی لیکن اس کے فوری بعد وزارت خارجہ نے ہفتہ کے روز سے اسلام آباد میں سہ روزہ امن کانفرنس ملتوی کرنے کا اعلان کردیا۔ اس کانفرنس میں افغان حکومت کے علاوہ متعدد افغان لیڈروں کو مدعو کیا گیا تھا لیکن صدر اشرف غنی نے ازبکستان میں عمران خان سے ملاقات میں کانفرنس میں حکومتی وفد بھیجنے سے معذرت کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں تیاری کے لئے وقت درکار ہے۔ یہ واضح ہے کہ افغان صدر کا فیصلہ دراصل وزیر اعظم عمران خان کے تند و تیز بیان اور بالواسطہ طور سے طالبان کی طرف داری کے بعد کیا گیا ہے۔

اس دوران بلوچستان میں چمن بارڈر کے دوسری طرف افغان علاقے سپین بولدک میں طالبان کی جنگ جوئی اور افغان فورسز کی مزاحمت کے حوالے سے یہ الزامات سامنے آئے ہیں کہ طالبان کے حملہ کے دوران پاک فضائیہ نے افغان حکام کو مطلع کیا تھا کہ اگر طالبان کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تو پاک فضائیہ اس کا جواب دے گی۔ یہ الزام افغان نائب صدر امراللہ صالح نے ایک ٹوئٹ پیغام میں عائد کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ پاکستانی فضائیہ نے افغان فوج اور افغان فضائیہ کو سرکاری طور پر متنبہ کیا ہے کہ اگر طالبان کو افغان علاقے سپین بولدک سے بے دخل کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کوششوں کا جواب پاکستانی فضائیہ دے گی‘۔ واضح رہے کہ اسپین بولدک میں طالبان کے قبضے کے حوالے سے متضاد دعوے سامنے آرہے ہیں۔ افغان حکومت اس حملہ کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کر رہی ہے کہ اس نے طالبان کو پیچھے دھکیل دیا ہے لیکن طالبان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اہم مقامات پر قبضہ کر لیا ہے۔

پاکستان کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں افغان نائب صدر کے الزامات کی تردید کی ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے اس پورے واقعے کا پس منظر بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ’طالبان کے قبضے کے بعد افغان حکومت نے پاکستان کو آگاہ کیا تھا کہ وہ چمن سے متصل اپنےعلاقے کے اندر ایک فضائی کارروائی کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستانی حکومت نے افغان حکومت کے اپنے علاقوں میں کارروائی کے حق پر مثبت ردعمل ظاہر کیا۔ اگرچہ بین الاقوامی روایات کے تحت اس قدر قریبی بارڈر پر آپریشنز کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اس دوران پاکستان نے صرف اپنی حدود میں اپنے عوام اور فوجیوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کئے تھے‘۔ پاکستانی وفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ افغان نائب صدر کا یہ بیان درست نہیں ہے کہ پاک فضائیہ نے افغانستان کو اپنے علاقے میں طالبان کے خلاف کارروائی سے منع کیا تھا۔ ہم افغان حکومت کے اپنے خود مختار علاقوں میں کسی بھی قسم کی کارروائیاں کرنے کے حق کو تسلیم کرتے ہیں۔ وزارت خارجہ نے واضح کیا کہ ’ ایسے بیانات افغانستان میں امن کے لئے پاکستانی کوششوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ہم افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں اور اس سلسلے میں دشمنوں کی کوششوں کے باوجود اپنی کاوش جاری رکھیں گے‘۔

پاکستان کی اس پرزور تردید کے باوجود افغانستان کے نائب صدر امر اللہ صالح نے ایک نئے ٹوئٹ پیغام میں اپنے پہلے دعوے پر اصرار کیا اور کہا کہ’پاکستان تو بیس سال تک کوئٹہ شوریٰ یا طالبان دہشتگرد رہنماؤں کی اپنی سرزمین پر موجودگی سے بھی انکار کرتا رہا ہے۔ جو لوگ اس پیٹرن سے واقف ہیں، انہیں صحیح طور سے معلوم ہے کہ تردیدی بیان ایک پہلے سے لکھا گیا پیراگراف ہے جسے بس شیئر کیا گیا ہے‘۔ امر اللہ صالح نے یہ بھی کہا کہ اگر کسی کو پاکستانی فضائیہ کے حوالے سے میری ٹوئٹس پر شک ہے تو میں انہیں ڈائریکٹ میسج کے ذریعے شواہد بھیج سکتا ہوں۔ سپین بولدک سے دس کلومیٹر دور افغان طیاروں کو متنبہ کیا گیا کہ وہ پیچھے ہٹ جائیں یا میزائیلوں کا سامنا کریں۔ افغانستان اب نگلا نہیں جا سکتا‘۔

دوسری طرف پاکستانی حکام نے اسلام آباد کانفرنس ملتوی ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب طالبان تیزی سے افغانستان میں مختلف اضلاع پر قبضہ کررہے ہیں تو ’ایسے میں افغان حکومت کی پوزیشن کمزور ہو رہی ہے۔ حتی کہ طالبان نے اسپن بولدک جیسے اہم علاقے پر قبضہ کرلیا جو پاکستان اور افغانستان کے درمیان اہم گزرگاہ ہے۔ اس مقام سے افغانستان کو اپنی آمدنی کا تیس فیصد حاصل ہوتا ہے۔ حیرت ہے کہ افغان فورسز اس مقام کا دفاع کرنے میں بھی ناکام رہیں‘۔ پاکستانی حکام کی اس پریشانی و تشویش کے باوجود یہ بات واضح نہیں ہے کہ ایک ایسی کانفرنس جس میں طالبان کو مدعو نہیں کیا گیا تھا، افغانستان میں امن کے لئے کیا کردار ادا کرسکتی تھی؟ پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے دو روز قبل عجلت میں طلب کی گئی ا س کانفرنس کے بارے میں کہا تھا کہ اس میں طالبان کو مدعو نہیں کیا گیا کیوں کہ ان کے وفود کثرت سے اسلام آباد آتے ہیں اور ہم ایک دوسرے کے مؤقف سے بخوبی آگاہ ہیں۔

یوں تو وزیر اعظم کی سرکردگی میں پاکستان کا یہی مؤقف ہے کہ اس کا افغانستان کے حالات سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ جو بھی ہے وہ یا تو امریکہ کے غلط فیصلوں کے سبب ہے یا پھر افغان حکومت، طالبان کی طاقت اور حیثیت کے بارے میں غلط اندازے لگا رہی ہے اور لچک کا مظاہرہ کرنے کی بجائے ہٹ دھرمی اور ضد سے کام لیا جا رہا ہے۔ سوال ہے کہ اگر طالبان اور افغان حکومت کے نمائیندے دوحہ میں موجود ہیں اور کسی حد تک مواصلت قائم کرنے کی کوشش بھی کررہے ہیں تو ایک طرف پاکستان مائنس طالبان کانفرنس بلا رہا ہے اور دوسری طرف افغان قیادت کے ساتھ پبلک پلیٹ فارمز پر دشمنوں کے لب و لہجہ میں اختلاف رائے کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ افغان ترجمانوں کے بیانات سے بھی پاکستان دشمنی جھلکتی ہے لیکن پاکستان کو اگر غیر جانبدار رہنا ہے اور افغانستان میں امن ہی اس کی بنیادی اور اولین ترجیح ہے تو کیا وجہ ہے کہ پاکستانی قیادت اس وقت طالبان کے ترجمان کا کردار ادا کرنے پر مامور ہے۔ اور افغان حکومت سے اختلافات سفارتی ذرائع سے حل کرنے کی بجائے بیان بازی ہی کو اہم سمجھا جا رہا ہے۔

سپین بولدک کے حوالے سے ہونے والی الزام تراشی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ افغان نائب صدر کے الزامات کو محض ایک بیان سے مسترد کرکے آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ پاکستانی وزیر اعظم کو ازبکستان کے دورہ کے دوران صدر اشرف غنی سے ملاقات کا موقع ملا تھا ۔ ضروری تھا کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر وضاحت کرتے اور وہ شواہد طلب کئے جاتے جو امراللہ صالح کے بقول افغان حکومت کے پاس موجود ہیں۔ اس مؤقف کے مطابق افغان فضائیہ کو اپنے ہی علاقے میں طالبان کے خلاف کارروائی کرنے سے روکا گیا اور پاکستانی فضائیہ نے باقاعدہ مواصلت میں افغان فوج کو متنبہ کیا تھا۔ پاکستان کی نیک نیتی محض بیانات سے واضح نہیں ہوسکتی ۔ اس کے لئے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ پاکستان کی طرف سے نہ تو افغان فضائیہ کو روکا گیا اور نہ ہی اس کے طیاروں کو پاکستانی میزائیلوں کا نشانہ بنانے کی دھمکی دی گئی۔ ورنہ یہ ایک واقعہ ہی پاکستان کے خلاف ایک خاص عسکری گروہ کی معاونت و حوصلہ افزائی کے ثبوت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔

پاکستانی وزیر اعظم نے ازبکستان میں صدر اشرف غنی کی الزام تراشی کا جواب دینے کے لئے لکھی ہوئی تقریر روک کر براہ راست باتیں کیں اور طالبان کی عسکری برتری کا اعتراف کیا۔ اگرچہ وہ اس کا الزام امریکی فوجوں کے جلد بازی میں انخلا پر عائد کرتے ہیں لیکن اس وقت طالبان کے قوت پکڑنے کی وجوہات پر بحث مطلوب نہیں ہے بلکہ یہ دیکھنا اہم ہے کہ خود کو طاقت ور سمجھنے والا ایک عسکری گروہ کیوں کر افغانستان کے متعدد علاقوں پر زبردستی قبضہ کر رہا ہے۔  پاکستان نے اگر افغانستان میں امن قائم کروانے میں سرتوڑ کوشش کی ہے اور وہ کسی بھی صورت اس ملک کو خانہ جنگی سے بچانا چاہتا ہے تو اسے طالبان کی حوصلہ افزائی پر مبنی بیانات دینے کی بجائے، اس کے خلاف دو ٹوک اور واضح مؤقف اختیار کرنا چاہئے۔ امریکہ اور افغان حکومت کی طرح یہ واضح کیا جائے کہ کسی ایک گروہ کا بزور قوت اقتدار پر قبضہ پاکستان کے لئے بھی قابل قبول نہیں ہوگا۔ اس سوال پر پاکستان کے اعلیٰ عہدیدار سوالوں کا جواب دینے سے کتراتے ہیں۔ کابل حکومت کے نقطہ نظر سے اس صورت حال میں پاکستان کی نیک نیتی پر شبہ کا اظہار ہی کیا جائے گا۔

پاکستان سمیت تمام عناصر کو اس گمان سے باہر نکلنا چاہئے کہ طالبان عسکری لحاظ سے افغانستان پر قابض ہو کر ایسی حکومت قائم کرسکتے ہیں جسے کوئی چیلنج نہیں کرے گا۔ طالبان نے اگر مذاکرات کی بجائے جنگ کا راستہ اختیار کیا تو یہ طویل اور تکلیف دہ تصادم ہوگا۔ وزیر اعظم خود اعتراف کرتے ہیں کہ ایسی جنگ پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے تو پھر اس جنگ کا بنیادی سبب بننے والے گروہ کے بارے میں پاکستان کا مؤقف کیوں ہمدردانہ اور غیر واضح ہے؟ کیا پاکستان اس بات سے خوفزدہ ہے کہ اختلاف کی صورت میں طالبان پاکستان کے خلاف بھی برسرپیکار ہوسکتے ہیں؟ یا پاکستان کو اب بھی امید ہے کہ اگر طالبان افغانستان کے اقتدار پر قابض ہوگئے تو دیرینہ تعلقات کی بنا پر وہ اس ملک میں پاکستانی مفادات کے محافظ ہوں گے۔ طالبان کی ممکنہ حکومت سب سے پہلے بھارت پر افغانستان کے دروازے بند کرکے پاکستان کی دوستی کا حق ادا کرے گی؟

معروضی حالات، پاکستان کی معاشی، سفارتی اور سماجی صورت حال اور افغانستان میں جنگ سے ہونے والے نقصانات کا حساب لگایا جائے تو پاکستان کو امیدوں اور توقعات کی بجائے حقائق اور اصولوں پر افغان پالیسی استوار کرنی چاہئے۔ یہ بتانے کی بجائے کہ پاکستان نے کیا کیا اور دوسروں کی کیا غلطیاں ہیں، یہ واضح کیا جائے کہ پاکستان نہ اب طالبان کا سہولت کار ہے اور نہ ہی وہ کسی بھی صورت میں یہ کردار ادا کرنے پر تیار ہوگا۔ پاکستان ہر قیمت پر افغانستان کی قانونی حکومت کا ساتھ دے گا۔ پسند ناپسند سے قطع نظر دنیا اس وقت اشرف غنی کی حکومت ہی کو افغانستان کی قانونی حکومت کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments