پاک افغان سرحد: پاکستان کے سرحدی علاقوں کے بازاروں اور قبروں پر طالبان کے جھنڈے

سارہ عتیق - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


چمن باڈر سے کچھ کلو میٹر دور ایک چھوٹے بازار میں واقع مسجد کے باہر کالی دستار اور سفید قمیض شلور پہنے دو افراد کے گرد کچھ لوگ مجمع لگائے کھڑے تھے اور ان دو افراد کے ہاتھ میں ایک موبائل تھا جس کی طرف سب کی توجہ مرکوز تھی۔ اس مجمعے سے کچھ دور دو موٹر سائیکلیں بھی کھڑیں تھی جن پر عمارت اسلامی کا سفید چھنڈا لہرا رہے تھے۔

اس مجمعے میں کھڑا ایک مقامی شخص باہر نکل کر آیا اور اس نے بتایا کہ یہ دونوں طالبان ہیں اور کچھ دیر قبل ان کی افغانستان سے واپسی ہوئی ہے اور وہ افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے افغان سکیورٹی اہلکاروں کی ویڈیوز دیکھا رہے ہیں۔

اس مقامی شخص نے بتایا کہ یہ طالبان دعویٰ کر رہے ہیں کہ انھیں جلد ایک اور بڑی کامیابی ملنے والی ہے۔

ابھی اس بات کو چند گھنٹے ہی گزرے تھے کہ خبر آئی کہ طالبان نے پاکستان کی سرحد سے متصل علاقے سپین بولدک اور اہم تجارتی مرکز ویش منڈی کے ساتھ ساتھ پاک افغان سرحد ’باب دوستی‘ کا کنٹرول بھی سنبھال لیا ہے۔

افغانستان میں طالبان کے زیر کنٹرول آنے والے علاقوں میں دن بہ دن تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس سے پاکستان میں ان کی آمد و رفت اور دیگر سرگرمیوں سے متعلق بھی تشویش پائی جاتی ہے۔

طالبان کی جانب سے سپین بولدک پر قبضے سے چند دن قبل سے ہی پاکستان کے صوبے بلوچستان کے علاقے چمن میں طالبان کی غیر معمولی نقل و حرکت دیکھنے میں آئی تھی۔ چمن اور قلعہ عبداللہ کی چھوٹی مساجد کے باہر، بازار اور مرکزی روڈ پر ہر کچھ فاصلے پر کالی دستار باندھے اور عمارت اسلامی کا جھنڈا لگائے موٹر سوار نظر آئے۔

ایسی متعدد ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر شئیر کی گئیں جس میں افغانستان میں ہلاک ہونے والے طالبان جنگجوؤں کی میتوں کا چمن میں استقبال کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

عام لوگوں سے الگ وضع رکھنے والے طالبان

چمن کے ایک مقامی شخص نے بتایا کہ امریکی فوج کے انخلا اور افغانستان میں طالبان کی کارروائیوں میں تیزی آتے ہی افغانستان سے متصل پاکستان کے سرحدی علاقوں جیسا کہ چمن اور قلعہ عبداللہ میں طالبان ایک بار پھر متحرک دیکھائی دے رہے ہیں۔

مقامی شخص کا کہنا تھا کہ اگرچہ بہت سے طالبان کا تعلق اسی علاقے سے ہے لیکن پھر بھی ان کے حلیے سے انھیں دیگر مقامی افراد سے الگ پہچانا جا سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ان لوگوں کو اکثر بازار سے گزرتے اور مساجد میں نماز پڑھتے دیکھا جاسکتا ہے لیکن آج (سپین بولدک کا کنٹرول حاصل کرنے سے ایک دن قبل) یہ معمول سے زیادہ تعداد میں نظر آرہے ہیں۔‘

باب دوستی اور ویش منڈی کا کنڑول حاصل کرنے کے بعد طالبان کی جانب سے دعوی کیا گیا انھیں اس کا کنڑول حاصل کرنے کے لیے زیادہ مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ چمن کے مقامی افراد اس دعوی سے متفق نظر آتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ سرحد کے اس پار ہونے والی لڑائی کی آوازیں اس پار سنی جا سکتی ہیں لیکن باب دوستی اور ویش منڈی پر قبضے کے دوران فائرنگ یا دھماکوں کی کوئی آواز سنائی نہیں دی گئی جس کا مطلب ہے کہ افغان باڈر سکیورٹی اہلکاروں نے پر امن طور پر ہتھیار ڈال دیے اور کنڑول طالبان کے حوالے کر دیا۔

قلعہ عبداللہ کے بازار کلی زیارت کے ایک دکاندار کا کہنا تھا کہ طالبان اکثر ان سے چندا مانگنے بھی آتے ہیں۔

طالبان

سفید جھنڈوں والی قبریں

قلعہ عبداللہ سے چمن جاتے ہوئے روڈ کے دونوں اطراف ایسی متعدد قبریں موجود ہیں جن پر عمارات اسلامی افغانستان کے سفید جھنڈے لہرا رہے ہیں۔

چمن کے ایک مقامی شخص کا کہنا ہے کہ افغانستان میں ہلاک ہونے والے طالبان کے جنازے تدفین کے لیے افغانستان سرحد سے متصل بلوچستان کے علاقوں میں تدفین کے لیے لائے جاتے ہیں اور ان جنازوں میں شرکت کرنے والوں کو نہ صرف افغان جہاد کا حصہ بننے کی ترغیب دی جاتی بلکہ ہلاک ہونے والے مقامی طالبان کو مرکزی روڈ کے قریب دفن کر کے ان کی قبروں کو سفید جھنڈے سے اس لیے نمایاں بنایا جاتا ہے تاکہ انھیں دیکھ کر مقامی افراد کی حوصلہ افزائی ہو۔‘

احمد (فرضی نام) ایک طالب ہے جو قندھار کے قریب طالبان کی افغان سکیورٹی فورس کے خلاف لڑائی کا حصہ ہے۔ احمد کا کہنا ہے کہ وہ اب سے کچھ دیر قبل افغانستان سے چمن لوٹے ہیں اور قندھار کے قریب ہونے والی لڑائی میں زخمی ہونے والے اپنے ساتھیوں کو علاج کے لیے اور ہلاک ہونے والے ساتھیوں کو تدفین کے لیے چمن لائے ہیں۔

احمد نے بتایا کہ بولدک پر قبضے کے بعد آج صبح افغان سیکورٹی فورسز نے طالبان کے خلاف آپریشن شروع کیا لیکن اس آپریشن میں افغان ایئر فورس کا استعمال نہیں کیا گیا۔

افغان سیکورٹی فورسز کے اس آپریشن میں خبررساں ادارے روئٹرز کے انڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافی دانش صدیقی سمیت کئی سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔ احمد کا کہنا ہے کہ اس لڑائی میں کچھ طالبان ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوئے۔ انہی زخمیوں میں سے چند کو چمن علاج کے لیے لایا گیا ہے۔

طالبان

یہ بھی پڑھیے

افغانستان کے کون سے حصے طالبان کے کنٹرول میں ہیں اور کہاں قبضے کے لیے لڑائی جاری ہے؟

دو دہائیوں تک امریکہ کا مقابلہ کرنے والے طالبان کے ذرائع آمدن کیا ہیں؟

افغانستان سے آخر علاقائی قوتیں چاہتی کیا ہیں؟

باڑ لگا کر نقل و حرکت روکنے کی کوشش

چمن اور قلعہ عبداللہ کے رہائشیوں کو تشویش ہے کہ طالبان کی اس علاقے میں نقل و حرکت اور سرگرمیوں سے ایک بار پھر علاقے کا امن خراب ہو سکتا ہے۔

گذشتہ ہفتے پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف کی جانب سے سینٹ کی کمیٹی برائے خارجہ امور کو دی گئی بریفنگ میں بھی کچھ اسی قسم کے خدشات کا اظہار کیا گیا۔ ڈاکٹر معید یوسف نے افغان طالبان کی پاکستان میں موجودگی کو انڈین پروپرگینڈا قرار دیتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ تحریک طالبان پاکستان مہاجرین کے بھیس میں ملک میں داخل ہونے کی کوشش کر سکتے ہے۔

ذرائع کے مطابق گزشتہ روز تحریک طالبان پاکستان بلوچستان کی جانب سے قلعہ عبداللہ میں پاکستانی حکام کو نشانہ بنانے کی دھمکی بھی جاری کی گئی ہے جس کے بعد ضلاعی انتظامیہ لیویز اور سکیورٹی فورسز کو خبردار کر دیا گیا ہے۔

پاک افغان سرحد پر موجود باڑ سے پناہ گزینوں اور طالبان کی نقل و حرکت کو روک رہے ہیں۔

پاکستانی حکام کا اصرار ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی 2640 کلو میٹر طویل سرحد (ڈیورن لائن) پر لگائی گئی چار میٹر اونچی باڑ کے ذریعے طالبان اور پناہ گزینوں کی غیر قانونی نقل و حرکت کو کامیابی سے روکا جا رہا ہے۔

وزیر داخلہ شیخ رشید کے بیان کے مطابق اس بار پاکستان کی جانب سے افغان مہاجرین کو پاکستانی شہروں تک آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی بلکہ ضرورت پڑنے پر افغانستان یا پاکستان کی سرحد کے قریب ہی مہاجرین کے لیے کیمپ بنائیں جائیں اور ان کی سخت نگرانی کی جائے گی۔

چمن اور قلعہ عبداللہ کی ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اب تک افغان مہاجرین کے لیے کوئی کیمپ قائم نہیں کیا گیا لیکن ان کی تیاری مکمل ہے اور ضرور پڑنے پر سرحد کے قریب ہی یہ کیمپ قائم کیے جائیں گے۔

اس کے ساتھ ساتھ پاکستان افغانستان کی سرحد پر باڑ لگانے کا کام بھی تیزی سے جاری ہے اور نوے فیصد سے زیادہ کام مکمل کیا جا چکا ہے۔ تاہم پاکستان افغانستان کی سرحد پر واقع آٹھ منقسم دیہاتوں میں باڑ لگانے کا معاملہ ابھی زیر غور ہے اور انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جلد ہی اس علاقے پر بھی باڑ لگانے کا کام مکمل کر لیا جائے گا۔

احمد کا کہنا ہے کہ وہ جلد افغانستان جا کر اپنے دیگر طالبان ساتھیوں کے ہمراہ لڑائی کا حصہ بنے گا اور پورے افغانستان میں عمارت اسلامی کا کنٹرول قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp