دلیپ کمار اور ہالۂ شہرت


”شہرت ایک ہالہ ہے، اس سے پہلے کہ یہ ہالہ آپ کا گلہ گھونٹ دے آپ کو اسے مار ڈالنا چاہیئے! ’

یہ وہ الفاظ تھے جو میں نے زندگی میں پہلی بار سکرین سے باہر ایک جیتے جاگتے دلیپ کمار کے منہ سے سنے تھے۔

1988 میں جب دلیپ کمار پاکستان آئے تو سارے ملک میں ایک ہلچل سی مچ گئی۔ جدھر جاؤ، جس سے ملو وہ دلیپ کمار کی باتیں کر رہا تھا۔ ”کل میں نے دلیپ کمار کے ساتھ ہاتھ ملایا۔“ یہ میری تصویر دیکھو، دلیپ کمار کے ساتھ ”میں نے دلیپ کمار کو دیکھا، میں دلیپ کمار کے ساتھ کھڑا رہا۔ میں نے دلیپ کمار سے آٹو گراف لیا’

میرے دفتر میں بھی ایسی ہی باتیں ہو رہی تھیں اور ہر کوئی یہی سوال کر رہا تھا، یار سرمد تم دلیپ کمار سے نہیں ملے؟ کمال ہے! ’میں ہنس کر کہتا‘ میں نے دلیپ کمار سے مل کر کیا کرنا ہے، نہ تو مجھے اس کے ساتھ تصویر کھنچوانے کا شوق ہے اور نہ ہی اس سے کوئی سوال جواب کرنا ہے۔

میں اس زمانے میں اسلام آباد ٹی وی پر تھا اور دلیپ کمار اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ روزانہ کہیں نہ کہیں ان کے اعزاز میں پارٹیاں ہو رہی تھیں۔ اسی ایک پارٹی میں ہمارے ایک پروڈیوسر جو اپنے آپ کو بہت نامور سمجھتے تھے وہ بھی گئے، واپس آئے تو بہت غصے میں تھے۔

’کیا ہوا؟‘ میں نے پوچھا

’کچھ نہیں یار میں کل دلیپ کمار سے ملا، بڑا رش تھا لیکن میں نے آگے بڑھ کر اپنا تعارف کروایا اور اسے اپنا وزٹنگ کارڈ دیا، یار یہ تو بڑا ہی مغرور آدمی ہے، کارڈ دیکھا بھی نہیں اور کہتا ہے، معاف کیجئے ہم یہاں ذرا کھو سے گئے ہیں۔‘

میں نے ہنس کر کہا ’یار اس میں تو مغرور ہونے والی کوئی بات نہیں۔‘
’کیا مطلب، تم ملے ہو اس سے؟‘
نہیں،
’تو پھر تمہیں کیسے پتہ ہے؟‘

’دیکھو تم اسے اپنی پھنے خانی دکھا رہے تھے اور اس نے تمہیں یہ اشارہ دیا کہ حضور آپ یقیناً ٹی وی کے بے حد مشہور پروڈیوسر ہوں گے لیکن یہاں لوگوں کی بھیڑ اور شور میں ہم ایسے کھو سے گئے ہیں کہ ہمیں آپ کا نام یاد نہیں آ رہا‘ ۔

’ بکواس نہ کرو، تم خواہ مخواہ اس فلمی ڈائیلاگ سے اپنے مطلب نکال رہے ہو، تم نے اس کو فلموں میں دیکھا ہے، ملو گے تو پھر بات کرنا‘

میں پھر بھی دلیپ کمار سے نہ ملا اور نہ میں نے اس سے ملنے کی کوشش کی لیکن میرے ستاروں میں ایک ایسے ستارے کا دیدار لکھا تھا جس کی حیرت نے عمر بھر میرے دل و دماغ کو جگمگاتے رہنا تھا۔ چنانچہ ایک صبح ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ فون میرے بھانجے سیرت حاضر کی بیوی شہناز شیخ کے لئے تھا جو ان دنوں ہمارے گھر ٹھہری ہوئی تھی۔ میں نے شہناز کو بلایا اور خود اپنے کمرے میں چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک ہانپتی کانپتی شہناز شیخ میرے کمرے میں آئی اور کہا، ’چھماں ماموں دلیپ کمار مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔‘

’گریٹ، یہ تو کمال ہو گیا‘ ۔ میں نے کہا
’ لیکن میں وہاں اکیلی نہیں جاؤں گی۔ آپ مجھے لے کر جاٰئیں گے۔‘

میں نے کہا فکر نہ کرو میں تمہیں خود چھوڑ کر آؤں گا۔ تھوڑی دیر میں ہم لوگ تیار ہو کر میرٹ ہوٹل چلے گئے۔ وہاں دلیپ صاحب کے کمرے کے باہر دونوں طرف ان کے چاہنے والوں کا تانتا بندھا تھا۔ ہم ان سے بچتے بچاتے دروازے پر پہنچے تو دیکھا دلیپ صاحب دروازے پر کھڑے ہیں۔ اندر کمرہ بھی لوگوں سے بھرا پڑا ہے۔ دلیپ صاحب نے بڑی شستہ انگریزی میں شہناز کا والہانہ استقبال کیا اور ’ان کہی‘ سیرئیل میں اس کی اداکاری کی بڑے کھلے دل سے داد دی۔ شہناز ان کے سامنے آنکھیں جھکائے گم سم اور حیرت زدہ کھڑی رہی۔ یک دم اس نے کہا، ’دلیپ صاحب میں تو آپ کو آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتی، یہ میرے ماموں ہیں آپ ان سے بات کریں‘ ۔ یہ کہہ کر وہ کمرے کے ہجوم میں گم ہو گئی۔ اب دلیپ صاحب میرے سامنے کھڑے تھے اور میں ان کے سامنے۔ ایک لمحے کے لیے جیسے ہر چیز سلوموشن میں چلی گئی۔ میرے آگے پیچھے لوگ ہی لوگ تھے۔ میرے جی میں نہ جانے کیا آئی کہ جونہی انہوں نے میری طرف مصافحے کے لئے ہاتھ آگے بڑھایا میں نے ہاتھ ملاتے ہی ان سے ذرا ہنس کر کہا

’Dilip sahib how do you bear such unbearable fame؟‘
(آپ اس ناقابل برداشت شہرت کو کیسے برداشت کرتے ہیں؟ )

ایک لمحے کے لیے دلیپ صاحب کچھ کھو سے گئے لیکن پھر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اندر لے جاتے ہوئے بڑے ر از دارانہ انداز میں کہا

’Fame is a halo، you must kill the halo before it kills you‘

واہ! دلیپ صاحب نے میری بات کا جواب بڑی خوبصورتی سے دے دیا تھا لیکن ان کو شاید اس کے بارے میں اور بہت کچھ کہنا تھا۔ انہوں نے مجھے اپنے ساتھ کرسی پر بٹھا لیا۔ چاروں طرف بیٹھے لوگوں کی نظریں دلیپ کمار پر لگی تھیں، وہ ان کے ہر قدم، ہر جنبش کو بڑے انہماک سے دیکھ رہے تھے۔ مجھے اس سارے ماحول میں کچھ گھبراہٹ سی محسوس ہوئی لیکن پھر یوں لگا جیسے دلیپ صاحب کو اس کا احساس ہو گیا ہو۔ انہوں نے دھیمے دھیمے مجھ سے کچھ ایسی محویت سے گفتگو شروع کی کہ ہم دونوں کے گرد ایک حصار سا کھینچتا چلا گیا۔ ایسا حصار جس کے اندر کوئی دوسرا داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ جیسے دنیا و مافیہا سے بے خبر ہم کسی حجرے میں بیٹھے ایک دوسرے سے راز و نیاز کی باتیں کر رہے ہوں۔

’ ہری سوامی داس کے پاس جب تان سین سنگیت سیکھنے گئے تو ہری سوامی داس نے تان سین سے کہا، وہ دیکھو، وہاں اس پہاڑٰی پر ایک بڑھیا رہتی ہے۔ تم اس کے پاس جاؤ، اس کے گھر کی صفائی کرو، اس کا کھانا پکاؤ اور اس کا خیال رکھو۔ تان سین نے دل میں سوچا ہم تو سنگیت سیکھنے آئے تھے، یہ ہمارے گرو نے ہم کو کیا کہہ دیا لیکن وہ گرو کے کہنے پر اس بڑھیا کے پاس چلے گئے اور جب کئی مہینے انہوں نے اس کا کھانا پکایا، بکریوں کے گوبر اٹھائے اور صفائیاں کیں تو ان کو پتہ چلا کہ پہلے انا کو مارنا پڑتا ہے۔ میں اس وقت دلیپ کمار نہیں، میرے پاس اس وقت نہ‘ داغ ’ہے نہ‘ دیدار ’مجھے آپ دلیپ کمار نہ کہیں میں تو یوسف خان ہوں۔ اگر مجھے کبھی ذرا سا بھی گمان گزرے کہ میں دلیپ کمار ہوں تو میں فرش پر سونا شروع کر دیتا ہوں‘ دلیپ کمار گفتگو نہیں سحر پھونک رہے تھے۔ ان کا مخاطب نہ میں تھا نہ کوئی اور، لگتا تھا جیسے وہ خود سے باتیں کر رہے ہوں لیکن ساری دنیا سے ہمکلام ہوں۔

یوسف خان نے اپنے حجرے سے دلیپ کمار کی شہرت کا پردہ چاک کر دیا تھا، وہ مجھ سے بڑی اپنایت اور بے تکلفی سے بات کر رہے تھے۔ اب جب یوسف خان نے مجھے اپنے حجرے میں اپنے ساتھ جگہ دے دی تو میں نے بھی اسی بے تکلفی سے ان سے اردو انگریزی، پنجابی میں باتیں شروع کردیں،

’یوسف بھائی ہمارے ایک پنجابی فلموں کے بہت بڑے ایکڑ ہیں، سلطان راہی، انہوں نے آپ کی کبھی کوئی فلم نہیں دیکھی تھی۔ جب امرتسر ٹی وی سے آپ کی فلم دکھائی گئی تو اس کے دوسرے روز رات مجھے وہ لاہور کے ہوٹل انٹر کانٹی نیٹل میں کافی شاپ پر ملے اور کہنے لگے‘ لو جی راتیں دلیپ بھائی جان دی فلم ’داغ‘ تکی، کمال ہی ہو گیا، (رات دلیپ بھائی جان کی فلم داغ دیکھی، کمال ہی ہو گیا) سانوں ویکھو، اسی ایک سیٹ تے گھوڑے تے بیٹھ کے ڈائیلاگ بولنے آں تے فیر دوسرے سیٹ تے اوسی گھوڑے تے بیٹھ کے اوہی ڈائیلاگ بول جانے آں۔ (ہمیں دیکھیں، ہم ایک سیٹ پر گھوڑے پر بیٹھ کر ڈائیلاگ بولتے ہیں اور پھر دوسرے سیٹ پر اسی گھوڑے پر بیٹھ کر وہی ڈائیلاگ بول جاتے ہیں ) کجھ دن پہلاں ریڈیو تے میری دستار بندی دا پروگرام سی، (کچھ دن پہلے ریڈیو پر میری دستار بندی کا پروگرام تھا) پروڈیوسر نے میرے اگے اک نکا جہیا مائیکروفون رکھ دتا، (پروڈوسر نے میرے سامنے ایک چھوٹا سا مائیکروفون رکھ دیا) میں کہیا، اوئے اے چک لوو، اینویں پاٹ پوٹ جائے گا۔ (میں نے کہا بھائی اسے اٹھا لو، خواہ مخواہ پھٹ وٹ جائے گا) اوہناں کہیا، اوہ نہیں راھی جی تسی بولو۔ ( انہوں نے کہا نہیں راھی جی آپ بولیں) لو جی کمپیئر نے انٹرویو کر دیاں مینوں کوئی ڈائیلاگ بولن دی فرمائیش کیتی۔ (لو جی کمپئر نے انٹرویو کے درمیان مجھ سے ڈائیلاگ بولنے کی فرمائش کی ) میں جدوں بڑھک مار کے ڈائیلاگ بولے تے پروڈیوسر دے کناں توں ہیڈ فون تھلے جا پے۔ (میں نے جب بھڑک لگاتے ہوئے ڈائیلاگ بولے تو پروڈیوسر کے کانوں سے ہیڈ فون گر کر نیچے جا پڑے) پرمیں کہنا واں دلیپ بھائی جان نیواں نیواں کھیڈ دے نیں تے بال ہتھوں نہیں جان دیندے۔ (مگر میں کہتا ہوں دلیپ بھائی جان دھیما دھیما کھیلتے ہیں اور بال ہاتھ سے نہیں جانے دیتے) ’یوسف بھائی سلطان راہی نے آپ کے انڈر پلے کو کیا خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔

’بھئی ساؤنڈ والے ہم سے کہتے، اونچا بولو، اونچا، تو ہم ان سے کہتے آٌپ تو جھینگروں کی آواز بھی ریکارڈ کر لیتے ہیں، ہماری کیوں نہیں کر سکتے۔‘

’پھر بھی یوسف بھائی، آپ کے زمانے میں تو فلموں کی اداکاری پر تھیٹر کا بہت اثر تھا، مکالمے پڑے زوردار انداز میں بولے جاتے تھے، میرا مطلب ہے ساری ایکٹنگ بڑی سٹائلایزڈ تھی مگر آپ نے تو یہ سب کچھ ہی بدل ڈالا۔

’مجھے بمل رائے نے ایک ناول پڑھنے کو دیا، مجھے لاڈ سے لوگ جانی کہتے ہیں، کہا، جانی، ناول نگار نے جو جو ڈی ٹیلز اس میں نہیں لکھیں وہ تم خود لکھ دو۔ جیسے اگر ناول میں لکھا ہے کہ راجو ٹرین پر سوار ہوا، موسم بڑا خوشگوار تھا، سفر کے دوران راجو نے پوٹلی سے کچھ کھانا نکالا اور مزے سے کھانے لگا۔ تو تم نے یہ لکھنا ہے کہ راجو کس دن اور کس وقت اور ٹرین کی کس کلاس کے ڈبے میں بیٹھا، اس نے کیسے کپڑے پہن رکھے تھے، پاؤں میں کیسے جوتے تھے اور اس نے پوٹلی سے کون سی کھانے کی چیز نکالی۔ جب میں نے یہ ساری ڈی ٹیلز دھیان میں لانا شروع کیں تو Then I began to get under the skin of the character.

اور پھر ہم جب ہالی وڈ کی فلمیں دیکھتے تو سوچتے کہ یہ کیسے مکالمہ بولتے ہیں، ہم کیوں نہیں اس طرح بول سکتے۔ ان کی فلموں کی اداکاری ہمیں بڑی اچھی لگتی تھی۔ ہم انگرڈ برگمن کے بہت عاشق تھے، جب تک اس کی فلم لگی رہتی ہم تین سے چھ، چھ سے نو اور نو سے بارہ تینوں شو باقاعدگی سے دیکھتے۔ ’

’کبھی آپ کی ملاقات ہوئی، انگرڈ برگمن سے؟‘
’جی ہاں، ایک عالمی فلمی میلے میں وہ ہمارے سامنے آ گئیں، ابھی ہم ان کی موجودگی کے سحر میں تھے کہ انہوں نے ہم سے پوچھا
What do you do for a living؟
(آپ اپنی روزی روٹی کے لئے کیا کرتے ہیں؟ )
ہم دونوں انگرڈ برگمن کی اس بات پر خوب ہنسے۔
’تو آپ نے ان سے کیا کہا‘ میں پوچھا۔
یوسف خان نے ایک اداس سی مسکراہٹ سے کہا ’ہم ان سے کیا کہہ سکتے تھے۔ بس خاموش رہے۔‘
’آپ بھی اگر ہالی وڈ میں چلے جاتے تو۔‘
’ھمیں لارنس آف عریبیا میں رول کی آفر ہوئی تھی، لیکن ہم نے نہ کیا۔ بعد میں عمر شریف نے کیا‘
’ آپ نے کیوں نہ کیا؟‘
’ہم نے سوچا ہندوستان والے کیا کہیں گے‘

’یوسف بھائی، میرے استاد نزاکت علی خان صاحب نے مجھے بتایا کہ ایک دن وہ بمبئی کے کسی ریستوران میں بیٹھے تھے جہاں کچھ لوگ مختلف اداکاروں کی اداکاری پر زوردار بحث کر رہے تھے۔ ایک سکھ جو یہ سب کچھ سن رہا تھا وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور اس نے یہ کہہ کر ساری بحث ختم کر دی کہ دیکھو، اس نے اپنے منہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا‘ سبھو ایکٹر ایتھوں بولدے نہیں ’( سب اداکار یہاں سے بولتے ہیں ) اور اس نے اپنے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا‘ دلیپ کمار ایتھوں ’(دلیپ کمار یہاں سے۔ )

یوسف بھائی آپ کے لئے آپ کے چاہنے والے نے بھی اپنے دل سے یہی بات کہی۔ ویسے بھی زیادہ تر اداکار مکالمے کے الفاظ کے گرامیٹک آہنگ کو فالو کرتے ہیں لیکن آپ الفاظ کی تہہ میں جو جذباتی کیفیت ہوتی ہے اس کے ردہم کو فالو کرتے ہوئے الفاظ کی گرامر بدل دیتے ہیں، جیسے کوئی بڑا شاعر الفاظ کے مروجہ معنی بدل دیتا ہے، جیسے شعری بیان، بیان ہوتے ہی معدوم ہو جاتا ہے ویسے ہی آپ کا مکالمہ ادا ہوتے ہی غائب ہو جاتا ہے اور صرف کیفیت رہ جاتی ہے، آپ سر لگاتے نہیں سر دکھاتے ہیں۔ ’

’ہمیں ایک سین کرنا تھا جس میں ہیرو رات کے وقت اپنے کمرے کی کھڑکی سے چاند اور ستاروں کو دیکھتا ہے۔ ہمیں ڈائریکٹر نے ایک لمبا چوڑا سکرپٹ پکڑا دیا۔ ہم نے وہ مکالمے پڑھے تو کہا ہم تو کچھ بھی نہیں کہیں گے۔ وہ کچھ برہم سے ہوئے، کہنے لگے‘ جانی یہ کیا کہہ رہے ہو۔ یہ مکالمے تو بہت ضروری ہیں، ہیرو اپنی تنہائی میں چاند ستاروں سے اپنے دل کا حال کہہ رہا ہے۔

ہم نے کہا آپ کیمرہ اون کریں ہم یہ سب کچھ کہیں گے نہیں، دکھا دیں گے ’

گریس کا ترجمہ پتہ نہیں کیا ہے لیکن میں اسے ایک ادا سمجھتا ہوں۔ ادا کار وہ ہے جو اداؤں کو ایجاد کرتا ہے، دلیپ کمار مجھے مجسم اداکار دکھائی دیے، میں نے اپنی اس ملاقات میں دل کو چھو لینی والی نہایت خوبصورت اداؤں کو جنم لیتے دیکھا۔ دل تو یہی چاہ رہا تھا کہ میں یونہی اس حجرے میں بیٹھے یوسف خان کی باتیں سنتا رہوں لیکن یک دم مجھے محسوس ہوا کہ ہمارے گرد دلیپ کمار کی شہرت کا ہالہ کچھ تنگ سا ہونے لگا ہے، چاروں طرف لوگ اس انتظار میں ہیں کہ کب دلیپ کمار یوسف خان کے حجرے سے باہر نکلے اور وہ اس کو اپنی محبت کے ہالے میں گھیر لیں۔

’یوسف بھائی بہت لوگ آپ سے ملنے کے لئے بے چین ہیں۔ مجھے اب چلنا چاہیے۔‘
’نہیں آپ تو ہمارے ساتھ کھانا کھائیں گے۔‘
’نہیں یوسف بھائی، بہت شکریہ۔‘
دلیپ کمار نے میری بات کو ان سنی کر کے کمرے کے کونے میں کھڑے ہوئے باوردی ویٹر سے کہا۔
’ذرا ہم دونوں کے لئے کھانا لگا دیجئے۔‘ ۔
سین 1 ٹیک 1

ڈاریکٹر۔ جانی تم ایک بہت بڑے ایکٹر ہو، سمجھو تم دلیپ کمار ہو۔ تمھارے ارد گرد تمہارے پرستاروں کا ہجوم ہے، کوئی تم سے ہاتھ ملانا چاہتا ہے، کوئی تصویر اتروانا چاہتا ہے اور کوئی تم سے آٹو گراف لینا چاہتا لیکن تم ایک ایسے اجنبی شخص سے ملتے ہو جو نہ تو دلیپ کمار سے ملنا چاہتا ہے نہ یوسف خان سے، وہ جانی سے ملنا چاہتا ہے۔ تمہیں اس کی یہ بات اچھی لگتی ہے۔ تم چاہتے ہو کہ وہ تمہارے ساتھ کھانا کھائے، تمہارے مکالمے ہیں

’دوست میں آپ کو رسمی طور پر نہیں کہہ رہا کہ آپ میرے ساتھ کھانا کھائیں، میں تو اپنے دل کی گہرائیوں سے چاہتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ کھانا کھائیں‘

دلیپ کمار۔ نہیں، ہم یہ سب کچھ تو نہیں کہیں گے
ڈائریکٹر۔ جانی یہ تم کیا کہہ رہے ہو، یہ مکالمے بڑے ضروری ہیں
دلیپ کمار۔ ہم کہیں گے نہیں، دکھا دیں گے۔
ایکشن!

ویٹر سوپ کا ایک بڑا باؤل لے کر داخل ہوتا ہے۔ پہلے دلیپ کمار کو سرو کرنے کے لئے باؤل اس کی طرف بڑھاتا ہے۔ یوسف خان ویٹر کے ہاتھوں سے باؤل اپنے ہاتھوں میں لے لیتا ہے۔ جانی باؤل یوسف خان سے لے کر بڑے لاڈ سے اجنبی شخص کو سرو کرتا ہے۔

کٹ

سرمد صہبائی
Latest posts by سرمد صہبائی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments