ٹورنٹو میں دلیپ صاحب کے ساتھ ایک انٹرویو کی کہانی


وہ شعر دوسرا تھا اور پھر انہوں نے پڑھا ”تکلف بر طرف تجھ سے تری تصویر اچھی ہے“ ۔ دوسرا مصرع انہیں اس وقت یاد نہیں تھا چنانچہ فوراً ہی انہوں نے شعر کے بجائے مصرع کہہ کر بڑی خوبصورتی سے اپنے بیان کی فصاحت کو برقرار رکھا۔ جب وہ یہ مصرع پڑھ رہے تھے تو ان کے ہاتھ میں کلینکس کا ایک کاغذ تھا جس سے وہ انٹرویو کے دوران کیمرے کی تیز روشنی کی وجہ سے اپنا پسینہ پوچھ رہے تھے۔ دلیپ صاحب نے اس پرچے کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھتے ہوئے یہ مصرع پڑھا۔ یعنی اس مصرع کی پوری تصویر انٹرویو دیکھنے والوں کی آنکھوں کے سامنے کردی، حالاں کہ اس کاغذ پر تو کچھ لکھا ہوا ہی نہیں تھا۔

میں اب بھی جب اس بات پر غور کرتا ہوں تو ان کی شخصیت کے دو پہلو نمایاں ہو کر میرے سامنے آتے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ وہ مصرع اور شعر کے فرق کو بہت اچھی طرح جانتے تھے اور اس کی درست ادائیگی کو ضروری سمجھتے تھے۔ دوسری بات یہ کہ کاغذ کے ٹکڑے کو جس طرح اپنے سامنے رکھ کر مصرع پڑھا وہ ایک طرح سے ان کی فطری اداکارانہ صلاحیت کی غمازی کرتا تھا۔

اپنے پیدائشی شہر پشاور کی یادوں کو انہوں نے ہمیشہ اپنے سینے سے لگائے رکھا۔ انگریزوں نے پشاور کے تاریخی بازار قصہ خوانی میں جو خون کی ہولی کھیلی تھی، اس کو یاد کرتے ہوئے ان کی آنکھوں میں نمی سی آ گئی تھی۔ کہنے لگے میں تو اس وقت بہت چھوٹا تھا لیکن اتنا ضرور جانتا تھا کہ یہ جو انگریز ہیں، ان کو ہم پر حکمرانی کا کوئی حق نہیں ہے۔ آزادی حاصل کرنے کا ایک جوش و جذبہ میرے خون میں اپنے والد مرحوم کی طرف سے آیا تھا جو خلافت تحریک کے زمانے میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی اور مہاتما گاندھی کے قریب تھے۔ پشاور سے ممبئی جانے کے واقعے کو انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ معلوم نہیں کہ وہ عرش سے فرش پر آنے کا عمل تھا یا فرش سے عرش پر جانے کا واقعہ تھا لیکن میں پشاور میں گزارے ہوئے اپنے بچپن کے دنوں کو کبھی نہیں بھلا سکتا۔

دلیپ کمار صاحب اپنی ہندستانی تہذیب کے بہت بڑے شیدائی تھے۔ کہنے لگے کہ ہندستان اور پاکستان دو الگ ملک ضرور ہیں لیکن ہماری تہذیبی اور معاشرتی قدریں تقریباً ایک ہی سی ہیں۔ وہ معاشرہ جس میں، میں نے اپنا بچپن گزارا، اس میں بڑی حرارت تھی، بڑا وقار تھا۔ اس معاشرے کی بنیاد انسانیت پر تھی لیکن افسوس کہ آزادی کے بعد اندسٹریلائزیشن کی وجہ سے ہم بہت تیز دوڑنے لگے اور اپنی اصل قدروں کی پہچان کو بھلا بیٹھے۔ اب لوگ تنگ نظر، تنگ ذہن اور تنگ دل ہوتے جا رہے ہیں۔ دلیپ کمار صاحب ان خیالات کا اظہار 985 ء میں کر رہے تھے، مجھے معلوم نہیں کہ مرنے سے کچھ دنوں قبل وہ کیسا محسوس کر رہے ہوں گے؟ یقیناً اپنی آنکھوں کے سامنے ان پرانی قدروں اور رواداریوں کی دھجیاں اڑتے ہوئے دیکھ کر وہ پر ملال تو ضرور ہوتے ہوں گے۔

جب وہ انڈسٹریلائزیشن کی بات کرتے ہوئے یہ کہنے لگے کہ ہمارے یہاں نہیں بلکہ مغرب میں بھی اس بے ہنگم دوڑ کی وجہ سے فیملی یونٹ ٹوٹ رہا ہے۔ تو میں نے ان سے ذرا سا اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ تبدیلی تو ہر دور میں آتی رہتی ہے اور بہر حال چرخے کے مقابلے میں کپڑے کی مشینوں کو ترقی تو کرنا ہی تھا تو انہوں نے بہت آہستگی سے کہا کہ صنعتی ترقی مہذب ہونے کی دلیل تو نہیں ہے نا۔

ہندستانی تہذیب کے حوالے سے کہنے لگے کہ آزادی سے پہلے ہمارے زمانے میں جو نسل تھی، ذرا آپ اس کے را میٹریل (RAW MATERIAL) پر تو نظر ڈالیے۔ ہمارے یہاں ادب میں منشی پریم چند، اقبال، ٹیگور، شرت چندر چٹرجی، جوش، کنہیا لال کپور اور منٹو جیسے لوگ تھے۔ یہ بڑا طاقت ور ہندستانی معاشرہ تھا۔ ہمارے یہاں لٹریچر کی ایک بڑی روایت تھی جس کے فروغ کے لیے ہم نے کچھ نہیں کیا۔ میں نے ان سے آج کل ہونے والی فلمی شاعری کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے میر تقی میر کا ایک شعر پڑھا:

جو پوچھا کہ گل کا ہے کتنا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا

اور کہا کہ اب ہمارے دور میں جو شاعری ہو رہی ہے وہ عجیب و غریب ہے۔ کچھ دنوں پہلے میں ایک محفل میں گیا تو ایک صاحب جھوم جھوم کے شعر پڑھ رہے تھے :

لاش لٹکا دی مری قاتل نے گھر کے سامنے
کشتۂ بیداد کو رکھا نظر کے سامنے
لاش لٹکا
لاشے لٹ
لاش لٹ کا

انہوں نے اس مصرعے کو تین بار بڑے مختلف انداز میں پڑھتے ہوئے کہا کہ آخر یہ شاعری کا کون سا معیار ہے؟ پھر انہوں نے سنجیدگی سے کہا کہ دیکھیے ہمارے پرانے فلمی گیتوں میں اعلیٰ معیار کی شاعری ہوتی تھی، جس میں میلوڈی تھی اور میلوڈی کے لیے ٹھہراؤ بہت ضروری ہے۔ فلمیں معاشرے کی عکاس ہی تو ہوتی ہیں۔ اب تو ہر شخص تیز تیز دوڑے جا رہا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سوپر سونک فلائیٹ چلنا شروع ہوئی تھیں (بعد میں خیر بند ہو گئیں ) ۔

دلیپ صاحب نے لندن سے نیو یارک تک آواز سے تیز رفتار اسی جہاز پر سفر کیا تھا۔ کہنے لگے کہ بھلا بتائیے کہ آدمی جس وقت لندن سے چلتا ہے اس سے دو گھنٹے پہلے نیو یارک پہنچ جاتا ہے لیکن میں نے دیکھا ہے کہ اس کے باوجود لوگ تیز تیز دوڑ کر جہاز سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایسے تیز رفتار ماحول میں جب زندگی میں ہی میلوڈی نہیں ہے تو پھر گیتوں میں میلوڈی کہاں سے آئے گی؟

اس بات چیت کو تقریباً پون گھنٹہ ہونے کو آ رہا تھا۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ میں بھی انٹرویو لیتے ہوئے بہت تیز دوڑ رہا ہوں۔ اب اس سلسلے کو ختم کرنا چاہیے۔ سو میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور ان سے اجازت لی۔ اچھا ہی ہوا کہ میں نے انٹرویو ختم کر دیا کیوں کہ بعد میں معلوم ہوا کہ ان کے میزبان اپنے مہمانوں کو کسی جگہ لنچ پر لے جانے کے لیے باہر منتظر بیٹھے تھے۔

مہمانوں کو دروازے تک رخصت کرنے کے بعد ہم سب لوگ اسٹوڈیو میں واپس آ گئے۔ میں نے اسٹوڈیو آ کر اپنا بیگ اٹھایا اور فوراً واپس ہو لیا۔ پارکنگ لاٹ میں پہنچا تو دیکھا کہ تمام مہمان ابھی تک وہیں کھڑے ہیں۔ دلیپ صاحب کی نظر مجھ پر پڑی تو میرے قریب آ کر میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ ہم لوگوں کو لنچ پر جانا ہے لیکن میرے ساتھ آنے والی ان خواتین کو گھر واپس جانا ہے، جہاں یہ ٹھہری ہوئی ہیں وہ شاید شہر کی دوسری سمت ہے، اگر زحمت نہ ہو تو برائے مہر بانی انہیں وہاں تک پہنچا دیں۔ میں تو حیران رہ گیا کہ اتنا بڑا آدمی اور اتنے انکسار سے یہ بات کہہ رہا تھا جیسے کہ میں اس پر واقعی کوئی بہت بڑا احسان کرنے والا ہوں۔ سچ ہے پھل دار پیڑ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ مجھ سے وعدہ لے کر وہ اپنی بیگم کے ساتھ اپنے میزبان کی گاڑی میں بیٹھ گئے۔

ان کے جاتے ہی میں نے اپنی پرانی سی، چھوٹی سی اور نسبتاً گندی سی گاڑی میں لگی ہوئی بچے کی کار سیٹ نکالی تاکہ تینوں خواتین اطمینان سے بیٹھ سکیں۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ کون خواتین ہیں۔ ادھیڑ عمر خاتون کے لیے جبگاڑی کا اگلا دروازہ میں کھولنے لگا، تو انہوں نے سب سے نوجوان خاتون کو آگے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ شاید سمجھ گئیں کہ میں ان کو نہیں پہچانتا ہوں۔ میرا چہرہ سپاٹ دیکھ کر کہنے لگیں کہ آپ شاید جانتے نہیں، یہ ہماری فلم ایکٹریس کمی کاٹکر ہیں، حال ہی میں ان کی فلم ”ٹارزن“ ریلیز ہوئی ہے۔

کچھ کہے بغیر اور اس شرمندگی کے ساتھ کہ میں اس ایکٹریس کو پہچان نہیں سکا، میں نے گاڑی کو ٹورنٹو کے شمال مغرب کی طرف دوڑانا شروع کر دیا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی وہ لوگ آپس میں باتیں کرنے لگیں۔ ان کی باتوں سے میں نے اندازہ لگایا کہ ان خواتین کو بھی لنچ پر جانا تھا لیکن انٹرویو میں بہت زیادہ وقت لگ جانے کی وجہ سے وہ دلیپ صاحب کے ساتھ نہیں گئیں۔ انہیں شام کے کسی پروگرام کی تیاری کرنی تھی، گاڑی وہاں پر اس وقت ایک ہی تھی اور دلیپ صاحب ان کو اکیلے ٹیکسی پر نہیں بھیجنا چاہتے تھے۔ شہرت کی انتہائی بلندی پر ہونے کے باوجود اپنے جونیئر ساتھیوں کا اس درجہ خیال رکھنا کوئی معمولی بات نہیں ہی۔

میری گاڑی ہائی وے پر دوڑتی رہی اور میرے ذہن کے دریچوں میں دلیپ کمار صاحب کی تہذیبی شخصیت کے خوبصورت پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو بڑی دیر تک آتی رہی۔ اب جب کہ وہ اس دنیا میں نہیں ہیں تو ان پھولوں کی خوشبو اور بھی مسحور کیے دے رہی ہے۔ یہ خوشبو میری زندگی کا بیش بہا سرمایہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments