ٹورنٹو میں دلیپ صاحب کے ساتھ ایک انٹرویو کی کہانی


یہ آج سے تقریباً 36 سال پہلے کی بات ہے جب ٹورنٹو سے ہندی یا اردو زبان کے ہفتے میں ایک ایک گھنٹے کے صرف دو ٹیلی ویژن پروگرام ہوا کرتے تھے۔ ریڈیو کے البتہ کئی پروگرام ہوتے تھی جن کو پروڈیوسر کی قومیت کی وجہ سے ہندی یا اردو پروگرام کہا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر اگر محمد رفیع کا گانا کسی انڈین پروڈیوسر کے پروگرام میں پیش کیا جاتا تھا تو اسے ہندی پروگرام کہا جاتا تھا اور اگر لتا منگیشکر کا گانا کسی پاکستانی پروڈیوسر کے ریڈیو پر پیش کیا جاتا تھا تو اسے اردو پروگرام کہا جاتا تھا۔

ریڈیو کے پروگرام زیادہ ہوتی تھے چنانچہ وہاں اردو ہندی کی تقسیم عموماً کچھ اسی طرح سے ہوتی تھی لیکن ٹی وی کے پروگرام کم ہونے کی وجہ سے یہ تقسیم ممکن نہیں تھی۔ 1980 میں پاکستان سے آنے کے بعد ، میں ایشین ٹیلی ویژن کے پروگرام میں کبھی کبھی اردو میں انٹرویو کیا کرتا تھا۔ اس پروگرام کے پروڈیوسر شان چندر شیکھر تھے۔ ان کا تعلق مدراس سے تھا چنانچہ وہ ہندی سے بالکل ناواقف تھے۔

سنہ 1985 میں، گرمیوں کے موسم میں، ایک دن چندر شیکھر کا فون آیا کہ آج اسٹوڈیو میں دلیپ کمار اور سائرہ بانو کو میں نے انٹرویو کے لئے بلایا ہے، تو تم بھی آ جاؤ اور دلیپ کمار سے اردو میں انٹرویو کر لو۔ میں نے دل میں سوچا دلیپ کمار تو بہت بڑے اداکار ہیں اور اپنے پاکستانی پس منظر کی وجہ سے ان کے بارے میں اس وقت تک میری معلومات بھی بہت واجبی سی تھیں۔ کیوں کہ 1965 کی جنگ کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان ہر قسم کے ثقافتی اور ادبی رابطے ختم ہو گئے تھے۔

اس لیے اس زمانے کی ہماری نوجوان نسل کو ہندستان کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں۔ اپنی کم علمی کی وجہ سے میرے دل میں ایک گھبراہٹ سی تھی۔ پہلے تو میں نے سوچا کہ انکار کردوں لیکن پھر ترکیب سوجھی کہ کیوں نہ اسٹوڈیو پہنچ کر انکار کروں، اس طرح اپنے دور کی ایک بہت بڑی شخصیت کو قریب سے دیکھنے کا موقع مل جائے گا۔ چنانچہ بغیر کسی تیاری کے آدھی آستین کی قمیض پہنے ہوئے انتہائی کیژول انداز میں اسٹوڈیو پہنچ گیا۔

چھٹی کا دن تھا، اسٹوڈیو میں چند ہی لوگ تھے۔ اتنے میں دلیپ کمار صاحب سائرہ بانو کے ہمراہ وہاں تشریف لائے۔ انٹرویو سے پہلے چائے کے دوران وہ چندر شیکھر سے باتیں کرتے رہے۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ دلیپ صاحب تو چندر شیکھر کے والد کرشنا سوامی سبرامنیم کے قریبی دوستوں میں سے تھے، جو 1930 کی دہائی میں تامل فلموں کے مشہور ڈائرکٹر تھے۔ شاید اسی خاندانی تعلق کی بنا پر چندر شیکھر انہیں دلیپ کمار یا یوسف خان کے بجائے دادا بھائی، دادا بھائی کہہ کر مخاطب کر رہے تھے۔

میں صرف ان کی باتیں سن رہا تھا اور ان میں اتنا محو ہو گیا کہ چندر شیکھر سے یہ کہنا ہی بھول گیا کہ میں دلیپ صاحب کے انٹرویو کے لیے ذہنی طور سے تیار نہیں ہوں۔ خیر سب سے پہلے چندر شیکھر نے سائرہ بانو اور دلیپ صاحب کا انگریزی میں خاصا طویل انٹرویو لیا۔ اس کے بعد سائرہ بانو سیٹ سے اٹھ گئیں اور دلیپ صاحب بھی اٹھنے لگے۔ پہلا انٹرویو ختم ہونے کے بعد کیمرہ مین نے سب سے پہلے سائرہ بانو صاحبہ کا مائک ہٹایا اور وہ فوراً سیٹ سے اٹھ گئیں۔

البتہ دلیپ صاحب منتظر رہے کہ ان کا مائک ہٹایا جائے۔ جب کیمرہ مین ان سے کہا کہ ابھی تو آپ کا ایک اور ون آن ون انٹرویو ہوگا تو دلیپ صاحب نے قدرے ناگواری سے کہا، نہیں نہیں، انٹر ویو ہو چکا اب اور کوئی انٹرویو نہیں ہوگا اور ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مائیک ہٹاؤ۔ اتنے میں چندر شیکھر نے اسٹوڈیو کے سیٹ پر آ کر کہا کہ ”دادا بھائی! اشفاق کو بھی اردو میں انٹرویو لینا ہے“ ۔ دلیپ صاحب کرسی سے تقریباً اٹھ چکے تھے مگر جیسے ہی انہوں نے اردو کا لفظ سنا تو دوبارہ بڑے اطمینان کے ساتھ کرسی پر بیٹھ گئے۔

اردو زبان سے یہ بے انتہا محبت میں نے ان تمام لوگوں میں دیکھی ہے جو پاکستانی علاقوں سے ہجرت کر کے بھارت چلے گئے تھے۔ بلکہ مشرقی پنجاب سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والوں کے ہاں بھی اردو سے والہانہ پن کی یہی کیفیت نظر آتی ہے۔ اس کیفیت کی نشانی بالی ووڈ کے اس زمانے کے ماحول میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اردو سے بے پناہ محبت کا ایک واقعہ مجھے علی سردار جعفری صاحب نے سنایا تھا۔ یہ بر صغیر کی تقسیم کا ابتدائی زمانہ تھا، بالی ووڈ میں دلیپ کمار، راج کپور اور دیگر محبان اردو کی سر پرستی میں دو تین مہینے کے بعد اردو شاعری کی محفل باقاعدگی سے سجائی جاتی تھی۔

بقول علی سردار جعفری، ایسی ہی ایک شعری نشست میں فراق گورکھ پوری صاحب مہمان خصوصی تھے۔ شاعری کی محفل سے پہلے شراب کا دور چل رہا تھا، زیادہ تر لوگ پنجابی زبان میں مزے مزے کی باتیں کر رہے تھے اور لطیفے سنا رہے تھے۔ ایسے میں فراق گورکھپوری صاحب بڑی خاموشی سے ایک کونے میں شراب سے شغل فر ما رہے تھے کہ دلیپ صاحب نے پوچھا ”فراق صاحب آپ کسی گہری سوچ میں غرق ہیں، کیا سوچ رہے ہیں؟ فراق صاحب نے لمبی سانس لیتے ہوئے کہا یہی غور کر رہا ہوں کہ آخر دوزخ کی سرکاری بھاشا کیا ہو سکتی ہے؟

سب لوگ بے ساختہ ہنستے ہوئے ان کا جواب سننے کے لیے متوجہ ہو گئے تو فراق صاحب نے اپنے ہم مشربوں کی طرف دیکھتے ہوئے آہستگی سے کہا، ارے یہی پنجابی زبان ہی ہو سکتی ہے۔ بھلا دوزخ کے علاوہ شرابیوں کی اور کون سی جگہ ہو سکتی ہے؟ کھلے ڈھلے اردو کے عاشق پنجابیوں نے ان کے نام کا ایک اور جام چھلکایا اور دیر تک ان کی شاعری پر سر دھنتے رہے۔ اردو زبان سے بے پناہ محبت کی یہی کیفیت میں نے دلیپ کمار صاحب کا انٹرویو لیتے ہوئے اس وقت محسوس کی تھی۔ ان کی جگہ اگر ان سے کم رتبے کی بھی کوئی مشہور فلمی شخصیت ہوتی تو وہ بھی اپنا ارادہ تبدیل نہیں کرتی۔ یہ تھی وہ تہذیبی شخصیت جس نے یوسف خان کو دلیپ کمار بنا دیا۔

انٹرویو کے لیے میں نے کوئی تیاری تو کی نہیں تھی، سو، ڈرتے ڈرتے ان کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ ان کو خوش آمدید کہتے میری زبان پر اختر الا ایمان کا ایک مصرع آ گیا کہ ”کون ستارے چھو سکتا ہے، راہ میں سانس اکھڑ جاتی ہے“ ان کے جواب سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ اس انٹرویو کو شعر و ادب سے متعلق سمجھ رہے ہیں۔ پھر تو گفتگو کا ایک طویل سلسلہ چل نکلا جو تقریباً 45 منٹ تک جاری رہا اور خاص بات یہ تھی اس گفتگو میں ان کی فلموں کی ایک بات بھی نہیں ہوئی جس کا اعتراف انہوں نے خود اپنے انٹرویو کے آخر میں شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا۔

یہ انٹرویو کینیڈا کے ایشین ٹیلی ویژن نیٹ ورک پر پورا نشر ہو چکا ہے۔ میں نے بھی وی سی آر پر اسے ٹیپ کر لیا تھا مگر چار پانچ سال بعد میری بیٹی نے نہ جانے کیسے اس ٹیپ میں بچوں کا پروگرام گھسا دیا۔ ٹیپ کے خراب ہو جانے پر مجھے بہت افسوس ہوا۔ آدھے سے زیادہ انٹرویو ضائع ہو چکا تھا اور میرے پاس اس کی دوسری کوئی کاپی نہیں تھی۔ پھر کئی برسوں بعد میرے بیٹے نے اس انٹرویو میں جو کچھ بچا تھا، اسے ایڈٹ کر کے یوٹیوب پر ڈال دیا جو آج بھی وہاں اس لنک پر موجود ہے۔

دلیپ کمار صاحب کے ساتھ اس روز دو تین گھنٹے کا ساتھ رہا جس میں انٹرویو کا وقت بھی شامل ہے۔ اس دوران میں نے محسوس کیا کہ فلم کے علاوہ شعر و ادب اور ثقافتی و سماجی رویوں پر بھی وہ گہری نظر رکھتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے اپنی شخصیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ کبھی کبھی مجھے ایسا لگتا ہے کہ لوگ جس دلیپ کمار سے مل رہے ہیں وہ کوئی اور ہے یا وہ میرا کوئی عکس ہے۔ پھر ایک شعر پڑھا:

ترا خیال ہے تیرا جمال ہے تو ہے
مجھے یہ تابش و دانش کہاں کہ میں کیا ہوں

انٹرویو کے دوران انہوں نے یہ پہلا شعر پڑھا اور اس کے فوراً بعد شخصیت اور اس کے عکس کی مزید وضاحت کے لیے اکبر الہ آبادی کا ذکر کیا کہ جب ان کے بیٹے لندن سے ایک میم صاحب کو بیاہ کر واپس ہندستان لوٹے تو اکبر کے گھر میں ایک انقلاب سا آ گیا۔ چنانچہ انہوں نے ایک شعر لکھا۔ ابھی دلیپ صاحب نے اتنا ہی کہا تھا کہ میں نے ذرا اپنی زیادہ ہوشیاری دکھانے کے لیے لقمہ دیا اور اکبر کا وہ مصرع پڑھا جو مجھے یاد تھا ”کیک کھا کھا کے سویوں کا مزہ بھول گئے“ تو انہوں نے نہایت شائستہ انداز میں مجھے ٹوکتے ہوئے کہا کہ نہیں یہ تو لندن میں ان کے قیام کے دنوں کی بات ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments