اسٹیفن ہاکنگ اور ”زمان و مکان کا دیوہیکل ڈھانچا“


ہم واجبی سا پڑھے ہوئے ہیں اور سائنس کو ہماری وہ محبوبہ سمجھیے جو کہ ہماری نیم خواندگی کے سبب نہ ہماری طرف مائل ہوئی اور نہ حاصل!

لیکن جب سے پڑھنا سیکھا ہے سائنس کو پڑھنے سمجھنے کی اپنی سی سعی ضرور کی ہے اور یہ کوشش ہنوز جاری ہے۔ بہت سے اردو خوانوں کی طرح عمران سیریز بھی پڑھی۔ ابن صفی صاحب کی کتابوں میں آٹے میں نمک جتنی سائنس اور نفسیات نے ہمارے علم اور ”فشار علمی“ میں قدرے اضافہ کیا۔ البتہ ان کے سیاسی نظریات اور اصول ہمیں چھو کر بھی نہیں گزرے، کہ محض ناول اور نصاب ہی نہیں پڑھتے رہے بلکہ ادب اور تاریخ بھی کم کم ہی سہی زیر مطالعہ رہتے ہیں۔

دیگر سائنسی و نیم سائنسی مطالعات کی مدد سے نظریہ اضافیت نہ سہی اتنی بات سمجھ میں آتی ہے کے سورج کی روشنی کو زمین تک پہنچنے میں کوئی آٹھ منٹ اور نو سیکنڈ لگتے ہیں اور ہمیں نظر آنے والا وجود سورج نہیں بلکہ اس کا 8 منٹ 9 سیکنڈ پہلے والا عکس ہوتا ہے۔ اور سینکڑوں ہزاروں نوری سال کے فاصلے پر واقع متعدد ستارے تو معدوم ہو چکے ہیں لیکن ہم تک ان کی روشنی یا عکس اب کہیں جا کر پہنچ سکا ہے۔ بقول غالب ”ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ!“

برتالت بریخت کی ڈرامے ”گلیلیو“ کا مرحوم جناب محمد ابراہیم جویو کا کیا ہوا سندھی ترجمہ پڑھا تو جہاں سائنسدانوں اور گلیلیو سے ہمدردی پیدا ہوئی وہیں کلیسا اور کلیسا داروں سے شکوہ بھی پیدا ہوا۔ مذہب سے اس لیے برگشتہ نہیں ہوئے کہ اسے بھی سائنس سے کچھ زیادہ نہیں سمجھ پائے۔ البتہ مذہب پر ایمان اور سائنس سے شغف کا باعث ہی ہے کہ ہمارے نہ صرف نظریات بلکہ عقائد بھی بڑے لچکدار ہیں۔ جن میں ہم دستیاب معلومات کے مطابق فوراً تبدیلی پیدا اور قبول کر لینے سے نہ گھبراتے ہیں نہ شرماتے ہیں۔

فلمی ستاروں سے کہیں پہلے ہم نے اصلی ستاروں میں دلچسپی لینی شروع کر دی تھی۔ تاروں بھرا آسمان آج بھی ہمارے لیے اتنی ہی کشش رکھتا ہے جتنی کہ بچپن میں۔ وسیع کھلے آسمان میں ٹمٹماتے تارے، دمکتا چاند، چاندنی میں کالے کالے یا برف سے گالے بادل، ہمیں آج بھی مبہوت سا کر دیتے ہیں۔ نانی مرحومہ جب ثریا اور پروین کے جھرمٹوں کی نشاندہی کرتی تھیں تو ان کو تو نہیں پہچان پائے لیکن پہلی بار جب برج عقرب کا مشاہدہ کیا تو مبہوت ہی رہ گئے او ر مزید حیرت یہ جان کر ہوئی اس قسم کے گیارہ دیگر بروج بھی ہیں۔

”بنات النعش“ وغیرہ کے بارے میں بہت بعد میں معلوم ہوا لیکن چونکہ ثریا اور پروین سے ہی نہیں بنی تو ان کو کیسے شناخت کرتے؟ ہاں اب فلمی ستاروں کے حوالے سے جس کے بارے میں جو چاہے پوچھ لیں رینوکا دیوی ہو یا دیویکا رانی یا پھر ڈشا پٹھانی (آپ ”رن پٹھانی ریلوے اسٹیشن“ کے نام کو درست کر دیں ہم بھی ڈشا پٹھانی کو صحیح کردیں گے ) ۔ ہم کسی بھی فلمی ستارے کے بارے میں بھی بتا دیں گے۔ بس تھوڑا سا گوگل کرنے کی مہلت چاہیں گے!

البتہ نہ فلمی ستاروں کی زلف کی زنجیر کے اسیر ہوئے اور نہ ہی فلمی ستاروں پر کمند ڈالنے کی کوشش کی۔

اور آخرکار وہ زمانہ بھی آیا کہ سٹیفن ہاکنگ اور بلیک ہول سے واقف ہوئے۔ سٹیفن ہاکنگ کی تحریروں کی وساطت سے معلوم ہوا کہ بلیک ہول کیا ہی ہولناک چیز ہیں۔ اور یہ ہولناک حقیقت بھی معلوم ہوئی کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ ہمارا دمکتا اور دہکتا یہ سورج بھی اندھیارے بلیک ہول میں تبدیل ہو جائے گا! یہاں برسبیل تذکرہ ہم بتا دیں کہ ہم کبھی کبھی آنجہانی سٹیفن ہاکنگ صاحب کو محبت سے ”اسٹک ان واکنگ“ بھی لکھ پکارا کرتے تھے۔ کہ وہ اپنی ویل چیئر پر ساکن ہوتے ہوئی بھی متحرک تھے۔

بی بی سی کی ایک تازہ اشاعت کے مطابق سٹیفن ہاکنگ نے اپنی پہلی کتاب ”زمان و مکان کا دیوہیکل ڈھانچا“ بیٹی کی فیس اور مالی مسائل کے باعث لکھی۔ بلال کریم مغل، بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد کے ایک مضمون کے مطابق، یہ کتاب لکھنے کے پیچھے ان کا ایک مقصد یہ تھا کہ ”انہیں اپنی بیٹی کے سکول کی فیس ادا کرنی تھی، مگر ان کا بنیادی مقصد یہ بتانا تھا کہ کائنات کے بارے میں انسانی علم میں کتنا اضافہ ہو چکا ہے۔“

کتاب کا آغاز زمین اور کائنات میں اس کے مقام کے متعلق زمانہ قدیم کے یونانی نظریات سے ہوتا ہے جس کے بعد یہ جدید طبیعیات میں البرٹ آئن سٹائن کے عمومی نظریہ اضافیت پر آتی ہے اور پھر کوانٹم مکینکس پر۔

آئن سٹائن کا عمومی نظریہ اضافیت اور کوانٹم مکینکس (جس پر متعدد سائنسدانوں نے کام کیا ہے ) ، وہ دو نظریات ہیں جو کائنات کی ایک مکمل تصویر فراہم کرتے ہیں۔ مگر یہ دونوں نظریات ایک دوسرے سے ہم آہنگ نہیں ہیں اور انھیں ہم آہنگ کر کے ایک ہی سائنسی نظریے میں سمونے کی کوششیں جاری ہیں۔ ایسے کسی بھی متوقع نظریے کو تھیوری آف ایوری تھنگ کہا جاتا ہے اور سٹیفن ہاکنگ نے اس کتاب میں جہاں اس معاملے پر سیر حاصل بحث کی ہے وہیں اس کتاب کے آخری پیراگراف میں اس کے متعلق ان کا تبصرہ بے حد مشہور ہوا اور اس نے عوام میں اس موضوع کے متعلق بے انتہا دلچسپی جگائی۔

انھوں نے کتاب کے آخری پیراگراف میں لکھا کہ اگر کوئی ایسا مکمل نظریہ ہم دریافت کر لیں تو یہ انسانی عقل و منطق کی سب سے بڑی کامیابی ہوگی کیونکہ پھر ہم خدا کے ذہن کو سمجھ جائیں گے۔

خود سٹیفن ہاکنگ نے بعد میں کہا تھا کہ اگر یہ پیراگراف نکال دیا جاتا تو شاید اس کتاب کی فروخت نصف رہ جاتی۔

اگرچہ بی بی سی کی اشاعت میں ہاکنگ صاحب کی مذکورہ کتاب کے حوالے سے خدا کے ذہن کو سمجھنے کی بات کی گئی ہے لیکن سٹیفن ہاکنگ اپنی اکثر تحریروں کے مطابق خدا کے قائل نہیں تھے۔ انہوں نے ایک نئے سیارے کی دریافت کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہمارے نظام شمسی کے خاص کلیہ اور خدا کے وجود کے بارے میں سوال اٹھایا تھا۔ 1992 ع میں ایک ایسا سیارہ دریافت کیا گیا جو کہ کسی دوسرے سورج کی گرد گردش کر رہا تھا۔ ہاکنگ نے اس سیارے کی مثال دے کر کہا کہ، ”یہ دریافت بتاتی ہے کہ ہمارے شمسی نظام میں فلکیاتی اتفاق، سورج، زمین اور سورج کی بیچ مناسب فاصلہ اور شمسی کمیت، ثبوت کے طور ایسی وضاحت کے لیے ناکافی ہیں کہ زمین کو اتنی مہارت سے محض انسانی کو خوش کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔“

جب کہ انہوں نے کائنات کے تخلیق کے لیے کشش ثقل کو ذمہ دار قرار دیا۔

ہاکنگ کہتے ہیں : ”کشش ثقل ہی وہ اصول ہے جس کی وجہ سے کائنات اپنے آپ کو ایک بار صفر سے پھر شروع کر سکتی ہے۔ یہ اچانک ہونے والے فلکیاتی واقعات ہی ہمارے وجود کے ذمہ دار ہیں۔ ایسے میں کائنات کو چلانے لے لیے خدا کی ضرورت نہیں ہے۔“

ہاکنگ کے اس بیان پر مسیحی قائدین نے سخت تنقید کی۔

عام طور پر سائنسدانوں کو خد کا منکر سمجھا جاتا ہے لیکن ڈاکٹر عبدالسلام خدا کے وجود کے قائل تھے۔ یہاں تک کہ ڈارون بھی خود ملحد کے بجائے لا ادری کہلانا پسند کرتے تھے۔

ڈی ڈبلیو کی ایک رپورٹ کے مطابق: 2018 ء میں نیویارک میں ہونے والی ایک نیلامی میں آئن سٹائن کا ایک خط 29 لاکھ ڈالر میں نیلام ہوا، جس میں انہوں نے جرمن فلسفی ایرک گٹ کائنڈ کو خدا کے وجود پر ہونے والی بحث پر رائے دی تھی۔ وہ لکھتے ہیں، ”لفظ خدا میرے لیے انسانی کمزوری کے اظہار کے سوا کچھ نہیں اور بائبل محض اساطیر کا مجموعہ ہے۔“ آئن سٹائن کسی شخصی یا مادی وجود رکھنے والے خدا پر یقین نہیں رکھتے تھے، جو انسانوں کی تقدیروں اور اعمال کا حساب کتاب کرتا رہتا ہے۔ مگر مذہب کے معاملے میں آئن سٹائن کے خیالات زندگی بھر بدلتے رہے۔

بائبل تو خیر الہامی کتاب ہے اور راقم الحروف اس پر ایک مسلم کی حیثیت میں مشروط ایمان رکھتا ہے، اور ہماری مجال نہیں کہ اسے تحریفات کے باوجود اساطیر کا مجموعہ قرار دیں لیکن الف لیلہ ولیلہ یقیناً افسانوں اور اساطیر ہی کا مجموعہ ہے لیکن یہ اور بات ہے کہ اس قسم کے افسانے اور اساطیر ہی شاید ٹیلیوژن اور طیارے سے لے کر کئی ایجادات کا اشاریہ و محرک بھی ہیں۔

اسی رپورٹ کے مطابق سٹیفن ہاکنگ بھی خدا کے مادی وجود کے قائل نہ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کائنات کا نظام آفاقی عالمگیر قوانین کے تحت چل رہا ہے جنہیں تبدیل کرنا ممکن نہیں۔ معروف پاکستانی صحافی عدنان مسعود نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہر ریاضیات ڈاکٹر جان لینکس کی کتاب ’خدا اور اسٹیفن ہاکنگ‘ کے ایک حصے کو اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں کہ ہاکنگ کی کتاب گرینڈ ڈیزائن کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس میں انہوں نے کائنات کے ”تخلیق الہی“ کے نظریے کو چیلنج کیا ہے، مگر ان کے خیال میں ہاکنگ یہ کہتے ہیں کہ کائنات کی تخلیق طبیعات کے قوانین کے مطابق ہوئی یعنی ”ایک خود رو تخلیق اس بات کی دلیل ہے کہ کچھ بھی نہ ہونے سے پہلے کچھ تھا۔“

ہم نہیں سمجھتے کہ اگر کوئی انسان خدا کے وجود پر یقین نہیں رکھتا تو کسی دوسرے انسان کو اس سے کوئی ذاتی پرخاش رکھنی چاہیے۔ البتہ کسی بھی انسان کا کوئی بھی نظریہ یا عقیدہ انسانی معاشرے کے لیے گناہ سے بڑھ کر جرم کا سبب بن جائے تو پھر اس کی تبدیلی کے لیے ابلاغ اور دلیل یا پھر قانون کو حرکت میں آنا چاہیے نہ کہ ”لاقانونیت“ کو!

کوئی اپنے تجربات اور مشاہدات کے مطابق ایک خیال یا نظریہ پیش کرے تو ہونا تو یہ چاہیے کہ جواب میں بھی تجربات اور مشاہدات کے حوالے سے یا پھر اپنی دینی یا دینیاتی معلومات کے حوالے کچھ بتایا جائے نہ کہ تنقید اور طنز کے تیر چلائے جائیں۔ یا اس پر مستزاد کے اس طرح کا استفسار کرنے والے کی جان کے ہی لالے پڑ جائیں۔

اسلامی تاریخ کے مطالعے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ مسلمان خدا کے وجود سمیت ہر چیز اور موضوع پر سوال و جواب کے قائل تھے۔ ایک دہریے اور عالم کے اس مناظرے کو یاد کیجیے کہ جس میں عالم دہریہ کو پتھر مار کر درد کے ذریعہ خدا کے وجود کے سلسلے میں لاجواب یا قائل کر دیتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ موجودہ دور میں آپ کسی سوچنے والے یا متشکک اور متذبذب ذہن کو اس دلیل سے بھی قائل تو کیا لاجواب بھی نہیں کر سکتے کہ اس کا اگلا سوال یہ ہوگا کہ، ”درد تو ایک عارضی احساس ہے تو نعوذ باللہ خدا بھی ایک عارضی احساس ہے؟“ ہم سمجھتے مباحث اور مذاکرات کا دروازہ کسی طور بھی بند نہیں ہونا چاہیے۔

اسلامی تاریخ میں ہم کتنے مباحث، مناظروں کا مشاہدہ کر سکتے ہیں اور قرآن میں تو حضور ﷺ کی طرف مسیحیوں کو بوجوہ مباہلہ کی بھی دعوت دی گئی۔ تو آج کیوں کچھ اسلامی معاشروں میں خدا کے وجود پر سوال کی اجازت نہیں؟

اور پھر حد تو یہ ہے کہ موجودہ دور میں بہت سے لوگوں نے سائنس کو بھی اصول، نظریہ یا قانون کے بجائے عقیدے کے طور اختیار کیا ہوا ہے۔ ہم اس وقت بے حد حیران ہوئے جب اپنے ایک سائنس کے بارے ایک لیکچر میں معروف سائنسدان نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی سائنس کے بارے میں کچھ غلط کہتا تو وہ بات سیدھے میرے دل کو لگتی ہے۔ اس کا سبب شاید یہی ہو سکتا ہے کہ انہوں نے بھی سائنس کو عقیدے کے طور پر اختیار کیا ہوا ہے ورنہ ایک سمجھ دار سائنسی ذہن کو کسی بھی بچگانہ بات کو دل پر لینے کی ضرورت نہیں۔

سٹیفن ہاکنگ جتنا علم ہمیں نہیں۔ سورج کو چراغ کیا چنگاری دکھانے سے بھی کم۔ لیکن ہمیں اندازہ ہے کہ انسان ابھی تک اس کائنات کا جس کے بارے میں خدا نے فرمایا کہ، ”اے انسان تمہاری تخلیق مشکل ہے یا کائنات کی،“ بہت ہی کم حصے کا مشاہدہ کر سکا ہے۔

اور خاص طور پر اس صورت میں جب کہ نہ صرف سائنس کے مطابق کائنات وسیع تر ہوتی جا رہی ہے بلکہ خدا کا بھی فرمان ہے کہ، ”ہم نے کائنات کو تخلیق کیا اور اس کو وسعت دیے جا رہے ہیں۔“

ایک اور آیت میں آیا ہے کہ:
”اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان اور اسی کے مثل سات زمینیں تخلیق کی ہیں۔“

سو ہم نہیں سمجھتے کہ ہاکنگ صاحب کو یا ہمیں ”پوری کائنات“ کے ”مشاہدے سے قبل“ خدا کے وجود اور عقیدے کے بارے میں محض اپنی رائے یا نظریہ فتویٰ یا فیصلہ کے طور پر صادر فرما دینا چاہیے۔ البتہ کسی کی بھی رائے یا نظریہ کو عزت دینی چاہیے اور آرا یا نظریات کو یا پیش کرنے والے کو گردن زدنی قرار نہ دیتے ہوئے مذاکرات اور مباحث کا موضوع بنانے میں کوئی حرج نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments