گورنر، ونڈو ٹائپ اے سی اور گیزر


\"naseerہماری زندگیوں میں بعض واقعات، مشاہدات اور تجربات اتنے دلچسپ ہوتے ہیں کہ اگر ہم ان کا بہت گہرا تجزیہ نہ بھی کریں، تو بھی وہ ہماری یادداشتوں کے کسی نہ کسی گوشے میں محفوظ رہتے ہیں، کہیں نہ کہیں کلبلاتے رہتے ہیں۔ ضیاالحق دور کا ایسا ہی ایک واقعہ مجھے اب تک یاد ہے۔ اَسی (80) کی دہائی اور میری پیشہ ورانہ زندگی کے ابتدائی سال تھے۔ اس زمانے میں اسلام آباد میں تعمیراتی سرگرمیاں زوروں پر تھیں۔ شاہ فیصل مسجد، پارلیمنٹ ہاوس، ایوانِ صدر، ہوٹل ہالیڈے ان، این ڈبلیو ایف پی ہاوس، بلوچستان ہاوس، آزاد کشمیر ہاوس، ایچ بی ایف سی کی کثیر منزلہ عمارت اور دیگر کئی بڑی عمارتیں زیرِ تعمیر تھیں۔ میں این ڈبلیو ایف پی موجودہ خیبر پختون خوا ہاوس میں تعمیراتی کمپنی کی طرف سے سائٹ انجینئر تھا۔ کام تقریباً مکمل ہو چکا تھا اور ہم عمارت پختون خوا کے محکمہ تعمیرات عامہ کے حوالے کر چکے تھے۔ تاہم منصوبے کے حتمی حسابات اور چھوٹے موٹے مرمت کے کاموں کے لیے ہمارا سائٹ آفس ابھی وہیں تھا۔ آئے روز وزرا اور اعلیٰ سرکاری عہدےدار اپنے اپنے لیے مخصوص رہائشی بلاکس دیکھنے آتے رہتے تھے۔ سب کو جلدی تھی تا کہ نو تعمیر شدہ گیسٹ ہاوس کی آسائشوں سے لطف اندوز ہو سکیں۔

ایک روز اطلاع ملی کہ صوبائی گورنر، جو فوج کے ایک لیفٹیننٹ جنرل تھے، معائنہ کے لیے آ رہے ہیں۔ ان کا نام اس لیے نہیں لکھا کہ مبادا کسی کی دل آزاری ہو۔ کیونکہ بظاہر یہ واقعہ فکاہت سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا لیکن سوچا جائے تو اس کے اندر قومی زیاں اور عبرت کا ساماں بھی فراواں ہے۔ گورنر کی آمد سے ایک روز قبل ایک کیپٹن، جو شاید ان کے اے ڈی سی تھے، آ گئے تا کہ ساری تیاریوں کی خود نگرانی کر سکیں۔ میں صبح اپنے سائٹ آفس پہنچا جو گورنر بلاک کے عین سامنے تھا تو دیکھا کہ کپتان صاحب لان میں کچہری لگائے ٹانگ پہ ٹانگ جمائے بیٹھے ہیں اور ان کے سامنے صوبے کے چیف انجینئر ہاتھ باندھے کھڑے ہیں اور کچھ فاصلے پر ایس ای اور ایکسیئن دست بستہ حاضر ہیں۔ مجھے بہت عجیب لگا۔ چیف انجینئر صوبائی محکمہ تعمیرات کا اعلیٰ ترین عہدے دار اور شاید بائیسویں گریڈ کا افسر ہوتا ہے۔ کیپٹن سے کہیں زیادہ تعلیم یافتہ اور عمر میں ان کے والد جتنا۔ لیکن وہاں عہدے، تعلیم، گریڈ اور عمر کی نہیں طاقت اور اختیار کی بات تھی۔ خیر میں اپنے امور میں مصروف ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد ایکسیئن میرے دفتر آئے اور گھاس کاٹنے کی مشین طلب کی۔ لان کے ایک حصے کی گھاس بڑھی ہوئی تھی اور کیپٹن نے اسے ہموار کرنے کا حکم دیا تھا۔ میں نے کہا کہ لینڈ اسکیپنگ کا سارا کام گورنر صاحب کے حکم پر ہم سے لے کر صوبے کے محکمہ جنگلات کو دے دیا گیا تھا۔ ہمارے پاس تو مشین نہیں۔ آپ اپنے جنگلات کے آدمی سے رجوع فرمائیں۔ جنگلات والوں کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے ایک کور ذوق سا اوورسیئر بھیج کر مٹی کو اِدھر ادھر کر کے، پتلی پتلی گھاس اور چند سستے سے درخت لگا دیے تھے اور باقی سارا بجٹ خود ہڑپ کر گئے۔ اب ان کا اوورسیئر دانستہ موقع سے غائب تھا۔ تھوڑی دیر بعد ایکسیئن پھر آ گئے اورکچھ مزدور طلب کیے۔ مزدور تو نہیں تھے لیکن مجھے دوبارہ انکار اچھا نہ لگا اور میں نے دفتر کے جو دوچار ملازمین تھے ان کے ساتھ بھیج دیے۔ اس کے بعد کا منظر ناقابل یقین تھا۔ ایکسیئن نے ان کے ہاتھوں میں کنکریٹ کے بلاک دے کر انھیں گھاس کوٹنے پر لگایا ہوا تھا تا کہ ان کے تئیں وہ ہموار ہو جائے۔ میرا ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا۔ ملازمین بھی منہ چھپا کر مسکرا رہے تھے۔ رشوت، کمیشن، بددیانتی اور افسرانہ خوشامد نے ان افسروں کو نااہل اور چوہا بنا دیا تھا۔ ان میں اتنی عقل بھی نہیں رہی تھی کہ مشین نہ سہی ایک درانتی ہی منگوا لیتے۔ گھاس کو دبا دبا کر میرے بندے تھک گئے۔ تھوڑی دیر بعد دیکھا تو گھاس پھر آہستہ آہستہ سر اٹھا رہی تھی۔

اگلے دن گورنر صاحب تشریف لے آئے۔ وہ پہلے بھی ایک دو بار آ چکے تھے۔ ان کی شخصیت میں اجنبیت نہیں تھی بلکہ ایک خاص عسکری نوعیت کی شگفتگی اور خوش مزاجی تھی۔ آتے ہی سیدھا اپنے یعنی گورنر بلاک کی طرف گئے۔ ابھی گرمی زیادہ نہیں ہوئی تھی لیکن احتیاطاً ایئر کنڈیشنگ پلانٹ چالو کر دیا گیا تھا۔ گھومتے گھامتے گورنر صاحب اپنے بیڈ روم میں آئے اور اِدھر ا±دھر دیکھ کر پوچھا کہ ونڈو ٹائپ اے سی یونٹ کہاں ہے؟ اس غیر متوقع سوال پر سب گھبرا گئے۔ ایس ای نے ہکلاتے ہوئے کہا سر وہ تو نہیں لگایا گیا۔ گورنر نے حکم دیا کہ ونڈو یونٹ لگوایا جائے۔ سب بیک زبان بولے یس سر۔ میں ہَک دَک رہ گیا۔ میرا اگرچہ اس معاملے سے براہ راست تعلق نہں تھا اور میں وہاں موجود سب لوگوں سے تجربے میں کم اور نوجوان تھا لیکن میری فنی تربیت، تخلیقی اپج اور فکری آزادی نے مجھے اس پیشے کے ابتدائی چند برسوں ہی میں بااعتماد اور جرات مند بنا دیا تھا جس کی بنیاد پر آگے چل کر میں نے بڑے بڑے عالمی اداروں میں اور ہائی ٹیک منصوبوں پر کام کیا۔ میں نے ہمت کی اور بتایا کہ سر پوری عمارت سینٹرلی ایئر کنڈیشنڈ ہے، کروڑوں کا پلانٹ لگایا گیا ہے۔ کہنے لگے کولنگ کم ہے۔ میں نے عرض کیا کہ ہر کمرے میں تھرموسٹیٹ موجود ہے جس سے مرضی کا درجہ حرارت رکھا جا سکتا ہے۔ ابھی تھرموسٹیٹ ایڈجسٹ کر دیتے ہیں، چند منٹوں میں کمرہ یخ ٹھنڈا ہو جائے گا۔ گورنر صاحب نے غیر یقینی مگر گہری نظروں سے مجھے دیکھا۔ اچھے آدمی تھے میرے سخن گسترانہ پر خفا ہونے کے بجائے مسکرائے اور کہا کہ وہ زیادہ ٹھنڈ میں سونے کے عادی ہیں جو ونڈو ٹائپ یونٹ ہی سے ہو سکتی ہے۔ میں نے کہا لیکن سر…. اس لیکن پر سب نے مجھے گھور کر دیکھا۔ گورنر صاحب سگار پیتے تھے، وہ بھی ایک لمحے کے لیے ٹھٹکے اور اضطراری کیفیت میں سگار سلگانا چاہا پھر ارادہ بدل دیا اور پاس کھڑے اپنے صوبے کے ایک منظورِ نظر ٹھیکیدار کی طرف دیکھا جس نے فوراً سگریٹ کا پیکٹ اور لائٹر آگے کر دیا۔ سب نے اپنی اپنی ڈائریوں میں ونڈو ٹائپ اے سی نوٹ کر لیا۔ پھر گورنر صاحب واش روم دیکھنے لگے اور پوچھا اس کا گیزر کہاں لگا ہوا ہے۔ ایک بار پھر سب خاموش۔ پھر میں نے ہی ہمت کی اور بتایا کہ تمام عمارتیں گرم پانی کے ایک مرکزی نطام اور بہت بڑے بوائلر سے منسلک ہیں اس لیے گیزر کی ضرورت نہیں۔ بولے میرے واش روم کا الگ سے گیزر لگوا دیں مجھے خوب گرم پانی چاہیئے۔ میرا جی چاہا کہ آگے بڑھ کر گرم پانی کی ٹونٹی کھولوں اور کہوں کہ جناب ذرا ہاتھ تو لگا کر دیکھیں۔ لیکن میرا یہ فعل آدابِ حاکمیت و عسکریت کے خلاف ہوتا اس لیے چپ رہا۔ حسب معمول سب نے کہا یس سر اور گیزر بھی نوٹ کر لیا۔ مجھے مزید وہاں ٹھہرنا بیکار اور سارا ماحول غیر پیشہ ورانہ، عجیب احمقانہ سا، گھٹن آمیز خوشامد زدہ لگا، میں خاموشی سے باہر آ گیا۔
گورنر صاحب کے جانے کے بعد صوبائی افسران نے مجھے ونڈو ٹائپ اے سی اور گیزر لگوانے کا کہا۔ میں نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ ہمارا کام تو مکمل ہو چکا ہے، عمارت آپ کے حوالے کی جا چکی ہے، اب آپ خود اپنے کسی محکمانہ ٹھیکیدار سے یہ کام کروا لیجیے۔ اگلے روز جب میں سائٹ پر پہنچا تو دیکھا کہ ایک بنی بنائی، سجی سجائی، مکمل آراستہ اور کروڑوں روپوں کی لاگت کے کولنگ اور ہیٹنگ سسٹم سے منسلک عمارت کی دیواریں، ٹائلیں اور پائپس توڑ کر گورنر کے بیڈ روم میں ونڈو ٹائپ اے سی یونٹ اور باتھ روم کے باہر گیزر/ واٹر ہیٹر لگایا جا رہا تھا۔ قارئین مجھے جب بھی یہ واقعہ یاد آتا ہے تو بے اختیار مسکرانے لگتا ہوں۔ میں آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکا کہ اسے ایک فرد کی ذاتی نفسیات سے تعبیر کیا جائے یا پوری فوجی حاکمہ اور نوکر شاہی کے نفسیاتی ساختے کا مسئلہ سمجھا جائے۔ اس کا تعلق بہر حال عسکری اور افسر شاہی مزاج اور نظامِ کار سے ہے اور یہ فکاہی مگر حقیقی واقعہ دراصل ایک قومی المیہ ہے جس کی وجہ سے ہمارے سر چھوٹے رہ جاتے ہیں اور ہم فکر و اظہار سے محروم کر دیے جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments