سی پیک میں اہم ترین کردار ادا کرنے والا گوادر شہر بجلی کی مسلسل فراہمی سے محروم کیوں ہے؟


بلوچستان میں گوادر کی جنت مارکیٹ میں عبدالغفار بلوچ کی چھوٹی سی دکان ہے جو پیشے سے درزی ہیں۔

تین بچوں کے والد عبدالغفار اس قدر مناسب پیسے کما لیتے ہیں کہ ان کا گزر بسر ہو جاتا ہے۔ تاہم بجلی کا معطل ہونا ان کے کام کو بری طرح متاثر کرتا ہے اور وہ اکثر اپنے گاہکوں کو وقت پر کپڑے تیار کر کے نہیں دے پاتے۔

عبدالغفار کا کہنا ہے کہ شدید گرمی کے موسم میں بجلی کی عدم فراہمی کے باعث کام کرنا تو کجا، دکان پر کھڑے رہنا بھی محال ہوجاتا ہے اور یوں وہ اپنے گاہکوں کو اکثر وقت پر کپڑے تیار کرکے دینے کے قابل نہیں ہوتے۔

گوادر شہر میں بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ نے یہاں کی ایک لاکھ کے قریب آبادی کے لیے زندگی مشکل بنا دی ہے۔ خاص طور پر ہر سال مارچ سے لے کر نومبر تک کے نو ماہ میں جب یہاں بعض اوقات درجہ حرارت 48 ڈگری تک بھی جا پہنچتا ہے، شدید گرمی میں بغیر بجلی کے روز مرہ کے امور مشکل ہو جاتے ہیں۔

بحیرہ عرب کے ساحل پر واقع شہر، جسے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبے میں مرکزی اہمیت حاصل ہے، کا سب سے بڑا کاروبار مچھلیوں کے شکار اور فروخت سے منسلک ہے۔

مچھلی کے شکار اور پھر اس کی پراسیسنگ کرنے والی 36 صنعتیں کام کر رہی ہیں جو پراسیسنگ کے بعد مچھلیاں اور دیگر سی فوڈز کو بیرون ملک بھیجتی ہیں۔

بجلی کی فراہمی میں تعطل کی وجہ سے صرف عام افراد ہی پریشان نہیں بلکہ بڑے تاجر بھی پریشان ہیں۔

گوادر چیمبر آف کامرس کے صدر میر نوید بلوچ کا کہنا ہے کہ گوادر میں بجلی کی عدم فراہمی یہاں کے تین بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس شہر میں 65 ایکڑ پر محیط گوادر فری زون تو بن چکا ہے لیکن یہاں صنعت کار آنے کو تیار نہیں اور جب بجلی اور پانی ہی دستیاب نہیں تو لوگ کیسے سرمایہ کاری کریں گے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ ایسے میں گوادر میں تجارتی سرگرمیاں کیسے آگے بڑھ سکتی ہیں؟

گوادر میں بجلی کا بحران کیوں ہے؟

گوادر کو بجلی سپلائی کرنے کے ذمہ دار ادارے ‘کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کارپوریشن’ کے ایک افسر نے وائس آف امریکہ کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ گوادر ہی نہیں بلکہ مکران ڈویژن میں بجلی کے مسئلے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ یہ علاقہ اب تک قومی گرڈ سے منسلک نہیں ہوا ۔

افسر کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کے حل کے لیے 19 سال قبل 2002 میں ایران اور پاکستان نے 34 میگاواٹ بجلی کی درآمد سے متعلق معاہدے پر دستخط کیے تھے جسے بعد میں بڑھا کر 74 میگاواٹ کر دیا گیا تھا اور اب یہ معاہدہ 104 میگاواٹ تک جا پہنچا ہے۔

افسر کا مزید کہنا تھا کہ 2018 میں ایران کی جانب سے بتایا گیا کہ چابہار کے علاقے میں 220 کے وی ٹرانسمیشن لائن زیرِ تعمیر ہے جو مکمل ہونے سے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں گوادر شہر کو بجلی کی برآمد 300 میگاواٹ تک بڑھائی جاسکے گی۔ اس وقت ایران سے پاکستان کو 134 کے وی ٹرانسمیشن لائن کے ذریعے 104 میگاواٹ بجلی لی جاتی ہے جو ایران کے شہر سیستان، بلوچستان سے پاکستان کے علاقے مند تک پہنچائی جاتی ہے۔

ایران اس سے قبل پاکستان کو تین ہزار میگاواٹ بجلی فراہم کرنے کے لیے بھی اپنی تیاری ظاہر کرچکا ہے۔ تاہم پاکستان کی جانب سے اب تک اپنے حصے پر ابھی کام جاری ہے اور فی الحال ایران سے مزید ایک ہزار میگاواٹ بجلی کی درآمد کے لیے نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کی جانب سے 75 کلومیٹر طویل 220 کلو واٹ ٹرانسمیشن لائن بچھائی جا رہی ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ اس وقت مکران ڈویژن کی بجلی کی کھپت 200 میگاواٹ کے قریب ہے لیکن اسے بمشکل 140 میگاواٹ کے قریب عام دنوں میں فراہم کی جاتی ہے۔ جن میں سے ایران سے سپلائی ملنے کے علاوہ مقامی طور پر باقی بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔

دوسری جانب ایران کی جانب سے ان دنوں بجلی کی فراہمی میں کمی آئی ہے اور بعض اوقات یہ سپلائی محض آٹھ میگاواٹ تک آ جاتی ہے جس کی وجہ سے گوادر ہی نہیں بلکہ پنجگور اور ضلع کیچ میں بھی بجلی کی فراہمی طلب سے انتہائی کم فراہم کی جا رہی ہے۔

اس وجہ سے ان اضلاع میں یومیہ 12 سے 14 گھنٹے اور بعض اوقات اس سے بھی زیادہ کی لوڈ شیڈنگ عام سی بات ہے۔ کیوں کہ مکران بھر میں بجلی کی طلب 250 میگاواٹ یومیہ ہے۔

ماضی میں ایران کی جانب سے یہ بھی شکایت سامنے آئی ہے کہ واپڈا حکام کی جانب سے ایرانی بجلی کی کمپنی کو ادائیگی میں تاخیر کی جاتی رہی ہے۔

ایران پر عالمی پابندیوں کی وجہ سے پاکستانی حکام بینک اکاؤنٹ میں پیسے منتقل کرنے کے بجائے بارٹر سسٹم کے تحت چاول اور دیگر اجناس فراہم کرتا ہے۔ جب کہ اس حوالے سے پاکستان اور ایران کے درمیان بجلی کا معاہدہ بھی دسمبر 2021 میں ختم ہو رہا ہے جس کی تجدید کی بھی ضرورت ہے۔

گوادر میں پاور پلانٹ اب تک کیوں نہیں لگ سکا؟

دوسری جانب چین کے تعاون سے گوادر میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر کی تعمیر کا منصوبہ اب تک مکمل نہیں ہوسکا۔ جو 300 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس سے آنے والے دنوں میں نہ صرف گوادر بلکہ پورے ڈویژن کی بجلی کے مسائل حل ہوں۔

اس بارے میں پہلے زمین کے مسائل تھے۔ وہ حل ہوئے تو ٹیرف کے مسائل کی وجہ سے پاور پلانٹ کی تعمیر رکی ہوئی تھی۔

میر نوید بلوچ کے مطابق ٹیرف کا مسئلہ بھی حل ہو چکا ہے لیکن اب معاملہ واپڈا کی جانب سے حتمی اجازت پر اٹکا ہوا ہے اور ابھی تک نظر نہیں آرہا کہ اگلے دو تین برس میں یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔

سی پیک کی سرکاری دستیاب معلومات کے مطابق 542 ملین ڈالر کے اس منصوبے کو چین کی چائنا کمیونیکیشن کنسٹرکشن کمپنی نے مکمل کرنا ہے جس کے لیے 2017 میں لیٹر آف انٹینٹ جاری کیا جا چکا ہے۔

سن 2019 میں ٹیرف اور فروری 2020 میں اس مقصد کے لیے زمین بھی فراہم کی جاچکی ہے جب کہ 8 اپریل 2021 کو منصوبے کی تعمیر کے لیے دستخط ہو چکے ہیں۔ اس وقت منصوبے کی فنانشل کلوزنگ جاری ہے جس کے بعد اس کی تعمیر کا عمل شروع ہوگا۔

اس کے علاوہ شمسی توانائی سے 45 میگاواٹ کے الگ منصوبے کی بھی منظور دی جاچکی ہے جس پر جرمن کمپنی نے کام کرنا ہے تاہم ابھی اس بارے میں ٹیرف کے معاملات حل نہیں ہوئے ہیں۔

تاہم حکومت کے مطابق پاکستان میں بجلی کھپت سے زیادہ پیدا ہوتی ہے اس لیے نئے بجلی گھروں کی تعمیر کی اجازت دینے میں حکومت ہچکچاہٹ کا بھی مظاہرہ کر رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے ساحلی شہر گڈانی میں 6 ہزار 600 میگاواٹ کے کوئلے کے بجلی کے منصوبوں کو بھی اب ترک کردیا گیا ہے۔

سال 2019 میں ایکنک نے گوادر کو نیشنل گرڈ سے منسلک کرنے کی منظوری تو دے دی ہے لیکن ابھی اس پر عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔

گوادر پورٹ کو بجلی کہاں سے ملتی ہے؟

گوادر پورٹ حکام کے مطابق بندرگاہ مکمل طور پر فعال ہے اور اس کے لیے اس وقت 8 میگاواٹ بجلی درکار ہوتی ہے جو ڈیزل کے ذریعے پیدا کی جارہی ہے۔

گوادر پورٹ اتھارٹی کے ترجمان کے مطابق اس وقت اس سے ضرورت تو پوری کی جارہی ہے اورمستقبل میں یقینی طور پر بجلی کی کھپت بڑھنے سے بجلی کی طلب میں اضافہ ہوگا۔

دوسری جانب آنے والے دنوں میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ گوادر فری اکنامک زون کو 240 میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہوگی۔ بجلی کی اس بنیادی ضرورت کو پورا کیے بغیر یہاں صنعتی یا معاشی زون قائم ہونے میں ابھی لمبا سفر باقی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جنت بازار کے عبدالغفار بلوچ کو بجلی کی فراہمی تک سی پیک کا جھومر کہلانے والے گوادر میں ترقی سنہرے خواب کی طرح لگتی ہے۔ جس کی حقیقت ابھی کافی دور دکھائی دیتی ہے اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments