افغان حکومت اور طالبان میں دوحہ میں ایک بار پھر مذاکرات کا آغاز


طالبان سے مذاکرات کے لیے افغان وفد میں متعدد اعلیٰ حکومتی شخصیات سمیت سابق افغان صدر حامد کرزئی اور افغانستان کی اعلیٰ مصالحتی کونسل کے۔ چیئرمین عبداللہ عبداللہ بھی شامل ہیں جو جمعے کی شام دوحہ پہنچے تھے۔

افغان حکومت کے نمائندوں اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہفتے سے مذاکرات شروع ہو گئے ہیں۔

دوحہ میں ہونے والے یہ مذاکرات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں کہ جب افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے انخلا کے دوران پر تشدد کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کافی عرصے سے قطر کے دارالحکومت میں جاری رہے ہیں تاہم طالبان کے افغانستان کے متعدد علاقوں پر قبضے کیے جانے کے بعد ان مذاکرات میں پیش رفت کم ہوتی گئی ہے۔

وائس آف امریکہ کی افغان سروس کے مطابق افغان حکومتی وفد کی سربراہ عبداللہ عبداللہ اور طالبان وفد کی قیادت کرنے والے ملا عبدالغنی بردار کے درمیان ہفتے کی صبح دوحہ میں ملاقات ہوئی۔ ملاقات میں افغان قومی مفاہمتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ افغان تنازع کا کوئی فوجی حل موجود نہیں ہے۔

عبداللہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ تمام کوششوں کا مقصد افغانستان میں جاری جنگ کا خاتمہ، تنازعے کا سیاسی حل اور افغان عوام کے مستقبل کے لیے مشترکہ لائحہ عمل کی تشکیل ہونا چاہیے۔

دوسری طرف طالبان کے نائب سربراہ عبدالغنی بردار کا شرکا سے کہنا تھا کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات میں پیش رفت نہ ہونے کے باوجود ایک امید ابھی باقی ہے اور وہ ان مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔

ملا عبدالغنی برادر کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کی سالمیت کے لیے ایک مرکزی اور آزاد اسلامی نظام کی ضرورت ہے اور اس کے حصول کے لیے ذاتی مقاصد کو نظر انداز کرنا چاہیے۔

افغان فریقین کے درمیان ہم آہنگی سے متعلق ملا عبد الغنی بردار کا کہنا تھا کہ افغانستان تمام افغانیوں کے لیے مشترکہ گھر ہے اور اگر انہیں مشترکہ مقاصد حاصل کرنا ہیں تو انہیں تفصیلات کو نظر انداز کرنا ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اعتماد کی کمی کو ختم کرنا چاہیے اور قوم کے اتحاد کے لیے کوششیں کرنی چاہیے۔

طالبان اور افغان حکام کے درمیان ملاقات ہفتے کی صبح دوحہ کے مقامی وقت 10 بجے شروع ہوئی۔

دوسری طرف امریکہ کے افغانستان کے لیے خصوصی مشیر زلمے خلیل زاد پُر امید ہیں کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان عید الاضحٰی کے موقع پر جنگ بندی ہو گی۔

طالبان سے مذاکرات کے لیے افغان وفد میں متعدد اعلیٰ حکومتی شخصیات سمیت سابق افغان صدر حامد کرزئی اور افغانستان کی اعلیٰ مصالحتی کونسل کے چیئرمین عبداللہ عبداللہ بھی شامل ہیں جو جمعے کی شام دوحہ پہنچے تھے۔

دوحہ میں افغان مذاکراتی وفد کی ترجمان ناجیہ انوری کا کہنا ہے کہ اعلیٰ سطح کا وفد طالبان سے اہم بات چیت کے لیے دوحہ میں موجود ہے۔ تاکہ مذاکرات کے ذریعے آگے بڑھا جا سکے۔

ناجیہ انوری کا مزید کہنا تھا کہ وہ پر امید ہیں کہ فریقین مذاکرات میں تیزی لائیں گے تا کہ فریقین ایک نتیجے پر پہنچ سکیں اور افغانستان میں دیر پا امن قائم ہو سکے۔

دوسری جانب طالبان نے افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے انخلا کے آخری مرحلے میں فائدہ اٹھاتے ہوئے پورے ملک کے کئی علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔

افغانستان کی جنوبی سرحد اسپن بولدک پر رواں ہفتے جمعے کو گزرگاہ کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کے لیے افغان فورسز اور طالبان کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔

افغانستان میں حالات مخدوش؛ ’40ہزار خاندان نقل مکانی پر مجبور ہوئے‘

افغان فورسز نے ملک کے شمال میں بھی کئی مقامات پر اپنی پوزیشن مستحکم بنا لی ہے جہاں طالبان کے مضبوط گڑھ پر کئی روز سے جنگ جاری تھی۔

گزشتہ 20 برس سے جنگ میں مبتلا افغانستان کی جنوبی سرحد پر ہونے والی جھڑپیں ملک بھر میں جاری پر تشدد کارروائیوں کا حصہ ہیں جہاں طالبان درجنوں اضلاع میں آگے بڑھ رہے ہیں۔

پاکستان اور افغان حکومت کے درمیان کشیدگی میں اضافہ

جہاں ایک طرف طالبان اور افغان فورسز کے درمیان جاری کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں دوسری طرف کابل اور اسلام آباد کے درمیان لفظوں کی جنگ میں اس وقت تیزی آئی جب افغان نائب صدر امر اللہ صالح نے الزام لگایا کہ پاکستان، طالبان کو مخصوص علاقوں میں فضائی مدد فراہم کر رہا ہے۔ تاہم پاکستان نے اس الزام کی تردید کی تھی۔

نائب صدر امر اللہ صالح نے سوشل میڈیا پر بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان ایئر فورس نے افغان فضائیہ کو خبردار کیا ہے کہ اگر طالبان کو سرحدی گزرگاہ اسپن بولدک سے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی تو اس کا ردِ عمل آئے گا۔

انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان کی فضائیہ بعض علاقوں میں طالبان کی حمایت بھی کر رہی ہے۔

افغان نائب صدر کے الزامات پر جمعے کو پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان اور افغان ایئر فورس کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ افغان نائب صدر کے اس طرح کے بیانات سے افغانستان میں امن کے لیے پاکستان کی سنجیدہ کوششوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔

بیان کے مطابق افغانستان نے پاکستان کو چمن سیکٹر سے متصل اپنی حدود میں فضائی کارروائی کرنے سے متعلق آگاہ کیا تھا جس کا پاکستان نے مثبت جواب دیا ہے۔

دفترِ خارجہ کے بیان کے مطابق افغان حکومت کو اپنی سرزمین کے دفاع کا حق حاصل ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان کی چمن سرحد سے متصل افغان علاقے اسپن بولدک میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان جھڑپوں کا آغاز بدھ سے ہوا تھا۔

طالبان نے اسپن بولدک میں افغان پرچم کی جگہ اپنا جھنڈا لہراتے ہوئے علاقے پر قبضے کا دعویٰ کیا تھا۔ البتہ افغان حکومت نے جمعرات کو اس قبضے کو چھڑانے کا دعویٰ کیا۔

افغان نائب صدر کی جانب سے پاکستان پر طالبان کی مدد کرنے کے الزامات ایسے موقع پر سامنے آئے تھے جب افغانستان میں قیامِ امن کے لیے اسلام آباد میں سرکردہ افغان رہنماؤں کی کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا تھا۔ تاہم اس کانفرنس کو عید الاضحی کے بعد تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔

رپورٹس کے مطابق پاکستان میں ہونے والی کانفرنس ملتوی ہونے سے دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔

اس خبر میں مواد فرانسیسی خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ سے لیا گیا ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments