طالبان سے رومانس ختم کرنے کا وقت آ گیا ہے


پاکستان ایک بار پھر ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں اندازے کی غلطی اور فیصلہ کرنے میں تساہل ملک کے مستقبل قریب پر سنگین اثر ات مرتب کر سکتا ہے۔ افغان طالبان کے ساتھ پاکستان کے پرانے رومانس کو ترک کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ یہ فیصلہ کرنے میں تاخیر کی گئی تو پاکستان کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔

یہ تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ پاکستان نے کئی دہائی تک طالبان میں شامل عناصر سے مراسم استوار کیے ہیں اور پاکستانی اسٹبلشمنٹ کو یہ امید بھی ہوگی کہ اب ان تعلقات سے استفادہ کا وقت آ گیا ہے۔ سرکاری طور سے پاکستان اعلان کرتا ہے کہ افغانستان میں وہ کسی دھڑے کی حمایت نہیں کرتا لیکن پاکستان میں ماہرین کے تبصرے ہوں، اسٹبلشمنٹ کے اشارے ہوں یا تاشقند کانفرنس میں وزیر اعظم عمران خان کی تقریر، طالبان کی طرف پاکستان کے جھکاؤ کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اگر یہ جھکاؤ پاکستان سے وابستہ اور اس کے مفادات کو عزیز رکھنے والے لوگ محسوس کر سکتے ہیں تو پاکستان مخالف عناصر کو بھی یہ وابستگی و تعلق دکھائی دیتا ہے۔ اسی لئے کبھی افغان نائب صدر امراللہ صالح پاک فضائیہ پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ سپین بولدک میں طالبان کی اعانت کر رہی ہے اور کبھی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں صدر اشرف غنی یہ الزام لگاتے ہیں کہ دس ہزار جنگجو طالبان کی مدد کے لئے پاکستان سے افغانستان بھیجے گئے ہیں۔

الزامات کے اس ماحول میں افغانستان کی موجودہ حکومت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی قابل فہم ہے۔ اس کے باوجود پاکستان کا دعویٰ ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر افغانستان میں امن قائم کروانے کا خواہاں ہے۔ اسی مقصد سے پاکستان نے 17 جولائی سے اسلام آباد میں حکومت سمیت تمام افغان لیڈروں کو بات چیت کے لئے مدعو کیا تھا۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بتایا تھا کہ اس کانفرنس میں طالبان کو مدعو نہیں کیا گیا۔ اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان طالبان کی طرف سے افغان حکومت اور لیڈروں کے سامنے کوئی ایسی تجاویز پیش کر کے افغان قیادت کو اس پر متفق کروانا چاہتا تھا جن پر طالبان سے پہلے ہی معاملات طے کیے جا چکے ہیں۔ یا دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان درحقیقت طالبان کی طرف سے کچھ ایسی شرائط افغان قیادت سے منوانے کے لئے یہ کانفرنس منعقد کر رہا تھا جن کی بنیاد پر افغانستان میں پر امن انتقال اقتدار ممکن ہو سکے۔ تاہم اس معاملہ کی باٹم لائن یہی ہے کہ افغانستان کی حکومت طالبان کے حوالے کی جائے۔ جیسا کہ وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ روز تاشقند کانفرنس میں اشرف غنی کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے لکھی ہوئی تقریر سے ہٹ کر کہا کہ اب طالبان افغانستان فتح کرنے کی پوزیشن میں ہیں تو وہ پاکستان کی بات کیوں مانیں گے۔

مسئلہ صرف یہ ہے کہ افغانستان اور طالبان کے حوالے سے پاکستان کی باتیں عام طور سے قابل قبول نہیں ہیں کیوں کہ ان میں نمایاں تضاد محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ایک طرف پاکستان طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے اور مفاہمت پر راضی کرنے کا کریڈٹ لینا چاہتا ہے لیکن دوسری طرف یہ اعلان کرتا ہے کہ اب طالبان پر اس کا اثر و رسوخ ختم ہو چکا ہے۔ ایک طرف پاکستان کا سرکاری موقف ہے کہ پاکستان افغانستان کے کسی دھڑے کی حمایت نہیں کرتا۔ گزشتہ روز تاشقند میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے کہا تھا کہ ’پاکستان افغانستان میں کسی دھڑے کی حمایت نہیں کر رہا اور چاہتا ہے کہ فریقین ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کر کے مسئلے کا حل نکالیں‘ ۔ لیکن پاکستان کے سرکاری نمائندے افغان حکومت کے خلاف اور طالبان کی حمایت میں بیان بازی سے بھی گریز نہیں کرتے۔

پاکستان کو امید ہے کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان آسانی سے کابل پر قبضہ کر لیں گے۔ ان کے خلاف مزاحمت نہ ہونے کے برابر ہوگی۔ ایک بار کابل پر طالبان کا قبضہ ہو گیا تو عسکری گروہوں کو کسی نہ کسی طرح مطمئن کر لیا جائے گا۔ شمالی علاقوں پر طالبان کی فتوحات کو ایک مثبت علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جس سے پاکستان کو لگتا ہے کہ طالبان کو نوے کی دہائی جیسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ افغانستان کی سرکاری فوج کے بارے میں بھی یہی اندازہ قائم کیا گیا ہے کہ یہ آسانی سے تتر بتر ہو جائے گی اور اس کے بیشتر حصے بڑی حد تک طالبان کے ساتھ مفاہمت کے ذریعے ان کا حصہ بننے پر آمادہ ہوجائیں گے۔ شمالی علاقوں میں بعض افغان آرمی کے دستوں کے بھاگنے یا ہتھیار ڈالنے سے اس قیاس کے لئے دلیل لائی جا رہی ہے۔ اس صورت میں پاکستان بجا طور سے یہ محسوس کرتا ہے کہ ایک ایسے موقع پر جب طالبان فتح کے قریب ہیں، ان کا ساتھ چھوڑ کر پاکستان کو اپنے لئے مشکل پیدا نہیں کرنی چاہیے۔ اگر معاملات انہی قیاسات کی بنیاد پر طے پاتے ہیں تو پاکستانی حکمت عملی قابل فہم ہے۔ تاکہ کابل میں ایک ایسی حکومت قائم ہو جو پاکستان کو اپنا دوست سمجھتی ہو اور جس کے دور میں بھارت کا افغانستان میں اثر و رسوخ ختم ہو جائے۔ لیکن سفارت کاری اور جنگ میں سب اندازے درست ثابت نہیں ہوتے، اسی لئے متبادل منصوبہ موجود رہنا چاہیے۔

پاکستان کا خیال ہے کہ افغان طالبان نے بیس سالہ جنگ اور سفارت کاری کے متعدد مراحل کے بعد اب بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔ اس بار ان کی حکومت ملا عمر کی حکومت سے مختلف ہوگی۔ طالبان بنیادی شہری حقوق کو یقینی بنائیں گے اور خواتین کے بارے میں بھی سابقہ سخت گیر رویہ اختیار نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح پاکستان کو شاید یہ امید بھی ہے کہ طالبان اس بار مخالف دھڑوں جن میں افغان آرمی کے عناصر سر فہرست ہیں، کے ساتھ مفاہمانہ رشتہ استوار کریں گے۔ وفاداری کے عوض ان عناصر کو نہ صرف یہ کہ معافی دے دی جائے گی بلکہ بعض دھڑوں کی اپنے علاقوں میں خود مختاری کو بھی قبول کر لیا جائے گا۔ اس نظریہ کے مطابق باقی افغان باشندوں کی طرح طالبان بھی جنگ سے تنگ آچکے ہیں اور وہ بھی افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں۔ تاہم طالبان نے امریکہ کے ساتھ معاہدہ میں جو کامیابی حاصل کی ہے، اشرف غنی کی حکومت اس کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ بھارت نوازی کی وجہ سے موجودہ افغان حکومت پاکستان مخالف رویہ اختیار کرتی ہے اور طالبان کی جنگی یا سفارتی کامیابی کو پاکستانی سازش سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسی کو موجودہ تنازعہ کی بنیاد بھی قرار دیا جا رہا ہے۔

ان خوش گمانیوں کے باوجود پاکستان افغانستان میں خانہ جنگی یا حالات خراب ہونے کی پیش گوئی بھی کرتا ہے۔ اگر طالبان کی کامیابی اور ان کے طریقہ حکومت و سفارت کے بارے میں پاکستانی حکومت پر امید ہے تو وہ مسلسل پریشانی کا اظہار کیوں کر رہی ہے۔ یا حالات کو ازخود حتمی انجام تک پہنچنے کا انتظار کرنے کی بجائے پاکستان کی طرف سے مسلسل سرگرمی اور عجلت کا مظاہرہ کیوں کیا جاتا ہے۔ اس سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حالات کے بارے میں کیسی ہی خوشنما تصویر بنا لی جائے لیکن عملی طور سے معاملات ایک فطری رخ اختیار کرتے ہیں۔ طالبان کے ساتھ مراسم کے باوجود یہ بات بھی طے ہے کہ نہ تو اب طالبان میں ملا عمر جیسی کوئی شخصیت موجود ہے اور نہ ہی طالبان کے سب دھڑے پاکستان سے قربت رکھتے ہیں۔ پشتون علاقوں میں نوجوانوں کی تحریک پی ٹی ایم کے ساتھ پاکستانی حکومت کے تعلقات کی روشنی میں بھی ان اندیشوں کا قیاس کیا جاسکتا ہے جو افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کی صورت میں پاکستان کو پیش آسکتے ہیں۔

درحقیقت پاکستان اس وقت ویسے ہی دوراہے پر کھڑا ہے جو اسے نائن الیون کے بعد 2001 میں درپیش تھا۔ اس وقت پرویز مشرف کی حکومت نے پوری تندہی سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ موجودہ حکومت اور اسٹبلشمنٹ اس فیصلہ کو غلط قرار دیتے ہوئے پاکستان کی موجود مشکلوں کی وجہ اسی فیصلے کو قرار دیتی ہے۔ عمران خان بڑی گرمجوشی سے اس غلط فیصلہ کی وجہ سے 70 ہزار پاکستانیوں کی ہلاکت اور 150 ارب ڈالر معاشی نقصان کا ذکر کرتے ہیں۔ تاہم افغانستان کے حوالے سے پاکستان کو ایک بار پھر ایک اہم فیصلہ کرنا ہے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت اگر ان توقعات پر پوری نہ اتری جن کی امید پاکستان کر رہا ہے تو طالبان کی حمایت جاری رکھنے کے فیصلہ سے پاکستان کو امریکہ، مغربی طاقتوں اور عالمی اداروں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

پاکستان اس دوراہے پر اگر واقعی ’غیر جانبدار‘ اور افغانستان کی داخلی سیاسی و عسکری کشمکش سے لاتعلق رہنا چاہتا ہے تو اسے اس کا عملی مظاہرہ بھی کرنا ہوگا۔ اس مقصد کے لئے طالبان سے پچیس تیس سال پرانا رومانس ختم کرنا ہوگا۔ پرانے رومانس ترک کرنا آسان نہیں ہوتا لیکن ملکوں کی تقدیر گروہوں سے رومانس کی بجائے حقیقت پسندانہ فیصلوں سے تبدیل کی جاتی ہے۔ طالبان سے تعلق کی وجہ سے پاکستان نے اب تک فائدے سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔ اب اس گمان سے نکلنے کا وقت ہے کہ یہ تعلقات بار آور ہونے والے ہیں۔ طالبان سے رومانس ختم کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے ساتھ دشمنی کا تعلق استوار کر لیا جائے بلکہ طالبان سے تعلقات کو نارمل سطح پر لانے کا وقت آ گیا ہے۔ تاکہ افغانستان تنازعہ کے باقی فریقوں کو بھی یقین دلایا جاسکے کہ پاکستان ان کے مفادات کا دشمن نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments