خان کے سبز باغ سے اسد عمر برآمد!


کہتے ہیں جب کسی  ”ماہتڑ ساتھی“ کو ٹرک نے ٹکر ماری تو وہ باقاعدہ غل گپاڑوی انداز میں روتا جائے، روتا جائے۔ ایسے میں کسی دوست نے پوچھا  ”یار تو مر تو نہیں گیا۔ صبر کر۔ نہ اتنا رو“ رونے والے نے جواب دیا۔ ستم یہ نہیں کہ وہ ٹکر مار کر چلا گیا، افسوس یہ ہے کہ اس کے پیچھے لکھا ہوا تھا  ”دوست پھر ملیں گے“ ۔

اجی خیال تھا غالب کے ایک شعر سے کالم کا دریچہ کھولوں گا مگر  ”مقدمہ“ تو ایک عملی لطیفہ بن بیٹھا۔ بہرحال غالب کو بھی پڑھ لیجیے :

دیکھا اسدؔ کو خلوت و جلوت میں بارہا

دیوانہ گر نہیں ہے تو ہشیار بھی نہیں

اسد جو بھی ہو، قسمت کی دیوی کو اس عشرے میں جس پر فدا دیکھا وہ قبلہ اسد عمر اور ان کا خاندان ہے۔ جو بھی ہے، ماشاء اللہ، دونوں بھائی سیاسی افق کےدرخشندہ ستارے ہیں۔ ایک کا سیاسی آسمان تحریک انصاف اور دوسرے کا بسیرا نون لیگی افق پر۔ گویا زبیر عمر کا بھی اعلیٰ درجہ ہے۔ یہ درست ہے کہ پرویز خٹک کا ستارہ بھی بلند ہے اور ان کے خاندان سے صوبائی اسمبلی سے ایوان بالا و ایوان زیریں میں کم و بیش نصف درجن لوگ ہیں اور پچھلے دور میں وہ وزیراعلیٰ کے پی بھی تھے۔ پھر بھی فرق یہ ہے کہ زبیر عمر اور اسد عمر دونوں برابر معروف ہیں اور پرویز خٹک کے رشتہ داروں سے فقط خواص واقف ہوں، تو ہوں عوام نہیں۔ اسد عمر و زبیر عمر چونکہ دو مختلف بڑی پارٹیوں سے ہیں اور دونوں ہر صورت میں  ”ان“ ہیں۔ دونوں بھائی معاشیات پر عمدہ گفتگو فرما لیتے ہیں اور  ”زمانہ“ دونوں کو ماہر اقتصادیات اور ماہر سیاسیات ماننے پر مجبور ہے۔ آخر کیوں؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک چھت تلے دونوں کی سیاست نہا دھو کر تیار ہوتی اور پروان چڑھتی ہے مگر زاویہ 180 کا ہے۔

سب کچھ بھول جانے کو جی چاہتا ہے اور من اس ڈگر پر ہے کہ آنے والے وقت پر نظر رکھی جائے اور ماضی کی بھول بھلیوں کو فراموش کیا جائے مگر اسد عمر کی وہ تقریر اور وہ کریڈیبلٹی نہیں بھولتی جب وہ نواز حکومت کے خلاف اسمبلی فلور پر کھڑے ہو کر کہتے کہ پٹرول 65 روپے فی لیٹر بیچا جا سکتا ہے مگر نواز حکومت زیادتی کررہی ہے۔ ان کی یہ باتیں سن کر ملنگ بھی کہتا کہ ابھی دما دم مست قلندر کیا جائے اور جو نواز حکومت پرسوں جانی ہے، وہ ابھی اور اسی وقت چلتی بنے۔ اس وقت اسد عمر احسن اقبال اور گورنر زبیر عمر سے بہت بڑا ارسطو لگتا مگر جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تو انہوں نے ناکام اسد عمر کو پیچھے کر کے نہیں لیا تو نون لیگ کا اسحاق ڈار نہیں لیا، ورنہ پیپلز پارٹی کے دونوں وزرائے خزانہ اور مشیروں کو خزانہ کا قلم دان تھمایا کہ سب ہرا ہی ہرا ہوگا اور واقعی مجھے ساون کے اندھے کو، ہرا ہی ہرا سوجھا۔

دل اس وقت خون کے آنسو روتا ہے جب افغانستان و بنگلا دیش اور بھارت کی اکانومی کو پاکستان سے بہتر پاتا ہے۔ جہاں نواز حکومت یہاں افراط زر چھوڑ کر گئی آج بھارت کا وہ افراط زر ہے۔ 2018 تا 2020 بھارت کا افراط زر بالترتیب 3.4، 4.7 اور 6.2 فیصد ہے۔ بنگلادیش کا انہی برسوں میں 5.7، 5.4 اور 5.6 ہے جبکہ افغانستان کا 0.63، 2.3 اور 5.6 فیصد ہے۔ جان کی امان پائیں تو یہ ہمارے اڑوس پڑوس کا افراط زر ہے اور ہمارا انہی برسوں کا 3.9، 6.7، 10.7 فیصد ہے گویا ہم نے ڈبل ڈجٹ کا  ”اعزاز و اعجاز“ چکھ لیا۔ کمپنی کی مشہوری کے لئے گلوبل ویلیج کے ذرا دور پار کے رشتہ داروں کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔ 2018، 2019 اور 2020 میں کینیڈا کا بالترتیب 2.2، 1.9، اور 0.7 فیصد، فرانس کا افراط زر 2.1، 1.3 اور 0.5 فیصد رہا۔ اسی طرح انہی برسوں میں امریکی افراط زر 1.9، 2.3، 1.4 فیصد رہا۔ ایک حیران کن بات قارئین کی نذر کہ 2021 میں اس وقت کم و بیش 5.4 فیصد جا رہا ہے، وجہ یہ کہ جوبائیڈن نے ٹرمپ سے بھی کہیں زیادہ کورونا وبا کے سبب بے روزگاروں کے اکاؤنٹس میں براہ راست کیش ٹرانسفر کرایا۔

اسد عمر اینڈ کمپنی نے آدھا سچ بولا، آدھا سچ بولنا پاکستانی سیاست کی روایت ہے اور فیشن بھی جو آدھے سے زیادہ سچ کی روایت رکھتے ہیں ان کا مہنگائی کا نقشہ سامنے ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زرداری و نواز پر اور کتنا ملبہ ڈالا جاسکتا ہے؟ نون لیگ پیپلز پارٹی سے 7.36 فیصد تحریک انصاف کے لئے 3.9 فیصد افراط زر (مہنگائی) چھوڑ کر گئی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کو مشرف باقیات سے ڈبل ڈجٹ 12 فیصد ملی 2009 میں 19.5 تک معاملہ بگڑا مگر سات اعشاریہ تین تک بہرحال کم کر کے نون لیگ کو سونپا۔ پیپلز پارٹی کے پورے دور میں عالمی منڈی میں کوکنگ آئل اور خام آئل کی قیمتیں تاریخی اعتبار سے بہت اونچی تھیں اور ڈالر بہت مہنگا۔ دوسرے عشرے سے آئل کی قیمتیں گرنی شروع ہوئیں۔

عید سے قبل ہم نے پٹرول پانچ روپے چالیس پیسے بڑھایا۔ غریبوں کی ایل پی جی اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں بھی ہوش ربا اضافہ یہ کہہ کر کیا کہ عالمی منڈی میں قیمتیں بڑھی ہیں۔ ایسا نہیں ہوا بلکہ 2 ڈالر فی بیرل ہی سہی مگر پٹرول کی قیمت کم ہوئی ہے۔ شکوہ ان قیمتوں کے بڑھنے کا نہیں خوف اس چیز کا ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف سے قرض لینے کی پاداش میں واپسی کے لئے باور یہ کرایا ہے کہ پٹرول، ایل پی جی اور مٹی کے تیل کی قیمتیں بڑھائیں گے اور بالخصوص پٹرول فی لیٹر کو فی ایک ڈالر تک لے کر لائیں گے۔ اور آج ڈالر تقریباً ایک سو ساٹھ روپے کا۔ ماہتڑ آج کی قیمت کی ٹکر پر نہیں رو رہا۔ رو اس پر رہا ہے کہ فی لیٹر پٹرول 160 روپے تک جائے گا۔ ایل پی جی فی کلوگرام تو ڈالر سے آگے نکلنے کے درپے ہے۔

رونا اور اس درد کی بازگشت تو یہ ہے کہ حکومتی ٹرک پیچھے کندہ ہے کہ  ”دوست پھر ملیں گے“ ۔ کل ملا کر حساب یہ نکلا ہے جناب خان اور اسد عمر جو کہتے تھے آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے وہی پاک اثاثوں کو گروی بھی رکھ رہے ہیں، اور اس کے سامنے سر تسلیم خم بھی۔ ٹرک کی پہلی ٹکر تو سہہ لی مگر  ”دوست پھر ملیں گے“ کے خدشہ اور خان اعظم کے سبز باغ کے مالی اسد عمر کا کیا کریں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments