داسو حادثہ: چینی کمپنی نے پاکستانی ملازمین کو نوکری پر دوبارہ بحال کر دیا

حمیرا کنول - بی بی سی اردو ڈاٹ کام آسلام آباد


چینی کمپنی غضوبہ نے داسو بم دھماکے کے بعد اپنے پاکستانی ملازمین کو نوکری سے فارغ کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے۔

داسو میں ہونے والے دھماکے سے فقط 500 میٹر دوری پر موجود چینی کمپنی کے برسین کیمپ کے زنگ آلود گیٹ پر اب ایک نیا نوٹس چسپاں کر دیا گیا ہے۔

ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کا کام معطل کرنے اور ملازمین کو فارغ کرنے کا اطلاع نامہ اتار کر یہ نوٹس لگایا گیا ہے کہ مجاز اتھارٹی نے اس حوالے سے جاری پہلے فیصلے کی منظوری نہیں دی اور اسے کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔

یعنی اب تمام پاکستانی جن کی تعداد 1900 کے قریب بتائی جاتی ہے داسو میں ہاییڈرو پاور پراجیکٹ میں ملازمت پر بحال ہو چکے ہیں۔

کمپنی کی جانب سے اس پیغام کو پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا اور واٹس ایپ گروپس کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے تاکہ عید سے پہلے کیمپ سے چلے جانے والے ملازمین تک بھی یہ خبر پہنچ جائے کہ وہ نوکری جاری رکھ سکیں گے تاہم یہ کام کب تک بحال ہو گا ابھی اس حوالے سے کچھ بھی نہیں بتایا گیا۔

ایک اندازے کے مطابق ملازمین کے حوالے سے کمپنی کے ابتدائی فیصلے کے لاگو ہونے سے 1900 خاندان متاثر ہوتے اور منصوبے کا کام بند ہونے سے ملک کو یومیہ 50 کروڑ روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔

دوسری جانب چینی حکام داسو دھماکے کی تحقیقات اور پاکستانی حکام سے بریفنگز لینے میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں۔ سنیچر کو بھی 13 افراد پر مشتمل چینی حکام کا وفد پاکستان پہنچا ہے۔

پہلے نوٹیفکیشن میں کیا لکھا تھا؟

چینی کمپنی نے اپنے پراجیکٹ کی سائٹ پر جاری کام تو 14 جولائی کی صبح ساڑھے سات بجے داسو میں پیش آنے والے دھماکے کے بعد روک دیا تھا تاہم کمپنی نے باضابطہ طور پر کام معطل کرنے کا اعلان تیسرے روز ایک تحریری نوٹس کی صورت میں کیا۔

ایک اعلیٰ عہدے دار نے بی بی سی کو بتایا کہ پہلا نوٹیفکیشن دو بار تیار کیا گیا ابتدائی نوٹس میں فارغ کیے جانے والے پاکستانی ملازمین کو گریجویٹی دینے کا ذکر نہیں تھا لیکن دن دو بجے تیار ہونے والے اس نوٹیفکیشن میں ترمیم کی گئی اور سوا پانچ بجے گیٹ پر دوسرا نوٹس چسپاں کر دیا گیا۔

اس گیٹ کے ساتھ موجود دیوار پر دو ہاتھوں بنائے گئے ہیں جن پر پاکستان اور چین کے جھنڈے پینٹ ہیں اور لکھا ہے پاک چائنا سدا بہار دوستی لیکن اس واقعے نے صورتحال کو گھمبھیر کر دیا ہے۔

دور دراز علاقوں سے آنے والے بہت سے مزدور دھماکے کے بعد کام بند ہونے پر گھر چلے گئے لیکن وہ تو اس بات سے بھی بے خبر تھے کہ ان کی نوکری ہی ختم ہونے والی ہے۔

ملازمت کا کنٹریکٹ معطل ہونے کے بعد ایک مزدور نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں اسی تنخواہ پر ہی آس تھی اور انھوں نے اپنی متوقع تنخواہ کے حساب سے دو تنخواہوں میں ادائیگی پر قربانی کا جانور خریدا تھا ’اب نہیں معلوم وہ پیسے کہاں سے لا کر قرض چکائیں گے۔‘

کمپنی نے اپنے پہلے نوٹیفکیشن میں لکھا کہ ’اس دھماکے نے ہماری منیجمنٹ کو داسو پروجیکٹ کا کام معطل کرنے پر مجبور کیا۔‘

بتایا گیا کہ ’داسو مینجمنٹ نے افسوس کے ساتھ فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان کے صنعتی اور تجارتی آرڈیننس کی تعمیل کرتے ہوئے تمام پاکستانی اہلکاروں کے ساتھ ملازمت کا معاہدہ ختم کر دے تاہم سائٹ کی دیکھ بھال کے لیے کچھ ضروری سٹاف کو رکھا جائے گا۔‘

کمپنی نے بتایا کہ ’تمام ملازمین کو اس ماہ یعنی جولائی کی نصف تنخواہ ملے گی۔‘

بی بی سی نے غصوبہ کمپنی کی جانب سے لیے جانے والے اس فیصلے کی تصدیق کے لیے کمپنی حکام اور متعلقہ پاکستانی اداروں سے رابطہ کیا سب نے تصدیق کی تاہم آن ریکارڈ معلومات دینے اور تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔

واپڈا حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ یہ عارضی اقدام ہے جیسے ہی سکیورٹی کا معاملہ طے ہو گا کام پھر سے شروع ہو جائے گا لیکن ملازمین جو نوکری کھو چکے ہیں وہ تب تک کیا کریں گے اس کا جواب ادارے سمیت کسی کے پاس نہیں تھا۔

30 گھنٹوں میں دوفیصلوں کی وجہ کیا؟

چینی کمپنی سے منسلک عہدے دار، انتظامیہ اور مقامی لوگ کہتے ہیں کہ آج علاقے میں چین سے اعلیٰ عہدے دار آئے تھے یہاں پچھلے تین دن سے اہم پاکسستانی اور چینی وفود آ رہے ہیں اور میٹنگز ہو رہی ہیں۔

متعلقہ اہلکاروں میں سے ہر ایک نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ فیصلے اعلیٰ سطح پر بات چیت کے پیش نظر بدلے گئے ہیں۔

گذشتہ روز بھی پاکستانی فوجی حکام نے چینی حکام کو واقعے کی تفصیلات بتائیں۔

یہ بھی پڑھیے

’بارودی مواد کے شواہد ملے ہیں، دہشت گردی کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا‘

چینی انجینیئرز کی بس میں دھماکہ یا حادثہ: عینی شاہدین کیا بتاتے ہیں؟

گلگت بلتستان میں انتہائی مطلوب شدت پسند کمانڈر کی ساتھیوں سمیت ’کھلی کچہری‘ کی ویڈیو

کمپنی سے منسلک ایک عہدے دار نے بتایا کہ یقیناً یہ فیصلہ لینے کی وجہ دھماکہ اور اس کے بعد پیدا ہونے والا سکیورٹی سے متعلق خوف اور خدشات تو ہیں لیکن ان کی نظر میں ایک اور وجہ پاکستانی حکام کے غیر سنجیدہ بیانات بھی بنے۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ بیانات چینی کمپنی میں اشتعال کا سبب بنے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ واقعہ بس میں تکنیکی خرابی کی وجہ سے ہوا، حالانکہ حادثے کی نوعیت، زخمیوں اور مرنے والوں کی حالت واضح اشارہ کر رہی تھی کہ یہ ممکنہ طور پر دھماکہ ہی ہے۔

’ہم نے اس کی آواز سنی اور زخمیوں کی حالت دیکھی وہ عام حادثے کے زخم نہیں تھے۔‘

پاکستانی حکام کی جانب سے چینی سفیر اور ملٹری اتاثشی کو جمعے کو دی جانے والی بریفنگ میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ واقعے کو دہشت گرد حملہ لکھا گیا ہے۔

اس بریفنگ میں چینی حکام کو بتایا گیا ہے کہ بارودی مواد لوکل سطح پر تیار ہوا جس میں بال بیرینگ استعمال نہیں ہوئے۔

سکیورٹی کی یقین دہائی اور اقدامات

علاقے کے مکین بتاتے ہیں کہ تین روز سے صبح سے لے کر شام تک ہمارا مرکزی راستہ وی آئی پی موومنٹ کی وجہ سے بند رہتا ہے۔ فضا میں ہیلی کاپٹرز کی پروازیں بتاتی ہیں کہ داسو واقعے کے بعد پاکستانی اور چینی حکام مسلسل رابطوں میں ہیں اور واقعے کی چھان بین کے علاوہ آنے والے عرصے کے لیے بھی سوچ رہے ہیں۔

گذشتہ روز چین کے سفیر اور ملٹری اتاشی نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا۔ بتایا گیا ہے کہ سنیچر کو چین کے اہم عسکری عہدےداروں مسیت 13 افراد کا وفد چین سے یہاں پہنچا تھا۔

پاکستانی سکیورٹی حکام کی جانب سے انھیں واقعے کے حوالے سے بریفنگز بھی دی گئیں اور جائے وقوعہ تک حکام اور چینی میڈیا کو رسائی بھی دی گئی تاہم پاکستانی میڈیا کو یہاں جانے کی اجازت نہیں۔

کمپنی کی جانب سے یہ فیصلہ آنے کے بعد علاقے کی ضلعی انتظامیہ کے سربراہ ڈپٹی کمشنر عارف خان یوسفزئی نے کہا کہ سازگار ماحول پیدا کرنے میں وقت لگے گا، امن استحکام اور ہم آہنگی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔

پاکستان کے وزیراعظم نے چینی حکام کو یقین دہائی کروائی کہ ان کو سکیورٹی فراہم کی جائے گی۔ انھوں نے وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ کو جلد ہی چین کا دورہ کرنے کو کہا ہے۔

سینکڑوں ملازمین کا روزگار تو بحال کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت کے لیے اس اہم منصوبے کے کام کی بحالی اور تسلسل کے لیے سکیورٹی کی کیا منصوبہ بندی کی جائے گی۔ اور یہ بھی کہ کیا پاکستان چینی حکام اور یہاں کام کرنے والی کمپنیوں کو تحفظ کا احساس دلانے میں کامیاب ہو سکے گی۔

کیونکہ داسو پراجیکٹ کے علاوہ ایک بڑا پراجیکٹ سی پیک ہے جس میں ہزاروں چینی پاکستان میں کام کر رہے ہیں۔

بس حادثہ

ابھی تیس فیصد کام بھی مکمل نہیں ہوا

دریائے آباسین کے اوپر زیر تعمیر داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کی پیداواری صلاحیت 4320 میگاواٹ ہے۔ اس کی ابتدائی اسیسمنٹ سنہ 2011 میں ہوئی اور زمینوں کے حصول کے باقاعدہ سیکشن فور سنہ 2012 کے آخر میں لگا۔

اگرچہ اس منصوبے کو سنہ 2025 تک مکمل ہونا تھا لیکن زمین سمیت واجبات کی ادائیگیاں اور گاہے بگاہے ہونے والے احتجاجوں نے اس کو سست کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

انتظامیہ کے مطابق اب تک پراجیکٹ کا 30 فیصد بھی مکمل نہیں ہو سکا۔

اس منصوبے کا گارینٹر ورلڈ بینک ہے جو 20 فیصد فنڈنگ کرتا ہے جبکہ دیگر فنڈنگ دوسرے بینکوں سے ملتی ہے۔

غضوبہ کمپنی کے ایک عہدے دار نے دونوں نوٹیفکیشنز کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ علاقے میں اس پراجیکٹ سے 30 سے 40 فیصد لوگوں کو روزگار ملا ہے لیکن ملازمتیں ختم کرنے کی خبر پر سب لوگوں بہت مضطرب تھے۔

’لوگ بہت ناخوش اور غم میں مبتلا تھے۔ میں لوگوں کے تاثرات سن اور دیکھ رہا تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ پہلی بار یہاں دھماکہ ہوا اور علاقے کی بدنامی بھی ہوئی اور ہمارا روز گار بھی متاثر ہوا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ان 1900 افراد کی بات کی جائے تو یہ 1900 خاندان ہیں جو ماہانہ 20 ہزار کے قریب کمائی کرتے ہیں اور اس صورتحال میں یعنی ان کی نوکریاں جانے سے مجموعی طور پر مکینوں کو 38 کروڑ کا نقصان ہوتا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp