ہمیں ظہیر الدین بابر سے عشق لے ڈوبے گا


جناب وزیراعظم کا، تاریخ کے جنگجو مسلمان فاتحین سے عشق اور دلی لگاؤ کم ہونے میں نہیں آ رہا۔ اب کہتے ہیں ظہیرالدین بابر پر ڈرامہ فلم بنے گی۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ ”بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست“ والی آئیڈیالوجی پر یقین رکھتے ہیں یا دوسروں کی سر زمینوں پر قبضہ کرنے پر کہ ”بحیرہ ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے“ کا عملی مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم آخر ماضی کے سلطنتوں کو پہلے تخت و تاراج کرنے والے اور پھر ان پر اپنی سلطنتیں کھڑی کرنے والے فاتحین سے اتنا متاثر کیوں ہیں؟

وزیراعظم نے ارطغرل کے نام کے شادیانے بجانے کے بعد اب ظہیرالدین بابر پر فلم بنانے کا اعلان کیا ہے ان کا کہنا تھا کہ بابر نے سمرقند فتح کیا کابل فتح کیا پانی پت کی جنگ لڑی مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ وزیراعظم شا ان فاتحین اور جنگجووں کے ساتھ اپنی محبت میں یہ بھول گئے ہیں کہ یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا وہ دور ہے جہاں اس طرح کی فتوحات کرتے ہوئے صرف طالبان نظر آتے ہیں وہ بھی افغانستان کی تباہی کے ساتھ۔ ایک کے بعد ایک ضلع فتح کرتے چلے جا رہے ہیں۔

اس دور میں جب قومیں مریخ پر پہنچنے کے لیے چاند کو اپنا ری فیولنگ کا اسٹیشن قرار دینے سیاروں کی کولونائزیشن کے لیے ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی جد و جہد کر رہی ہیں ایسے وقت میں عمران خان ظہیر الدین بابر اور مغلیہ سلطنت سے باہر نہیں نکل پا رہے۔ وہ جس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ لیں ان کو اس سے عشق ہو جاتا ہے۔ ہم نے سوچا تھا کہ ہمارے جیسے پاکستانی میڈیم اسکولوں سے پڑھنے والے نسیم حجازی کی دلوں کو گرما دینے والی کتابیں بچپن سے سرہانے کے نیچے رکھ کر سونے والے ارطغرل سے متاثر ہونے والوں میں سے ہوں گے لیکن یہ تو معاملہ الٹ ہو گیا آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ، آدھی سے زیادہ زندگی لندن کی ایلیٹ کلاس کے ساتھ گزارنے والے، شادی اور بچے بھی وہیں پر پیدا کرنے والے وزیراعظم بھی اسی تھیوری میں زندہ ہیں کہ ہمارا ماضی انتہائی شاندار اور تابناک ہے کیونکہ مغلوں نے اس سر زمین پر سو سال حکومت کی اور ایک نہ ایک دن یہود و نصاری کو پچھاڑ کر ہم اس دنیا کی سلطنت واپس لیں گے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ نوجوان نسل کو تلوار و تفنگ جنگ و جدل اور عیاشی سے بھرپور ماضی کے حکمرانوں کی زندگی دکھائی جائے۔

میرا سوال ہے آج کے سائنس اور ٹیکنالوجی کہ دنیا میں پنپنے کی کیا یہی باتیں ہیں؟ یہ وہ دور ہے جب سپر پاورز انفرا اسٹرکچر، آئی ٹی، سائنس، اسپیس سائبر ٹیکنالوجی کی دوڑ میں لگی ہیں۔ وہ بدو جن کا کام صرف تیل کی دولت پر عیاشی کرنا تھا اب وہ بھی مریخ پر اپنی روور گاڑی بھیجنے میں کامیاب ہو گئے ہیں ایسے مین ہمارے وزیراعظم پندرہویں صدی کے بابر اور ارطغرل کے دیوانے ہیں اور قوم کے نوجوانوں کو بھی اسی بتی کے پیچھے لگائے رکھنا چاہتے ہیں پاکستان کے پچانوے فیصد لوگوں کو اپنے لڑکپن اور زمانہ طالب علمی میں درسی کتب میں ان فاتحین کے کارنامے رٹائے جانے کی بدولت ہر آدمی ان شخصیات سے قلبی انسیت رکھتا ہے بلکہ بعض لوگ تو رحمت اللہ علیہ کا لقب لگائے بغیر بات نہیں کرتے۔ ایسے میں اس بیانئے کر مزید پختہ کرنے کا قوم کو کیا فائدہ مل سکتا ہے؟

کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اور کچھ نہیں تو ابن رشد یا ابن سینا پر ہی فلم بنانے کا اعلان کر دیتے۔ کہا جاتا ہے کہ ابن رشد جس کے فلسفے نے ایک صدی تک یورپ پر حکمرانی کی۔ چودھویں صدی میں یورپ کا بڑا طبقہ ابن رشد کو پڑھنے والا اور ان کی کتابوں اور فلسفے سے عقلیت پسندی سیکھنے والا تھا۔ لیکن ابن رشد پر فلم بنانے کا اعلان وہ کرے گا جو عقلیت پسندی پر اور اس قوم کو سائنس کے میدان میں آگے لے جانے کا عزم رکھتا ہو۔ ہم نے تو اپنی ساتویں جماعت کی ٹیکسٹ بک سے دنیا کا سب سے بڑا ایوارڈ حاصل کرنے والی بچی ملالہ کی تصویر چھپ جانے پر کتاب کی جلدیں ضبط کر لیں۔

ابن رشد اور ابن سینا کے ادوار میں بھی اس وقت کے ملا بادشاہ عقلیت پسندی پر مبنی ایسی کتب کی جلدیں یا تو ضبط کرا لیا کرتے تھے یا پھر ایک جگہ ڈھیر کر کے آگ لگا دیتے تھے۔ کئی لائبریریاں تو اتنی ضخیم تھیں کہ ان کو آگ لگائی گئی تو وہ آگ مہینوں بجھ نہ پائی۔ آج ترقی کرتے ہوئے ملکوں کے نوجوان سائنس میں نئی نئی ایجادات کر رہے ہیں وہیں ہم اپنی بائیو کی کتابوں میں موجود انسانی ڈھانچوں اور جانوروں کی تصویروں کے اندرونی یا نازک اعضا کو پردہ کروانے کے چکروں میں۔ آخر جہالت کا یہ دہکتا ہوا تندور کب ٹھنڈا پڑے گا۔

ہم تو وزیراعظم کو مشورہ دیں گے کہ وزیراعظم خود بھی نیٹ فلکس دیکھیں اور نوجوانوں کو بھی نیٹ فلکس پر موجود سائنس پر مبنی مواد دیکھنے کی طرف راغب کریں۔ یا اسی طرح کے چند اور چینل ڈسکوری نیشنل جیو گرافک کی طرز کے پروگرام اپنے ملک میں پروڈیوس کروائیں۔ اب ہمارے ملک میں بھی ایلون مسک اور جیف بیزوز جیسے لوگ پیدا ہونا چاہئیں جو فضا میں سیاروں کا ایک نیٹ ورک بنانا چاہتے ہیں۔ اور تو اور سمندروں سے گہری اور شہد سے میٹھی دوستی والے چین نے اپنے ایک شہر میں چاند کی طرز کا ایک شہر بسا رکھا ہے جو ایک سائنس لیبارٹری ہے اور وہ اس لیے ہے کہ چاند اور مریخ پر بھیجے جانے والے خلا بازوں کو وہاں رکھا جاتا ہے تا کہ اس طرح کی زندگی سے واقفیت پیدا کرسکیں۔

چائنہ اور رشیا مل کر لونر اسپیس اسٹیشن تیار کر رہے ہیں۔ بھارت کو اس وقت خدشہ یہ ہے کہ چین بہت تیزی سے اسپیس کی دوڑ میں آگے بڑھ رہا ہے کیونکہ چین سیاروں کی کولونائزیشن کا ارادہ رکھتا ہے۔ گو عام انسان کو یہ سن کر مضحکہ خیز لگتا ہے کہ کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ یہ تو جھوٹ لگتا ہے لیکن اسپیس کی ریس میں آگے بڑھنے کی تگ و دو کے لیے تحقیق اور کوششوں کا آغاز یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ مریخ کا زمین تک سے فاصلہ کم کرنے کے لیے چاند کو ایک بیچ میں پڑنے والے ایک ایسے اسٹاپ کے طور پر استعمال کیا جا سکے جہاں پر آگے جانے کے لیے ری فیولنگ کا کام بھی ہو سکے۔ یہ ریس فار اسپیس کا زمانہ ہے اور ہم ظہیرالدین بابر اور ارطغرل کی فسوں کاریوں کے نشے میں ڈوبے پڑے ہیں۔

عالیہ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عالیہ شاہ

On Twitter Aliya Shah Can be Contacted at @AaliyaShah1

alia-shah has 45 posts and counting.See all posts by alia-shah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments