درخت کی قربانی اور دیوتا


قدیم ناروے میں پجاریوں نے اجلاس طلب کیا۔
سب لوگ آ گئے تو ایک پجاری اٹھا اور اس نے دیوتا اوڈن کا فرمان پڑھ کر سنایا جس کی رو سے اس نے اپنی پوجا کرنے والوں پر فرض کیا کہ وہ اس کی خوشنودی کے لیے سال میں ایک درخت کاٹا کریں گے۔

”پر درخت ایسگارڈ تک کیسے پہنچائیں گے“ ایک بے وقوف نے سوال کیا

”اوہو“ پجاری نے نرمی سے کہا ”اوڈن کا مکمل فرمان کہتا ہے کہ اسے درخت نہیں چاہئیں۔ نہ اس تک درختوں کی چھال پہنچے گی نہ تنا۔ اس نے تو یہ دیکھنا ہے کہ تم سوچے سمجھے بغیر اس کے حکم کی تعمیل کر رہے ہو یا نہیں۔ پر یاد رکھو، درخت جوان اور ہرا بھرا ہو اور جتنا اس کا تنا موٹا ہو گا، اتنا ہی اوڈن کو خوشی ہو گی“

”اور اس کا ہمیں کیا فائدہ“ ایک لالچی دور سے بولا

پجاری اس سوال سے بہت خوش ہوا۔ ”دیکھو، انہی درختوں سے دیوتا اوڈن کے ابدی محل ولہلا کی خندق پر تمہارے لیے پل بنے گا تاکہ اسے عبور کر کے تم ہمیشہ کی عیش کی زندگی میں داخل ہو سکو جہاں لاکھوں انجلینا جولی اور این ہیتھ وے سے سو گنا خوبصورت برہنہ لڑکیاں تمہارا استقبال کریں گی“

”لیکن درخت کاٹ کر ہم اس کا کریں گے کیا“ پیچھے اسے ایک شخص بولا جس کی ہمیشہ سے عادت اعتراض اٹھانا تھی
”تم اس کا اپنے گھر کے لیے فرنیچر بنوا لینا“ پجاری نے کہا۔

”اس سے تو وہی فائدہ اٹھا سکتا ہے جس کے پاس پیسے ہوں اور فرنیچر تو پہلے ہی میرے گھر بہت ہے۔ اب تو آئیکیا والے بہتر اور سستا فرنیچر گھر ڈیلیور کر جاتے ہیں اور غریب آدمی کا کیا“

پجاری کچھ دیر سوچتے رہے کہ اس کا کیا جواب دیا جائے پھر ایک چھوٹا مگر چالاک پجاری اٹھا اور اس نے کہا

”یوں کرو کہ درخت کاٹ کر اس کے تین حصے کر لو۔ ایک کا فرنیچر خود بناؤ، ایک کا اپنے رشتہ داروں کے لیے اور باقی جلانے والی لکڑیاں غریبوں میں بانٹ دو۔ اس سے سال میں ایک دفعہ وہ بھی مفت کی لکڑیاں جلا سکیں گے“

”لیکن اس سے غربت کو کیا فرق پڑے گا اور یہ تو اوڈن نے کہا ہی نہیں تھا کہ ہمیں درخت کو تقسیم بھی کرنا ہے“

”اوڈن نے کہا ہو یا نہ کہا ہو، میں کہہ رہا ہوں“ چھوٹے پجاری نے تنک کر کہا ”اس لیے یہ لازم بھی نہیں ہے پر اگر ایسا کرو گے تو کچھ لوگوں کے اعتراض کی شدت کم ہو جائے گی“

”پر درخت کاٹنے سے اگر غربت بھی کم نہیں ہونی تو اس کا فائدہ کیا ہے، خواہ مخواہ درخت کاٹ کر میں اپنے گھر والوں کو یہ سبق پڑھاؤں کہ درخت کاٹنا اچھی بات ہے“

اب پجاری باقاعدہ ناراض ہو گیا ”اور یہ جو لاکھوں درخت پیکجز والوں کا کاغذ بنانے کے لیے کٹتے ہیں۔ انٹر ووڈ اور آئیکیا کے لیے درختوں کا قتل عام ہوتا ہے، یہ نظر نہیں آتا“

”لیکن وہ تو ضرورت اور سپلائی ڈیمانڈ کے مطابق ہوتا ہے۔ اوڈن کے لیے درخت کاٹنے سے اس کا کیا موازنہ۔ یہ تو بس بے وجہ ایک دن درخت کاٹنے کا مقابلہ ہے جس کی نہ معیشت کو ضرورت ہے نہ انسانوں کو“

”تمہارا کام یہ سوچنا نہیں ہے، بس کہہ دیا گیا تو کہہ دیا گیا۔ خود بھی سال میں ایک دن درخت کاٹو اور اپنے گھر والوں کو بھی درخت کاٹنا سکھاؤ“

”لیکن کیا اس سے معاشرے میں تفاوت بڑھ نہیں جائے گی۔ جوان ہرا بھرا درخت دو ڈھائی لاکھ کا آتا ہے۔ غریب کہاں سے افورڈ کرے گا۔ اس کی اور اس کے بچوں کی حسرتوں میں اضافہ بھی ہو گا اور اس کی جھولی میں بچی کھچی لکڑیاں، جو کہ اوڈن نے ڈالنے کو نہیں کہا لیکن تم کہہ رہے ہو، ڈالنے سے اس کی انا مزید مجروح ہو گی۔ بھکاریوں جیسے رویے کو مزید فروغ ملے گا۔ اس سے بہتر یہ نہیں کہ بجائے درخت کاٹنے کے غربت کی بیخ کنی کے لیے کوئی اور موثر طریقہ سوچا جائے“

اب سارے پجاری غصے میں تھے ”تم اوڈن سے بہتر جانتے ہو۔ ہم سے بہتر سجھتے ہو؟“
معترض ایک لمحے کو سوچ میں پڑ گیا

”اف“ ایک پجاری چلایا۔ ”بلاسفیمی۔ بجائے ’نہیں‘ کہنے کے کہ یہ سوچ رہا ہے کہ شاید یہ ہم سے اور اوڈن سے بہتر سمجھتا ہے“

ہجوم معترض پر پل پڑا۔ چند ہی لمحوں میں معترض کی بوٹیاں نوچ لی گئیں۔ اگلے دن سے آج تک درختوں کی قربانی پر اب کوئی نہیں بولتا۔ غربت وہیں کھڑی ہے۔ فرنیچر اس طلب اور رسد میں ایک غیر فطری مداخلت کی وجہ سے اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ مڈل کلاس بھی اسے افورڈ نہیں کر پاتی۔ کچھ غریبوں کو سال میں ایک دن کے لیے جلانے کو لکڑیاں مل جاتی ہیں لیکن انہیں سمجھ نہیں آتی کہ ان کو جلا کر وہ اس پر پکائیں کیا۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments