ارنیسٹ شیکلٹن کے لاپتہ جہاز کو تلاش کرنے کی ایک نئی کوشش
یہ شاید گم ہو جانے والے بحری جہازوں میں سب سے زیادہ معروف جہاز ہے جس کا سراغ یا باقیات نہیں مل سکی ہیں۔ اینڈیورنس نامی یہ بحری جہاز انٹارکٹک ایکسپلورر ارنسٹ شیکلٹن کا تھا اور 1914 – 1917 میں ویڈل سمندر میں کھو گیا تھا۔
بہت سے لوگوں نے اسے تلاش کرنے کا سوچا ہے، کچھ نے کوشش بھی کی ہے۔ لیکن اس خطے میں سمندری برف کی وجہ سے سفر کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر جان شیئرز اور ان کے ساتھی اس حوالے سے پرعزم ہے۔ اگرچہ اس حوالے سے ان کا آخری مشن ناکام رہا تھا مگر وہ اب پھر اسی کاوش کو لوٹنے لگے ہیں۔
اپنی گذشتہ کوشش میں ناکامی کے بعد انھوں نے جہاز تلاش کے لیے اپنا سامان تبدیل کیا ہے۔ ٹیم اس بار مختلف قسم کی آبدوزوں کی مدد لے گی۔
اگر ان کی ٹیم اینڈیورنس کی تلاش میں کامیاب ہوتی ہے تو وہ اس کا نقشہ بنائیں گے اور اس کی تصویریں بنائیں گے، لیکن وہ کوئی نوادرات واپس نہیں لائیں گے۔
ارنیسٹ شیکلٹن کا جہاز تاریخی اہمیت کا حامل مقام ہے اور اسے انٹارکٹک کے ایک بین الاقوامی معاہدے کے تحت ایک یادگار کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔ اسے کسی بھی طرح سےچھیڑا نہیں جا سکتا۔
ڈاکٹر شیئرز کہتے ہیں کہ ‘یہ جہاز ایک آئیکون بن گیا ہے۔ شیکلٹن کی زندگی کی جنگ ایک ایسی کہانی ہے جو ہر دور میں مقبول رہی ہے۔ اور جن تباہ ہو جانے والے جہازوں کا پتا نہیں چل سکا ہے ان میں یہ سب سے مشہور ہے۔‘
انھوں نے بی بی سی نیوز کو بتایا ‘اگر ہم اس کی نشاندہی کر سکے تو ہم اس کا معائنہ کریں گے اور لیزرز کا استعمال کرتے ہوئے اس کا تفصیلی 3D سکین بنائیں گے۔ اور ہمیں امید ہے کہ اُس وقت ہم یہ سب نشر کریں گے۔
ارنیسٹ شیکلٹن کے جہاز کی کہانی
اینڈیورنس 10 ماہ سے زیادہ عرصے تک سمندری برف میں پھنسا رہا تھا۔ اور اس کا عملہ کس طرح پیدل اور کشتیوں سے جان بچا کر لوٹا، یہ اب ایک لیجنڈ بن چکا ہے۔
اینڈیورنس کہاں ڈوبا تھا، یہ مقام سب کو معلوم ہے۔ کپتان فرینک وسلی نے اس مقام کی نشاندہی سیکسٹنٹ اور تھیوڈولائٹ کی مدد سے نوٹ کی تھی۔
لیکن جزیرہ نما انٹارکٹک پر واقع لارسن آئس شیلف کے بالکل مشرق میں، ویڈل سمندر کے اس حصے تک پہنچنا جدید جہازوں کے لیے بھی انتہائی مشکل ہے۔
ڈاکٹر شیئرز اور ساتھی 2019 میں یہاں تک پہنچ گئے تھے۔ انھوں نے جنوبی افریقہ سے رجسٹرڈ ریسرچ جہاز، اگولہس II کا استعمال کیا تھا۔ انھوں نے ایک خود مختار زیر آب گاڑی (اے یو وی) استعمال کی تھی لیکن 20 گھنٹے زیرِ آب رہنے کے بعد اس گاڑی کا سطح پر موجود جہاز سے رابطہ ختم ہو گیا۔
اس نئے مشن کو فاک لینڈز میری ٹائم ہیریٹیج ٹرسٹ نے مالی وسائل فراہم کیے ہیں۔ اسے برطانوی دفترِ خارجہ سے اجازت کی ضرورت ہو گی، لیکن اگر یہ سب ہو جاتا ہے تو ’انڈیورنس 22‘ ٹیم اگلے سال فروری میں انٹارکٹک میں ہونے کی امید کرے گی۔
ڈاکٹر شیئرز سمندری آثار قدیمہ کے ماہر مینسن باؤنڈ کے ساتھ ایک ڈویلپمنٹ محقق کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ ان دونوں کو شیکلٹن کے جہاز کے بارے میں سے زندگی بھر تجسس رہا ہے۔
پچھلی دفعہ کی طرح وہ اگولہاس آبدوزوں کو دوبارہ استعمال کریں گے کیونکہ اس کے ماہرین پر انھیں اعتبار ہے۔
آخری بار، ان آبدوزوں کے ماہرین امریکی برطانیہ کی کمپنی اوشین انفینٹی سے آئے تھے۔ یہ کمپنی دوبارہ ٹیم کا حصہ ہے لیکن وہ اس مرتبہ ایک مختلف قسم کی ‘صاب سبریتوتس‘ کی آبدوزیں استعمال کرے گی۔
یہ روبوٹ گہرے پانی میں کام کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں، اور طویل وقت تک زیرِ آب رہ سکتی ہیں اور انھیں ریموٹ کے ذریعے یا ایک فائبر آپٹک تار کے ذریعہ کنٹرول کیے جا سکتے ہیں۔
ویڈل سمندر میں ایک مشکل وہاں برف کی ہوتی ہے جس کی وجہ سے آج تک کوئی بھی اس جہاز کو تلاش کرنے میں ناکام رہا ہے۔
اس مشن میں کسی قسم کی کامیابی کے لیے آپ کو سیٹلائٹ کے ذریعہ حاصل کردہ ریڈار امیجری کی ایک مستقل فیڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اینڈورینس 22 کو جرمنی کی خلائی ایجنسی ٹیراسر ایکس پلیٹ فارم سے برف کے نقشے ملیں گے۔
ایک بہت بڑا سوال یہ ہے کہ جہاز کی موجودہ شکل کیا ہو گی۔ پانی اتنا گہرا ہے کہ کسی گزرنے والے برف کے ٹکڑے سے نقصان ہونے کا امکان نہیں ہے اور خطے میں سیڈیمنٹیشن یعنی تلچھٹ کی شرح اتنی کم ہے کہ یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ جہاز کی لکڑی اب بھی سمندر میں کھڑی ہو گی۔
مگر ایسا ہو سکتا ہے کہ جہاز کے ٹکڑے ایک بہت وسیع حصے تک پھیل چکے ہوں۔ ڈاکٹر شیئرز نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’سچ یہ ہے کہ ہم واقعی میں نہیں جانتے کہ اس کی کیا حالت ہو گی۔‘
’ہم جانتے ہیں کہ جہاز کی لکڑی کو تباہ کرنے والے بورنگ مولسکس انٹارکٹک کے ٹھنڈے پانی میں زندہ نہیں رہ سکتے۔ لیکن آپ کو لکڑی میں کاربن کا ایک بہت بڑا ذخیرہ مل جاتا ہے لہذا ہو سکتا ہے کہ اس کے اندر کوئی چیزیں رہتی ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ ہم کوئی نئی قسم کا جاندار دریافت کر لیں۔‘
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).