سچ اور جھوٹ۔ موجودہ دور میں بلند تر کون؟


اللہ رب العزت نے انسان کو نطق جیسی نعمت سے نوازا ہے۔ اس کے منہ سے جو الفاظ نکلتے ہیں وہ سچائی کی نمائندگی کرتے ہیں یا جھوٹ کی ترجمانی۔ سچ بولنے والا فرد نیک لوگوں میں شمار ہوتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ موجودہ دور میں سچ بولنے والے کے دشمن بہت سارے لوگ ہو جاتے ہیں، البتہ جھوٹ بولنے والے کو آج کل سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ سچ بولنا آج کل انگاروں پر چلنے کے برابر ہے اور جھوٹ بولنا پھولوں کی سیج پر سونا۔

پہلے جھوٹ بولنے والوں کو رسوا کیا جاتا تھا اور سچ بولنے والے کو امین کہا جاتا تھا، اس کی بڑی قدرو منزلت ہوتی تھی لیکن آج کل سچائی کے قدردان کم اور دشمن زیادہ ہیں۔ پہلے پہل جھوٹ کا منہ کالا مشہور تھا، اب اسی کا چاروں طرف بول بالا ہے۔ اب سچ سننے والے، سچ کہنے والے، اس کے تیز وار کو برداشت کرنے والے اور اس کی کڑواہٹ کو خندہ پیشانی اور صبر و تحمل سے سہنے والے نہ رہے۔ اب جھوٹے، مکار، مکرو فریب کرنے والے اور خوشامدی کو کامیاب ترین، چالاک، ذہین اور زیرک مانا جاتا ہے۔

آج کل ملنسار اور خوش اخلاق وہ مانا جاتا ہے جو جھوٹ کی پوٹلی کو کھول کر اس میں موجود میٹھا زہر خوشامد کے چمچ سے سب میں برابر بانٹ دیتا ہے۔ اس سے وہ معاشرہ میں خوش خلق فرد مانا جاتا ہے اور لوگ اس کی تعریفیں اور ستائش کرتے ہیں۔ پہلے سچائی کے محل بلند و بالا تھے، اس کے قلعے مضبوط تھے لیکن جب سے جھوٹ، دروغ اور مکرو فریب کے سپاہی اس پر حملہ آور ہوئے اس کے در و دیوار کمزور ہونے لگے ہیں۔ لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ سچائی کے سپاہی اتنے باہمت اور باغیرت ہیں کہ ایسا ممکن ہی نہیں کہ جھوٹ اور اس کے کارندے ان پر حکمرانی کر سکے۔ سچ حقیقت ہے اور جھوٹ سراب۔ پھر بھی آج کل سراب پر یقین کیا جاتا ہے اور حقیقت پر اعتبار کرتے وقت انسان وسوسوں اور خدشات کا شکار ہو جاتے ہیں۔

سچ کی حکومت عالم پر ہے۔ جھوٹ بھی دور دور تک پھیلا ہوا ہے۔ جھوٹ کے پرندے بہت اونچی اڑان بھرنے کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن ان کے پر جلدی جل جاتے ہیں اور یہ زیادہ دیر تک سچائی کے آسمان کی سیر نہیں کر پاتے۔ سچ کا کچھوا آہستہ خرامی اور سست رفتاری سے چلنے کے باوجود منزل مقصود پر پہنچ کر ہی دم لیتا ہے۔ جھوٹ کا خرگوش بھلے ہی تیز رفتار اور چوکڑی مار کر چلے پھر بھی شکست اس کے مقدر میں لکھی ہوتی ہے۔ جھوٹ ایک دفعہ جان بچا سکتا ہے لیکن سچ بار بار ڈھال بن کر نہ صرف انسان کی جان بچاتا ہے بلکہ اس کو سرخرو بھی رکھتا ہے۔

جھوٹ تیزی سے اپنا حلقہ اور دائرہ تو بنا لیتا ہے اور بہت جلد اور تیزی سے پھیل جاتا ہے لیکن اندھیری رات کا خاتمہ جس طرح صبح کرتی ہے اسی طرح سچ کی کرنیں پڑتے ہی جھوٹ کا اندھیرا ختم ہوجاتا ہے۔ جھوٹ سے وقتی طور پر فائدہ ممکن ہے اور اس سے عارضی طور پر کچھ لوگ فائدہ بھی اٹھا لیتے ہیں لیکن وہ ہمیشہ کے لیے نقصان میں رہتے ہیں۔ ان کا ضمیر انہیں ملامت کرتا ہے اور کوستا رہتا ہے۔ جھوٹ ناپائیدار ہے، کمزور ہے اور کاغذی پیرہن میں ملبوس ہے۔ سچ بے زوال، قوی اور مضبوط ہے۔ جس کی چمک دمک تاقیامت مانند نہیں پڑے گی۔

موجودہ دور میں جینے کے لیے جس طرح ہوا، پانی اور غذا کی ضرورت ہے ویسے ہی جھوٹ بولنے کو ایک بنیادی ضرورت بنایا گیا ہے کہ اس کے بغیر کام نہیں چلتا۔ دنیا میں جھوٹ نہ ہوتا تو گفتگو کرنی بڑی بے مزہ اور بے لطف ہوتی۔ جھوٹ سے باتیں دلچسپ اور خوش ذائقہ ہوتی ہیں۔ آج کی دنیا میں دو چیزوں کا چلن بہت زیادہ ہے پیسے اور جھوٹ۔ وہ محفل بے رونق رہتی ہے جس کی بنیاد سے لے کر چھت تک جھوٹ کا ململ نہ چڑھا ہو۔ جھوٹ وہ گناہ ہے جس کو سب ثواب جان کر بولتے ہیں۔

نہ سزا کا ڈر نہ خوف خمیازہ۔ جھوٹ ہر عمر کے لوگ بولتے ہیں اور یہ برائی ہے کا تصور مٹ چکا ہے۔ جھوٹ بنیادی ضرورت سہی لیکن سچ سے زیادہ ضروری نہیں۔ سچ شہید سے میٹھا اور آب حیات سے صحت بخش ہے۔ جس محفل میں سچ بولا جاتا ہے اس پر اللہ کی رحمتیں برستی ہیں۔ سچ میں اللہ نے میٹھاس اور شیرینی رکھی ہے۔ سچ اصلیت ہے، حقیقت ہے۔ سچ کا سورج کبھی نہیں ڈوبتا، ہمیشہ تابناک اور چمکدار رہتا ہے۔

انسان پر اللہ رب العزت نے جہاں بہت سارے کرم کیے ہیں وہیں اس کو مذہب کی روشنی کا فیض بخشا ہے۔ جو شخص اس روشنی سے فائدہ اٹھاتا ہے اس کی زندگی منور ہوتی ہے۔ جس نے مذہب اور آخرت پر بھروسا کیا اس کے منہ سے جھوٹ کی بدبو نہیں آ سکتی۔ سچ کی خوشبو سے انسانوں کے آپسی تعلقات خوشگوار ہوتے ہیں۔ سچ بولنے والا اگر کسی محفل میں غیر حاضر بھی ہوگا پھر بھی اس کا تذکرہ اچھے لہجے اور خوش کن الفاظ میں ہوتا ہے۔ جھوٹ بولنے والا موجود ہو یا غائب، سامنے ہو یا پیٹ پیچھے اس کی ہمیشہ تذلیل ہی ہوئی ہے۔

جھوٹ کا شمار بری عادتوں اور سچ کا اچھی عادتوں میں ہوتا ہے۔ جس طرح صدیوں بعد بھی جھوٹے کا ذکر کراہت اور تلخ لہجے میں کیا جاتا ہے اسی طرح سچ بولنے والے کا صدیوں بعد بھی جب ذکر چھڑ جاتا ہے تو شائستہ، میٹھے اور خوش کن لہجے میں ہوتا ہے۔ ہر زمانے میں جھوٹ اور سچ کی علم لہراتی رہتی ہے اور اس علم کو تھامنے اور گرانے والے موجود رہتے ہیں لیکن جتنا لوگ اس دور میں سچ سے متنفر ہے کبھی پچھلے وقتوں کے لوگ اتنا ہی جھوٹ سے متنفر ہوا کرتے تھے۔

کوئی بھی بزرگ اور خدا شناس کسی بھی طفل مکتب کو پہلا سبق یہی دیتا ہے کہ سچ کے علم کو تھامے رکھنا اور جھوٹ کا درخت جہاں بھی ہو اس کے سایہ تلے نہ بیٹھنا۔ سچ کی مٹھاس زبان پر رکھنا اور جھوٹ بولنے سے منہ سے بدبو آتی ہے بول کر اپنے دہن کو خراب نہ کرنا۔ سچ کے راستے پر چلنا، اس پر قائم رہنا، اسی پر یقین اور اعتبار کرنا۔ ہم یہ سبق بھول گئے ہیں۔ موجودہ زمانے میں سچ بولنا مشکل اور جھوٹ بولنا سہل اور آسان ہے۔ جس کا ضمیر زندہ ہو اس کو جھوٹ بولنے پر کوئی مجبور نہیں کر سکتا اور نہ ہی جھوٹ کی اطاعت پر اسے کوئی رضامند کر سکتا ہے۔ کامیاب ترین انسان سچ کی اطاعت کرتے ہیں اور اس راہ پر لوگوں کو چلنے کے لیے آمادہ کرتے ہیں۔ انسان کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ سچ کے صاف ستھرے اور پاک راستے پر چلے اور جھوٹ کے خاردار اور کھردرے راستے سے پرہیز برتے اسی میں انسان کی کامیابی کا راز مضمر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments