شاہنواز بھٹو: بھٹو خاندان کے لاڈلے سپوت کی پراسرار موت جس نے بھٹو خاندان کو ہلا کر رکھ دیا

سہیل سانگی - صحافی


شاہنواز

یہ بھٹو خاندان کی آخری ری یونین تھی، جس میں کنبے کے تمام افراد شریک ہوئے۔ بھٹو خاندان کی چھٹیاں اور پکنک اس وقت ماتم میں تبدیل ہو گئیں جب انھیں ذوالفقارعلی بھٹو کے سب سے چھوٹے بیٹے شاہنواز بھٹو کی موت کی خبر ملی۔ خاندان فرانس کے تفریحی مقام کینز میں فیملی ری یونین کے لیے اکٹھا ہوا تھا۔

1979 میں ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کے بعد بیگم نصرت اور بے نظیر کی طویل قید اور نصرت بھٹو کی بیماری کی وجہ سے اس خاندان پر المیہ بدستور منڈلاتا رہا اور پھر26 سال کے شاہنواز بھٹو کی پراسرار موت نے انھیں ایک اور المیے سے دو چار کر دیا۔

جب پانچ جولائی 1977 کو فوجی بغاوت کے ذریعے ذوالفقارعلی بھٹو کی منتخب حکومت کا تختہ الٹا گیا تب شاہنواز بیرون ملک زیر تعلیم تھے، ان دنوں وہ چھٹی پر پاکستان آئے ہوئے تھے لیکن والدین کی ہدایت پر اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے واپس سوئٹزرلینڈ چلے گئے۔

بھٹو کو 18 مارچ 1978 کو لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے سزائے موت سنائی تو شاہنواز والد کی جان بچانے کے لیے بین الاقوامی مہم میں اپنے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کی مدد کرنے کے لیے لندن پہنچے۔

سیاسی اور عسکری جدوجہد

پانچ جولائی 1977 کو جنرل ضیا نے بھٹو کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ بھٹو کو گرفتار کر کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ اس وقت شاہنواز اور بینظیر پاکستان میں تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور بینظیر بھٹو کے مرکزی ترجمان بشیر ریاض نے بتایا کہ نصرت بھٹو نے پیپلز پارٹی کی باگ ڈور سنبھالی تو پارٹی کارکنوں کے حوصلے بلند کرنے کے لیے بینظیر اور شاہنواز کو لاہور بھیج دیا۔

یہ پہلا موقع تھا جب شاہنواز نے سیاسی تقریر کی۔ تب عام طور پر پنجاب اور خاص طور پر لاہور پیپلز پارٹی کی انتخابی کارکردگی کا مرکز تھے۔

راجا انور کے مطابق بیگم نصرت نے مرتضیٰ اور شاہنواز سے کہا کہ وہ بھٹو کی رہائی کے لیے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے برطانیہ جائیں۔ نصرت اور بینظیر دونوں ہی پاکستان میں رہیں بعد میں لندن میں مرتضیٰ اور شاہنواز نے ضیا مخالف ریلیوں کی قیادت کی۔

مرتضیٰ والد کی پھانسی کا فیصلہ آنے کے بعد غصے میں آ گئے۔ والدہ اور بہن پاکستان میں جیل میں قید تھیں، مرتضیٰ نے طاقت کے ذریعے ضیا حکومت کو گرانے کا فیصلہ کیا اور شاہنواز نے اپنے بڑے بھائی کی قیادت قبول کی جس کے بعد وہ مرتضی کے ہمراہ بیروت گئے جہاں فلسطینی عسکریت پسندوں کے ایک گروپ نے دونوں کو گوریلا جنگ میں کریش کورس کروایا۔ اس وقت بیروت خانہ جنگی کی لپیٹ میں تھا۔

ان دنوں پاکستان میں الذوالفقار تنظیم سرگرم عمل تھی، شاہنواز اور مرتضیٰ کو مسلح کارروائیاں کرنے والی تنظیم الذوالفقار کی وجہ سے ہمیشہ پراسرار اور چھپی ہوئی دھمکی کا سامنا رہا۔ مرتضیٰ اس تنظیم کے چیف مانے جاتے تھے۔

بھٹو کے کئی بین الاقوامی رہنماؤں سے ذاتی تعلقات تھے۔ جب ایران میں انقلاب کے بعد امام خمینی اور ان کے پیروکار برسر اقتدار آئے تو شاہنواز نے نئی ایرانی حکومت سے رابطہ کیا اور کچھ ہی عرصے میں امام خمینی کے ساتھ ملاقات کا انتظام کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

دونوں بھائیوں کو بطور مہمان ایران آنے کی دعوت دی گئی تھی۔ انھوں نے قم میں امام خمینی سے ملاقات کی۔ خمینی نے انھیں یقین دلایا کہ وہ ان کے والد کی زندگی بچانے کی کوشش کریں گے۔

اسلحہ و فنڈز کا حصول

والد کو سزائے موت ملنے کے بعد مرتضیٰ اور شاہنواز کی طرز زندگی میں ایک ڈرامائی تبدیلی آئی۔ یہ ہارورڈ اور آکسفورڈ کے علمی کام سے گوریلا نیٹ ورک کی رہنمائی کرنے تک کا سفر ہے۔

انھوں نے شمالی افریقہ اور مشرق وسطی، مغربی یورپ کے ایک دارالحکومت سے دوسرے دارالحکومت تک کا سفر کیا۔ اکثر اپنے مرحوم والد کے کاشت کیے ہوئے روابط کو استعمال کیا تاکہ ان کی تنظیم کے لیے فنڈز اور اسلحہ اکٹھا کر سکیں۔

دونوں بھائیوں نے افغان وزارت خارجہ کے ایک اہلکار کی بیٹیوں سے شادی کی۔ بعض اوقات طرابلس یا دمشق، پیرس یا لندن اور ایک بار بمبئی بھی گئے۔

بھٹو خاندان

Fatima Bhutto
تصویر میں بائیں سے دائیں: شاہنواز بھٹو، بینظیر بھٹو، مرتضی بھٹو، صنم بھٹو اور نصرت بھٹو

برسوں بعد بھٹو خاندان کی ری یونین

شاہنواز بھٹو، اپنی اہلیہ ریحانہ اور تین برس کی بیٹی سسئی کے ساتھ، چند روز قبل ہی اپارٹمنٹ میں منتقل ہوئے تھے جبکہ ان کی والدہ نصرت فرانس کے جنوب میں زیرعلاج تھیں، بھٹو خاندان نے ہمسایہ نائس میں اپارٹمنٹ لے رکھے تھے۔

بینظیر رہائی کے بعد لندن میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہی تھی۔ خاندان کی ری یونین کے لیے مرتضیٰ بھٹو دمشق سے اور صنم بھٹو لندن سے اپنے شوہر ناصر حسین کے ساتھ فرانس آئی تھیں۔ رات کو دیر تک خاندان کے افراد گھومتے اور گپ شپ کرتے رہے۔

شاہنواز کا جسم ٹھنڈا ہے

اگلی صبح شاہنواز کی اہلیہ ریحانہ نے بیگم نصرت بھٹو کو اطلاع دی کہ شاہنواز کی وفات ہو گئی ہے۔ بینظیر بھٹو کا کہنا ہے کہ انھیں صنم نے بتایا کہ شاہنواز کو کچھ ہو گیا ہے۔

بینظیر بھٹو نے اپنی آپ بیتی ’مشرق کی بیٹی‘ میں واقعے کو یوں بیان کیا ہے: ’صنم بیڈ روم میں چلی گئی۔ جلدی سے ہمیں جانا ہے جلدی‘ اپنا بچہ میرے حوالے کرتے ہوئے اس نے کہا۔

’ریحانہ کہتی ہے گوگی نے کچھ کھا لیا ہے۔‘ صنم نے کہا۔

میری ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ ’کیا وہ بیمار ہے؟ کیا یہ سنجیدہ ہے؟‘ ہال سے جلدی جلدی میں نے فون کیا۔

فون پر ہنگامی نمبر میں نے ڈائل کیا اور فرانسیسی زبان میں ریکارڈنگ آ رہی تھی۔

’ماں، تم مجھ سے زیادہ فرانسیسی جانتی ہو۔ اگر ہمیں پولیس نہیں مل سکتی ہے تو، ہسپتال‘ میں نے تیزی سے کہا۔

بینظیر لکھتی ہیں کہ ’جب امی تیسرے ہسپتال کا نمبر ڈائل کر رہی تھیں، اتنے میں میر (مرتضیٰ) اندر آیا۔ وہ ٹوٹا ہوا لگ رہا تھا۔ خاموشی سے کہہ رہا تھا میں نے دیکھا۔ ’اس کی وفات ہو گئی ہے‘ یہ الفاظ ان کے منھ پر تھے۔

’نہیں!‘ میں چلائی. امی کے ہاتھ سے فون گر گیا۔

’یہ سچ ہے ماں‘ میر نے اذیت بھری سرگوشی کی۔ ’میں نے مردے دیکھے ہیں۔ شاہنواز کا جسم ٹھنڈا ہے۔‘

بھٹو

Patrick SICCOLI/Gamma-Rapho via Getty Images
پیرس میں مرتضی بھٹو اپنی والدہ نصرت بھٹو کے ساتھ

اس نے زہر لیا

بینظیر نے شاہنواز کے فلیٹ پر پہنچنے کے بعد وہاں کی صورتحال بھی بتائی ہے۔ ’شاہ نواز کافی ٹیبل کے پاس کمرے میں قالین پر پڑا تھا۔‘

’اس نے ابھی تک گذشتہ رات والی سفید پتلون پہنی ہوئی تھی۔ اس کاہاتھ پھیلا ہوا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ سو رہا ہے۔‘

’گوگی!‘ میں نے چلا کر اسے جگانے کی کوشش کی لیکن پھر میں نے اس کی ناک دیکھی۔ جو چاک کی طرح سفید ہو چکی تھی۔

’میں نے کمرے کے آس پاس دیکھا۔ کافی ٹیبل ٹیڑھی ہو گئی تھی۔ ایک طشتری میں بھورے رنگ کا مائع ساتھ والی میز پر نظر آ رہا تھا۔ کُشن آدھے صوفے سے دور تھا اور پھولوں کا گلدان گر گیا تھا۔ میری نگاہیں اس کی میز پر اٹھیں۔ چمڑے کی فائل کا فولڈر موجود نہیں تھا۔ میں نے ٹیریس پر نظر ڈالی۔ اس کے کاغذات وہاں پڑے تھے۔ فولڈر کھلا ہوا تھا۔‘

’بہت بڑی گڑبڑ ہو گئی تھی۔ اس کا جسم ٹھنڈا تھا۔ خدا جانے کتنا وقت شاہ وہاں زندگی اور موت کی کشمکش میں رہا تھا۔ کسی کو الرٹ نہیں کیا گیا تھا اور کسی کے پاس وقت نہیں تھا کہ ان کے کاغذات کے ذریعے جانتا۔

ریحانہ کے ہونٹ ہلے۔ میں نہیں سن سکی وہ کیا کہہ رہی تھی۔

’زہر‘ اس کی بہن فوزیہ نے کہا: ’اس نے زہر لیا۔‘

مرتضیٰ بھٹو کی بیٹی فاطمہ بھٹو اپنی کتاب ’سانگز آف بلڈ اینڈ سورڈ‘ میں اس رات کے واقعے کو یوں بیان کرتی ہیں۔

’جب ریحانہ اور شاہنواز ایونیو ڈی روئی البرٹ پہنچے تو وہ دونوں ناراض ہو گئے، راستے میں ان کے درمیان بحث ہو گئی۔‘

وہ لکھتی ہیں کہ ’شاہ ایک کیسینو جانا چاہتا تھا اور ریحانہ گو گو نائٹ کلب جانا چاہتی تھی۔ جب وہ اپارٹمنٹ بلاک کی لابی میں پہنچے تب معاملہ خاصا خراب ہو چکا تھا۔ پاپا (مرتضیٰ) نے پوچھا کیا معاملہ ہے؟ ریحانہ نے اسے اپنے کام سے کام رکھنے کو کہا۔‘

’مرتضیٰ نے غصے کا ردعمل ظاہر کیا اور توقع کی کہ شاہ اپنی بیوی کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے قدم اٹھائے گا۔ لیکن اس وقت میرے والد اور ریحانہ کے مابین تیز الفاظ کا تبادلہ ہو رہا تھا اور شاہ درمیان میں پھنس گئے۔ ریحانہ نے میرے والد سے کہا کہ اپنا سامان بیگ میں پیک کرو اور میرے گھر سے نکل جاؤ۔‘

’پاپا نے ناراض ہو کرقسم کھائی کہ ان کی توہین کی گئی تھی۔ وہ ہماری چیزیں پیک کرنے لگے۔ مجھے یہ جھگڑا یاد ہے، میری خواہش تھی کہ سب لوگ چیخنا بند کر دیں۔ کچھ ہی منٹوں میں ہم جونم کے فلیٹ پر چلے گئے۔‘

’18 اگست کی سہ پہر پونے دو بجے ریحانہ کے دروازے کی گھنٹی بجی۔ وہ بہت تکلیف میں تھیں اور ابتدا میں پاپا انھیں اندر آنے کی اجازت دینے کے موڈ میں نہیں تھے۔ جونم نے دیکھا کہ کچھ گڑبڑ ہے اور مرتضیٰ سے کہا کہ اس سے بات کرے۔ ’کچھ گڑبڑ ہے‘ ریحانہ نے انھیں بتایا۔(یہ جون کون ہے، ریحانہ کے دروازے کی گھنٹی بجی یا انھوں نے مرتضی کے دروازے کی گھنٹی بجائی

جونم نے فوراً پولیس کو بلایا اور شاہ کے اپارٹمنٹ کا پتہ دیا۔ اس کے بعد یہ سب لوگ شاہنواز کے فلیٹ کے لیے روانہ ہوئے۔

یہ بھی پڑھیے

کارساز حملہ: جب کارکن بینظیر بھٹو کے گرد ڈھال بن گئے

وہ بھٹو جو اپنی بہن کے دور حکومت میں مارے گئے

شملہ معاہدہ: بھٹو کی ’چالاکی‘ اور اندرا گاندھی کی ’سیاسی غلطی‘

بے نظیر بھٹو کی زندگی کے آخری 18 گھنٹے اور تقریر و تخریب کی تیاریاں

فاطمہ بھٹو مزید لکھتی ہیں کہ ’جب وہ اپارٹمنٹ میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ شاہ کی لاش صوفے اور کافی ٹیبل کے بیچ کمرے کے فرش پر اوندھے منھ پڑی تھی۔ مرتضیٰ بعد میں کہتا تھا کہ مجھے معلوم تھا کہ وہ مر گیا تھا۔

’شاہ کے سینے پر نیلے رنگ کے نشانات ہیں اس کا چہرہ پہلے ہی نیلا اور سیاہ ہونا شروع ہو گیا تھا۔ مرتضیٰ کو زہرکا شبہ ہوا اور اپارٹمنٹ میں تلاش شروع کر دی۔ ایک سال قبل ان بھائیوں کو زہر کی چھوٹی سی شیشیاں دی گئی تھیں کہ اگر وہ کبھی ضیا کے حکام کے ہاتھوں گرفتار ہو جائیں تو استعمال کر لیں۔

’ایک ڈاکٹر کچن میں کھڑا تھا جب مرتضیٰ نے کچرے کی ٹوکری کھولی تو اسے کئی ٹشوؤں کے نیچے شیشے کی ایک چھوٹی سی بوتل ملی جس پر پینٹراکسائڈ کا لیبل لکھا ہوا تھا۔ اس نے بوتل ڈاکٹر کے حوالے کی اور پولیس کو اس کی اطلاع دی۔

’اس نے پولیس کو بتایا کہ شاہ پر چار قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں اور یہ ممکن تھا کہ کوئی فلیٹ میں گھس آیا ہو۔

’شاہنواز کی لاش پولیس کے اٹھانے سے پہلے مرتضیٰ ماں کو مطلع کرنا چاہتا تھا، لہٰذا وہ نصرت کو لینے چلا گیا۔‘

مرتضی بھٹو

Fatima Bhutto
مرتضی بھٹو اپنی اہلیہ غنویٰ بھٹو کے ساتھ

اس واقع کے مشتبہ ہونے کے بعد طویل تحقیقات کا سلسلہ شروع ہو گیا، جو بھٹو خاندان کے لیے مزید اذیت کا باعث بھی بنا۔

پاکستان کے آمر جنرل ضیا الحق نے پاکستانی میڈیا کو نشہ اور شراب کے استعمال کی وجہ سے شاہنواز بھٹو کی موت کی تصویر کشی کرنے پر مجبور کیا۔

لاش ملنے کے بعد، کینز میں واقع ’بریگیڈ کریمنل‘ کی فرانسیسی تفتیشی ٹیم تیزی سے حرکت میں آ گئی۔ پہلی اطلاعات میں بتایا گیا کہ کسی فائول پلے ’کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔‘

تاہم پولیس نے شاہنواز کے جسم کی جانچ پڑتال کے لیے مقرر کردہ ڈاکٹر رینی گیگلیہ نے موت کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے انکار کر دیا۔ یوں ایک مشکل صورتحال پیدا ہو گئی، جس کے بعد گراس میں سرکاری وکیل کے دفتر نے شاہنواز کی لاش کے پوسٹ مارٹم کا حکم دیا۔

کیس کی تفتیش کرنے والے کینز کے پرنسپل کمشنر نے بھی تحقیقات مکمل ہونے تک کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ کمشنر، پولیس کے اعلیٰ افسران کی ٹیم کے تعاون سے شاہنواز کی اہلیہ اور کنبے کے دیگر افراد سے تفتیش میں مصروف رہی۔

موت سے متعلق سازشی نظریات

شاہنواز کی ہلاکت سے متعلق طرح طرح کے مفروضے صرف فرانس میں ہی نہیں بلکہ پاکستان اور دیگر ممالک میں گردش کر رہے تھے۔

کہا گیا کہ ان کی لاش کے قریب ایک خالی شیشی ملی ہے، جس میں شاید زہر تھا۔ سب سے زیادہ اس تھیوری نے زور پکڑا کہ شاہنواز کو کسی نے زہر دیا۔

اس قیاس آرائی کے مطابق شاہنواز اور ان کے بھائی مرتضیٰ، پاکستان حکومت کے ایجنٹوں کے ذریعہ انھیں اغوا کیے جانے کی صورت میں تشدد سے بچنے کے لیے ہمیشہ زہر کی گولی اپنے ساتھ رکھتے تھے۔

تین مختلف مفروضوں میں شاہنواز کی والدہ نصرت بھٹو، اس کے بھائی مرتضیٰ اور ان کی اہلیہ ریحانہ کے ساتھ مبینہ اختلافات کی بات کی گئی۔

پہلے مفروضے کے مطابق بیگم نصرت ناخوش تھیں کہ انھوں نے ایک افغان اہلکار کی بیٹی سے شادی کی ہے جبکہ ذاتی طور پر وہ ایرانی نسل کی لڑکی کو ترجیح دیتی تھیں۔

مرتضیٰ کے ساتھ الذولفقار تنظیم کی حکمت عملی کے بارے میں اختلافات کے باعث یہ سب ہوا۔

شاہنواز

تیسری تھیوری موت کے موقع پر بیوی سے جھگڑے سے متعلق ہے۔ کہا گیا کہ ان کی اہلیہ ڈانس کلب جانا چاہتی تھی جب کہ شاہنواز نے کیسینو کو ترجیح دی لیکن یہ بات اتنی بڑی نہیں لگتی کہ اس اختلاف پر شاہنواز کو زہر دیا گیا ہو۔

زہر خوری کی تھیوریز میں بھی متعدد اور متضاد سوالات ہیں: اگر یہ خود کشی نہ تھی تو کوئی دوسرا شخص ان کو موت کے کیپسول کھانے پر مجبور نہیں کر سکتا تھا کیونکہ شاہنواز کراٹے کا ماہر تھا۔

رقم کے معاملے پر بحث اور ہاتھا پائی ہوئی؟

جمشید مارکر، جو فرانس میں پاکستان کے سفیر تھے، اپنی یاداشتوں ’خاموش سفارتکاری‘ میں لکھتے ہیں کہ ’شاہنواز کی موت کی اطلاع ملنے کے بعد انھوں نے ڈی گراساؤ کے ذریعے معلومات اکٹھی کیں۔

(ڈی گراساؤ فرانسیسی سیاستدان تھے جو کہ سلامتی امور کو دیکھتے تھے) تقریباً چھ ہفتے بعد ڈی گراساؤ نے حتمی رپورٹ دی کہ نائیس کے ایل ریستوران میں بھٹو خاندان کے قریبی افراد بشمول بیگم نصرت، بینظیر، صنم، مرتضیٰ، اور شاہنواز اپنی بیگمات کے ساتھ ڈنر کے لیے اکٹھے ہوئے۔

وہاں رقم کے معاملے پر گرما گرم بحث ہوئی اور دونوں بھائیوں میں ہاتھا پائی بھی ہوئی۔ اس کے بعد پارٹی ختم ہو گئی۔ شاہنوازاور ان کی بیگم اپنے ہوٹل کے کمرے میں چلے گئے۔ تو مرتضیٰ ان کے پیچھے گئے اور دونوں بھائیوں کے درمیان دوبارہ تو تو میں میں ہوئی۔

صحافی اوون بینیٹ جونز گذشتہ سال شایع ہونے والی اپنی کتاب ’بھٹو خاندان‘ میں جمشید مارکر کے مؤقف سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’بہرحال جمشید مارکر ضیا حکومت کے سفیر تھے۔ جن کا بھٹو خاندان کے ساتھ مخالفت کا ریکارڈ موجود ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو: ’مجھے داڑھی کاٹنے دیں، میں مولوی کی طرح اس دنیا سے نہیں جانا چاہتا‘

’بھٹو فیملی کی تباہی کا باعث آصف زرداری ہے‘

بینظیر بھٹو کے قتل سے متعلق اہم سوالات

46 برس قبل ہونے والا ایک قتل جو ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی وجہ بنا

’موت واضح طور پر ایک قتل ہے‘

ان تمام مختلف خیالات کو پاکستان پیپلز پارٹی اور بینظیر بھٹو کے مرکزی ترجمان بشیر ریاض نے ’بیہودہ‘ اور ’بکواس‘ قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔

انھوں نے ایک انڈین اخبار کو بتایا تھا کہ ’ظاہر ہے کہ یہ تمام افواہیں اور قیاس آرائیاں جان بوجھ کر پریس کو دی جا رہی ہیں۔ اس میں کوئی صداقت نہیں کہ شاہنواز بھٹو کے خاندان کے کسی فرد کے ساتھ اتنے بڑے اختلافات ہوں۔ ان کی موت کی رات وہ عمدہ جذبات میں تھا اور اسے خودکشی کا موڈ قرار نہیں دیا جا سکتا تھا۔ اس کی موت واضح طور پر ایک قتل ہے۔‘

بشیر ریاض نے پاکستانی ایجنٹوں کے ذریعہ بھٹو بھائیوں پر قتل کی دو پچھلی کوششوں کا ذکر کیا، جن میں سے ایک 1981 میں پاکستانی پریس میں اس وقت بڑے پیمانے پر عام ہوئی جب خبر ملی کہ شاہنواز کو کابل میں گولی مار کر ہلاک کردیا گیا ہے۔

ریحانہ

خاندان کا شاہنواز کی بیوی پر شبہ

مرتضیٰ اور بے نظیر کو یقین تھا کہ انھیں زہر دیا گیا، شاید ان کی بیوی کے ذریعہ، ان کا خیال تھا کہ اس نے ضیا کی ایجنسیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا تھا۔

پوسٹ مارٹم کی رپورٹ آنے تک بھٹو خاندان کے افراد خاموشی اختیار کیے ہوئے تھے۔ فرانسیسی حکام کو اب احساس ہو رہا تھا کہ ان کے ہاتھوں میں دور رس نتائج مرتب کرنے والا کیس ہے۔

بشیر ریاض نے اس ذریعے کی شناخت جاننے کا مطالبہ کیا جو یہ کہانیاں اگا رہے تھے اور آگے بڑھا رہے تھے۔ اگرچہ بھٹو خاندان کے قریبی ذرائع نے پاکستان حکومت پر شاہنواز کی ہلاکت میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا لیکن یہاں پھر کسی ٹھوس ثبوت کے لیے گہری تفتیش کی ضرورت تھی۔

غیر ملکی میڈیا نے یہ خبر بھی دی کہ ایک پاکستانی انٹیلی جنس اہلکار شاہنواز کی ہلاکت کے ایک دن بعد کینز دیکھا گیا تھا۔

پاکستان میں رد عمل سے بچنے کے لیے گرفتاریاں

نہ صرف سندھ بلکہ پورے ملک میں ہمدردی کی لہر کی متعدد اطلاعات موصول ہوئیں۔ لندن میں پیپلز پارٹی کے ہیڈ کوارٹر پر تعزیتی کالوں کا تانتا بندھ گیا۔

بڑھتی ہوئی ہمدردی نے صدر ضیا کو بھی مجبور کر دیا اور انھوں نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ایک موقع پر کہا کہ وہ بھٹو خاندان کے اس دکھ میں شریک ہیں لیکن انھیں خوف تھا کہ بے نظیر کی جلاوطنی سے واپسی ایک تیز سیاسی تحریک میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ لہٰذا پاکستان میں گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیا گیا۔

بینظیر کا لاش لے کر پاکستان جانے کا فیصلہ

جیسے ہی فرانسیسی تفتیشی ٹیم نے لاش ورثا کے حوالے کی، بینظیر نے اپنی چھوٹی بہن صنم بھٹو اور ان کے قریبی ساتھیوں کے ہمراہ پاکستان جانے کا اعلان کیا اور کہا کہ تدفین کے لیے سندھ کے شہر لاڑکانہ میں بھٹو کے آبائی گھر گڑھی خدا بخش جائیں گی۔

وطن واپسی کی صورت میں بینظیر کی دوبارہ گرفتاری یقینی سمجھی جارہی تھی۔ ان کی واپسی کا فلپائنی حزب اختلاف کی رہنما بینیگو ایکنو کے ساتھ موازنہ کیا جا رہا تھا۔ جنھیں جلاوطنی سے وطن واپسی پر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

نوجوان بھٹو کی میت ورثا کے حوالے کرنے میں فرانس کی طرف سے طویل تاخیر نے پاکستان میں فوری جذباتی لمحے کو ٹھنڈا کر دیا۔ اس تاخیر نے ضیا حکومت کو وطن واپسی کے لیے منصوبہ بندی بنانے اور دیگر سیاسی رہنماؤں کے ساتھ بینظیر بھٹو کے رابطے کو محدود کرنے کا وقت بھی دیا۔

لاس اینجلز ٹائمز کی 20 اگست 1985 کے شمارے میں رونے ٹیمپسٹ نے میڈیا ایک مغربی سفارتی ذریعہ کا حوالہ دیا کہ: ’اگر میت واقعے کے ایک ہفتے بعد وطن لائی جاتی تو زیادہ بڑا جذباتی ردِعمل ہوتا۔ بہت سارے لوگ تھے جنھوں نے کنبے کے لیے ہمدردی محسوس کی، لیکن تاخیر نے ان جذبات کی شدت کو ایک حد تک کم کیا۔

شاہنواز

لاش کا گھیراؤ اور بینظیر کی اشکباری

بالاخر جنرل ضیا حکومت نے خاندان کے قبرستان میں تدفین کے لیے بینظیربھٹو کو بھائی کی میت لانے کی اجازت دے دی۔

ہوائی اڈے پر بہت سارے بین الاقوامی پریس کے صحافی موجود تھے۔ بشیر ریاض بتاتے ہیں کہ جب بینظیر نے ان سے بات کی تو وہ زارو قطار رو رہی تھیں۔ ان کے آنسو بہہ رہے تھے کہ وہ اپنے بھائی کو پھر کبھی نہیں دیکھ سکیں گی۔

بشیر ریاض کے مطابق ہم 22 اگست کی صبح تقریباً آٹھ بجے کراچی ایئرپورٹ پہنچے۔ ہوائی اڈہ افسردگی سے گھرا ہوا تھا۔ سنگاپور ایئر لائن کی پرواز کو مسلح کمانڈوز نے گھیر لیا۔ اسی اثنا میں شاہنواز کی لاش کو فوکر طیارے میں منتقل کیا گیا، جس کی منزل لاڑکانہ تھی اور اس پر پیپلزپارٹی کے جھنڈے اور گلاب لگے ہوئے تھے۔

ہزاروں افراد سفر کی پابندی کے باوجود موہنجودڑو ایئرپورٹ پر جمع ہو گئے۔ چاروں طرف لوگوں کی ایک بڑی تعداد دیکھی جا سکتی تھی۔

شاہنواز کی میت کو آخری غسل دیا گیا اور پھر جنازہ لاڑکانہ سٹیڈیم میں لایا گیا۔ اس کے بعد ان کی لاش کو گڑھی خدا بخش لے جایا گیا اور انھیں پیپلز پارٹی کے جھنڈے میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

’شاہنواز کی موت صرف میرا ذاتی نقصان نہیں‘

بشیر ریاض کے مطابق بہت ہی مشکل سے بینظیر بھٹو نے ہزاروں لوگوں سے خطاب کیا جو ان کا غم بانٹنے کے لیے پاکستان بھر سے آئے تھے۔ اپنے خطاب میں انھوں نے کہا، ’پاکستانی عوام کا درد میرا درد ہے۔ شاہنواز کی موت صرف میرا ذاتی نقصان نہیں۔

اس خطاب کے بعد ایک غیر ملکی صحافی نے بینظیر سے پوچھا “آپ کیوں کہتے ہیں شاہنوازکی موت پراسرار ہے؟ انہوں نے صحافی سے پوچھا: “کیا آپ شاہنواز کی موت کی وجہ جانتے ہیں؟” نہیں ، اس نے جواب دیا۔ بینظیر نے کہا ، “اسی وجہ سے میں کہتی ہوں کہ میرا بھائی پراسرار حالات میں مر گیا۔ 18 جولائی سے لے کر اب تک بہت ساری تحقیقات کی جاچکی ہیں لیکن ہمیں کوئی اطلاع نہیں ملی۔ ان حالات میں اگر ہم شاہنواز کی موت کو پراسرار نہیں کہیں تو پھر آپ بتائیں کہ مجھے اسے کیا کہنا چاہئے۔

شاہنواز کی موت کے خاندان پر اثرات

شاہنواز کی اچانک موت بھٹو خاندان کے لیے ایک بڑا صدمہ تھا۔ میر مرتضیٰ بھٹو نے فوری طور پر اپنی بیوی فوزیہ کو اس شبے سے طلاق دے دی کہ اس کی بہن ریحانہ کا بھائی کی موت میں مبینہ ہاتھ ہے۔

شاہنواز اور مرتضیٰ نے دو افغان بہنوں سے شادی کی تھی، مرتضیٰ کی بیٹی فاطمہ بھٹو کی اس وقت عمر تین سال تھی بعد میں مرتضیٰ نے غنویٰ بھٹو سے شادی کی۔

شاہنواز کی موت بیگم نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو کے لیے ایک اور بڑا صدمہ تھا آخری اولاد ہونے کی وجہ سے وہ والدہ کے قریب تھے، بینظیر بھٹو اپنی سوانح عمری میں لکھتی ہیں کہ شاہ بہن بھائیوں کے بہت قریب تھے اور جب وہ سب بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے گئے، تو وہ افسردہ اور مایوس ہو گئے تھے۔

بعد کے دنوں میں جب مرتضیٰ بھٹو نے پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا تو بینظیر بھٹو انھیں روکتی رہیں۔ ان کے قریبی ساتھیوں کے مطابق وہ خوفزدہ تھیں کہ انھیں کچھ ہو نہ جائے۔

راجا انور اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ شاہ اکثر مرتضیٰ سے دوسرے الذوالفقارکے عسکریت پسندوں کے ساتھ اسے پاکستان بھیجنے کو کہتے تھے لیکن مرتضیٰ ہمیشہ انکار کرتے تھے۔ اسے یقین تھا کہ شاہ کو یقینا گرفتار کر لیا جائے گا یا قتل کر دیا جائے گا۔

ریحانہ

مقدمے کا کیا ہوا؟

چھ دسمبر 1988 کو خبر رساں ایجنسی اے پی نے اطلاع دی کہ فرانس کی ایک عدالت نے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی بھابھی کو اپنے شوہر کی موت کے الزام میں دو سال قید کی سزا سنائی ہے۔

تاہم ریحانہ بھٹو امریکہ میں مقیم تھیں اور ’خطرے میں پڑنے والے شخص کی مدد‘ کے الزامات کا سامنا کرنے کے لیے وہ خود مقدمے میں پیش نہیں ہوئیں۔

بینظیر بھٹو لکھتی ہیں کہ نامعلوم افراد کے ذریعہ قتل کے الزام کو برقرار رکھا۔ خودکشی کا بدنما داغ کم از کم شاہ کے نام سے ہٹا دیا گیا تھا۔

عدالت کے فیصلے کے فوراً بعد بی بی سی نے ریحانہ کے وکیل کے بارے میں اطلاع دی کہ ریحانہ نے بھی اب اس بات کو قبول کر لیا ہے کہ شاہ کو قتل کر دیا گیا تھا۔

ریحانہ نے اس کے جسم میں زہر پھیلنے کے چند گھنٹوں بعد ہی اس کو اگلے کمرے میں دیکھ لیا تھا۔ ابتدائی تفتیش میں اس نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ اس نے اپنے شوہر کو اپنے کمرے میں آہ و بکا کرتے ہوئے سنا لیکن اس نے کوئی توجہ نہیں دی کیونکہ وہ اس سے ناراض تھی۔

فاطمہ بھٹو نے فرانس میں خاندان کے وکیل جیکوس ورگس کے حوالے سے شبہ ظاہر کیا کہ معاملے میں امریکہ اور پاکستان کہ خفیہ ادارے ملوث ہو سکتے ہیں لیکن اس پہلو پر تحقیقات نہیں کی گئیں۔

پولیس کو اس معاملے کی تفتیش کے دوران اسے تقریباً دو ماہ جیل میں بند کیا گیا تھا کیونکہ یہ الزامات معمولی تھے لہٰذا اسے رہا کیا گیا تھا تاکہ وہ امریکہ میں اپنے بچے کے ساتھ رہ سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp