خواجہ آصف کا حقیقت پسندانہ تجزیہ


یہ بات کافی حد تک بجا ہے کہ ہماری سیاست اور جمہوریت میں سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں سمیت طاقت کے اہم مراکز نے ماضی کی غلطیوں سے بہت کم سیکھا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہم بطور قوم، معاشرہ یا ریاست آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کی طرف جا رہے ہیں اور خاص طور پر ہمارا ادارہ جاتی نظام اپنی اہمیت کھو بیٹھا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہاں تمام فریقین اپنی اپنی داخلی غلطیوں کو تسلیم کرنے کی بجائے دوسروں پر الزام عائد کر کے خود کو سیاسی طور پر بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ مسئلہ کسی ایک فریق کا نہیں بلکہ جو ریاستی سطح پر خرابیاں ہیں اس کی عملی طور پر ذمہ داری کچھ زیادہ یا کچھ کم تمام فریقین پر ہی عائد ہوتی ہے۔ ایک مسئلہ جب تک ہم مسائل کی درست نشاندہی یا تشخیص، یا تجزیہ کر کے آگے بڑھنے کا راستہ تلاش نہیں کرتے تو کچھ نہیں ہو سکے گا۔

پچھلے دنوں مسلم لیگ نون کے اہم رکن اور سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے پانچ اہم باتیں کی ہیں۔ اول ہم مسائل پر درست حکمت عملی اختیار کرنے کی بجائے ٹریڈ میل پر چڑھ کر مسائل کو حل کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ دوئم اسٹیبلیشمنٹ کو محض فوج تک محدود رکھ کر نہ دیکھا جائے بلکہ اس میں تین چار سو وہ طاقت ور افراد ہیں جو فیصلہ سازی کا اختیار رکھتے ہیں مثلاً عدلیہ، فوج، سول ملٹری بیوروکریسی، میڈیا، سیاست دان اور بڑے سرمایہ دار لوگ ہیں جو فیصلوں میں اپنا اثر نفوز رکھتے ہیں۔

اس لیے اگر ملک کا بحران جاری ہے تو اس میں ذمہ دار ہم سب ہی فریق ہیں۔ سوئم سیاست دان ہمیشہ فوج کے لیے سہولت کاری کا کردار ادا کرتے ہیں اور خود سے سیاست اور جمہوریت سمیت قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے اتفاق رائے کی سیاست کے خلاف ہیں۔ چہارم اگر ملک آئین اور قانون کے مطابق نہیں چل رہا تو ہم سب ہی کسی نہ کسی شکل میں آئین شکنی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ پنجم ملک کے حالات کے لیے ایک دوسرے کو طعنے مارنے کی بجائے داخلی اور خارجی مسائل پر ایک بڑا اتفاق رائے قائم کرنا ہوگا۔

خواجہ آصف کی تقریر پر رکن قومی اسمبلی نور عالم نے ان کو طعنہ دیا کہ لگتا ہے کہ آپ کا سافٹ ویئر درست ہو گیا ہے تو خواجہ آصف نے بھی فوری جواب دیا جی میرا ہو گیا اور باقی سب جو رہ گئے ہیں ان کا بھی ہونے والا ہے۔ مسئلہ کسی کے سافٹ ویئر کی تبدیلی کا نہیں بلکہ ملک کو جو مسائل درپیش ہیں ان کا سب فریقین کی سطح پر بہتر ادراک کا ہونا ہے۔ کیونکہ ایک بات تو طے ہے کہ کوئی بھی فریق تن تنہا ملک کے مسائل کو حل نہیں کر سکتا، یہ اجتماعی عمل ہوگا او راس میں سب فریقین کو اپنے اپنے سیاسی، قانونی اور آئینی دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا ہوگا۔ لیکن سوال یہ ہی ہے کہ جو نکات خواجہ آصف نے اٹھائے ہیں تو اس تناظر میں بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔ کیونکہ ابھی تک تو ہمارا مجموعی رویہ ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کر کے آگے بڑھنا ہے اور ایسے میں مفاہمت کی سیاست اور قومی مسائل پر ایک بڑا اتفاق رائے کیسے پیدا ہوگا۔

خواجہ آصف نے ملک میں منصفانہ اور شفاف انتخابات کی مدد سے عوام کو حکومت بنانے کے حق دینے کی بات کی ہے۔ یقینی طور پر یہ درست بات ہے مگر ہماری سیاسی جماعتیں کیا واقعی اس ملک میں شفاف انتخابی یا سیاسی نظام کی حامی ہیں۔ کیونکہ جب خود خواجہ آصف یہ اعتراف کرتے ہیں کہ اہل سیاست میں سے ہی بڑا طبقہ اسٹیبلیشمنٹ کی سہولت کاری کا کردار ادا کرتا ہے تو کیسے اس کھیل کے آگے بندھ باندھا جائے گا۔ خود خواجہ آصف کی جماعت مسلم لیگ نون تو ماضی میں اسٹیبلیشمنٹ کی لاڈلی جماعت رہی ہے او ران کی سیاست کا مجموعی انداز بھی اسٹیبلیشمنٹ کے سہولت کار کا رہا ہے۔

آج بھی شہباز شریف اسی سہولت کاری کے طور پر اپنی سیاست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خواجہ آصف کی یہ بات درست ہے کہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں، مگر سب ہی جمہوریت، ووٹ کو عزت دو، پارلیمنٹ کی مضبوطی اور آئین کی اور سول حکمرانی کی بالادستی بات تو کرتے ہیں مگر عملی طور پر ان سب کی سیاست تضادات سے جڑی ہوئی ہے۔

اصل میں پاکستان کی ماضی کی سیاست دیکھیں تو ہمیں سول ملٹری تعلقات میں موجود بداعتمادی اور ٹکراو کی سیاست نے بہت نقصان پہنچایا ہے اور اس میں دونوں اطراف سے غلطیاں ہوئی ہیں۔ ان ہی تضادات کی وجہ سے یہ ملک منصفانہ اور شفاف انتخابات سے بھی محروم رہا ہے اور آج بھی یہاں منصفانہ اور شفاف انتخاب کی دہائی دی جاتی ہے۔ ایک بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں ایک مجموعی کلچر یہ ہے کہ اگر آپ انتخابات جیت جاتے ہیں تو وہ منصفانہ اور شفاف ہوتے ہیں اور ہارنے کی صورت میں وہ دھاندلی پر مبنی ہوتے ہیں۔

یعنی اپنی شکست کو قبول کرنے کا بھی یہاں سیاسی حوصلہ موجود نہیں۔ آج بھی انتخابی اصلاحات کے حوالے سے حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان اصلاحات میں موجود اعتماد سازی کے مقابلے میں بداعتمادی موجود ہے۔ اگر اس دفعہ بھی انتخابی اصلاحات کے تناظر میں کوئی بڑی مثبت پیش رفت نہ ہو سکی تو یہ خدشہ بدستور موجود رہے گا کہ اگلے انتخابی نتائج کو بھی ہارنے والے قبول نہیں کریں گے۔

سول ملٹری تعلقات میں ہمیں ٹکراو پیدا کرنے کی بجائے ان دونوں فریقین میں بات چیت کے آغاز کو آگے بڑھانا ہوگا اور نئے حالات کو مدنظر رکھ کر ایک بڑا باہمی اتفاق رائے اور نیا دائرہ کار طے کرنا ہوگا۔ کیونکہ پاکستان جن بڑے سیکورٹی سمیت داخلی، علاقائی یا عالمی چیلنجز سے گزر رہا ہے اس میں ہمیں زیادہ سے زیادہ دونوں فریقوں میں اعتماد سازی، باہمی فیصلے، مشاورت اور مسائل پر باہمی سمجھ بوجھ درکار ہے تاکہ ہم بڑے چیلنجز کا بہتر طور پر مقابلہ کرسکیں۔

سول ملٹری تعلقات میں جو مسائل آج بھی ہم حکومت، اسٹیبلیشمنٹ اور حزب اختلاف کے درمیان دیکھ رہے ہیں اس کا براہ راست فائدہ ان قوتوں کو ہو رہا ہے جو واقعی ہمیں غیر مستحکم دیکھنا چاہتی ہیں۔ اس لیے مسئلہ کسی ایک فریق کا دوسرے فریق پر فتح حاصل کرنا نہیں بلکہ باہمی تناو کو ختم کر کے ایک بڑے اتفاق رائے کی طرف بڑھنا ہوگا۔ خود خواجہ آصف کو بھی سمجھنا ہوگا کہ جو حالیہ مسلم لیگ نون میں بیانیہ کے نام پر ٹکراو ہے وہ واضح طور پر دیکھا جا رہا ہے اور یہ ٹکراو خود ان کی اپنی جماعت کے حق میں بھی نہیں مگر یہ کیسے ٹکراو کم ہوگا یا کیسے الزامات کی سیاست سے باہر نکلا جائے گا، خود بڑا سوالیہ نشان ہے۔

ہمیں واقعی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ موجودہ صورتحال میں ہمارے پاس غلطیوں کی گنجائش بھی بہت کم ہے۔ ایک طرف ملک میں آئین، قانون اور سول بالادستی کی جنگ ہے تو اس جنگ کو عوامی مفادات اور شفاف حکمرانی کے نظام سے جوڑنے کے لیے بھی ایک منصفانہ اور شفاف حکمرانی کے نظام، ڈھانچہ اور طریقہ کار پر نیا اتفاق رائے بھی درکار ہے۔ کیونکہ عوامی مفادات سے جڑی سیاست اور حکمرانی کا نظام اپنی افادیت کھو چکا ہے اور لوگ ایک نئے حکمرانی کے متبادل نظام کے منتظر ہیں او راس کے لیے بالخصوص ملک میں سیاسی، انتظامی او رمالی بنیادوں پر خود مختار مقامی نظام حکومت کی ضرورت ہے جو براہ راست لوگوں کے مفادات کو مقامی سطح پر تحفظ دے سکتا ہے۔

سیاست دانوں کو قوم میں ایک سوچ اور فکر مضبوط بنانی یا قائم کرنی ہوگی کہ ان کی سیاست، جمہوریت اور جدوجہد کا بنیادی ماخذ عملاً عام آدمی کی سیاست کو مضبوط بنانا ہے۔ کیونکہ اس وقت بڑا چیلنج یہ ہے کہ جس طرح سے عام آدمی کی زندگی مشکل بن رہی ہے اسے کیسے ہم حکومتی یا ریاستی سطح پر سیاسی، قانونی او رمالی تحفظ دے سکتے ہیں۔ کیونکہ جب کوئی بھی سیاسی نظام عوامی ساکھ قائم نہیں کرتا اور لوگوں کا ریاستی یا حکومتی نظام پر اعتماد بحال نہیں ہوتا تو بڑی تبدیلی کا عمل ممکن نہیں ہو سکے گا۔ لیکن کیا اہل سیاست سمیت طاقت کے مراکز عوامی مفادات کو بنیاد بنا کر کچھ بڑے کڑوے فیصلے کرنے کے لیے تیار ہیں، اگر نہیں تو کچھ تبدیل نہیں ہو سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments