ڈی آئی جی کی محبوبہ ( 5 )


چوتھی قسط کا آخری حصہ

میڈا سانول مٹھڑا، شام سلونا
من موہن جانان وی توں۔

میرے جانو تم کہاں جانو کہ محبت نغموں، دعاؤں اور کہانیوں میں گھر بناتی ہے۔ بینو کا یہ اہتمام کہیں اور ہوتا تو پرانی دوست ضویا ڈاہا کی پھٹے چک دینے والی بات سچی نکلتی مگر ظہیر کے ساتھ یہ معاملہ محض سلگتے صحرا پر برسات کا ایک بے فیض چھڑکاؤ ثابت ہوا

٭٭٭ ٭٭٭

منگل کی صبح فجر کی نماز کے فوراً بعد ٹیپو جی ان سب کو لینے آ گئے۔ بینو نے ان کی کافی بنائی۔ اتوار کی شب مہندی والی سجاوٹ تو نہ تھی مگر گہرے نیلے رنگ کے کھلے کرتے، پاجامے اور آسمانی نیلے رنگ کے دوپٹے ایسا لگتا تھا کہ وہاڑی میں انسانی روپ میں قیمتی نیلم کی کوئی کان دریافت ہوئی ہے۔

بینو کی مرضی تھی وہ چست جینز، ٹی شرٹ اور لیدر کی جیکٹ پہنے مگر فجر کی اذان پر ظہیر نے الماری کے باہر ہینگر پر لٹکا یہ پہناوا، یہ اہتمام، دیکھ کر کہا گھر کے اندر اور بے تکلف سہیلیوں کی محفل میں ایسا لباس او۔ کے ہے مگر ٹیپو ایک بہت ہی ذمہ دار حساس سرکاری ادارے کے افسر ہیں۔ ان کو لگے گا تم بہت Available سی عورت ہو۔ اس حرکت کا وہ غلط مطلب نکالیں گے۔ ان کے ساتھ سیکورٹی کے لوگ بھی ہوں گے جو اس وضع قطع کی تشہیر کریں گے۔ پلیز یہ شوق پھر کبھی جب ہم لاہور میں دونوں ساتھ ہوں بٹ ناٹ ٹوڈے۔ آج خاص طور پر لباس میں وقار، موقع کی موزونیت، عبایہ اور سر پر دوپٹہ لازم ہے۔

بینو نے کہا سائیں میڈا سرکاری اداروں کے بھی جذبات ہوتے ہیں یہ تو ہم کو پہلی دفعہ پتہ چلا۔ سرکاری ادارہ تو عوام دوست، ایفی شنٹ اور فیض رساں ہونا چاہیے۔ چلو آپ کی بیوی، آپ کی مرضی۔ میرے قبلہ، کعبہ، مسجد، مندر۔ میری مہندی، کجل، بیڑہ، پان وی تو۔

جس وقت کافی کی پیالی ٹیپو لے کر وہ کچن سے آ رہی تھی ظہیر عین اس وقت اپنا بیگ لینے کمرے میں گیا۔ پیالی سامنے لاتے وقت بینو کی نگاہیں ٹیپو سے دوچار ہوئیں تو اس کے نسوانی ادراک نے باخبر کیا کہ یہ ساری رام لیلا اسے اپنا بنانے کے لیے رچائی گئی ہے۔ لوئر مڈل کلاس کی لڑکی تو کلبلاتے ارمانوں کی ایک پوٹلی ہوتی ہے۔ اس آگاہی نے اس میں مسرت کا ایک نچلے درجے کا طوفان جگایا۔

روانہ ہوئے تو سرکاری گاڑی، پروٹوکول کیا کچھ نہ تھا۔ ظہیر، ٹیپو کے برابر اگلی نشست پر ان کی مہربانیوں کے بوجھ تلے متاثر و ہراساں بیٹھا تھا۔ بینو کے امی، ابو پچھلی سیٹ پر اس کے ساتھ ہی بیٹھے تھے وہ خود ٹیپو کی نشست کے پیچھے کھڑکی کے ساتھ لگ کر بیٹھی تھی۔ اسے موقعہ مل گیا۔ سو گاہے بہ گاہے ٹیپو کو دیکھتی رہی۔ کبھی آئینہ عقب نما میں تو کبھی سائیڈ ویو مرر میں۔ افق پر اجالا پھیل رہا تھا۔ اس خورشید حیات افزا کی اولیں کرنیں جب بینو کہ رخ تاباں پر رقصاں ہوئیں تو لگا کہ اس کی زندگی میں رفاقت کا ایک نیا سورج طلوع ہو رہا ہے۔

یہ پہلا موقع تھا جب اس نے جی جان سے کسی مرد کو دیکھا تھا۔ اس دیدہ دلیری میں کئی مرتبہ بینو کو یوں لگا کہ اس کے وجود کی شب تنہائی میں جذبات کے شریر بچوں کے ایک گروپ نے شب برات کھل کر منانے کی ٹھان لی ہے۔ ہر طرف مختلف شدت کے زوردار، ہلکے دھماکے ہو رہے تھے۔ سائیڈ ویو مرر میں جب دونوں کی نگاہ ملتی تو یوں لگتا کہ اس کی ناف سے گاہے بگاہے ایک راکٹ پھلجڑی شوں شوں کر زمین پر تیزی سے گھومتی، بچوں کے دائرے کو خوف سے پرے کرتی ست رنگ ستارے بکھیرتی بلند ہو کر دل و دماغ کے آسمانوں میں گم ہو رہی تھی۔ لطف و کرم کی اس لذت دید، نے بینو کے مزرع دل میں ہزارہا تخم امید بو دیے ہیں شاید وہ ایک آدھ مرتبہ دھیرے سے مسکرائی بھی۔

ٹیپو کو بھی لگا کہ بینو ایک ایسی ہرنی ہے جس نے شیر کو شکار کیا ہے۔ نگاہوں کے اس Most favored Person کے اعلی سطحی معاہدے کے طے پاتے وقت بینو کے ہونٹوں پر چند مرتبہ اور پلکوں تلے بارہا ایسی مسکراہٹ جگمگائی جس کا دباؤ ٹیپو کے لیے سمارٹ فون کے اسکرین کے ٹچ جیسا، پیغام رساں تھا۔ بہت کچھ ادھر ادھر ہو گیا۔ صرف وہ دونوں ہی جان پائے۔ امی کے اصرار پر بینو نے گھر کے دالان میں ہی نکلتے وقت اپنے اوپر عبایہ انڈیل لیا تھا۔ ٹیپو کو لگا کہ وہ جو اتوار کی رات مہندی سے واپس بلائی گئی قتالہ اس کے ہوش و حواس پر طاری ہے۔ وہ جو اس وقت پچھلی نشست پر براجمان ہے۔ وہ در اصل قیمتی شراب کی وہ بوتل ہے جسے جوٹ کے تھیلے میں لپیٹ کر کسی شاطر خدمت گزار نے دوسروں کی نگاہ سے محفوظ رکھنے کے لیے بڑے صاحب کی گاڑی میں رکھ دیا ہے۔

لاہور وہ کئی دفعہ پہلے بھی آئی تھی مگر اس شان و شوکت سے نہیں۔ امریکی بحری بیڑے کے جہاز جتنی بڑی خوشبو اور ٹھنڈک سے رچی بسی سیاہ جیپ۔ اسے پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ بندے کے پاس دولت پلے میں ہو تو خوشیاں بھلے ملیں نہ ملیں تکالیف کی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ آپ کو بے بسی کی حالت میں بھوکے لکڑ بگوں (ہائناز) کی طرح زندہ بھنبھوڑ کر رکھ دیں۔ غم و اندوہ کی گھڑیوں میں رکشے یا منی بس میں روتے روتے، آنے جانے میں اور مرسڈیز یا رینج رور میں ٹشو پیپر کا ڈبہ برابر رکھ کر چپ چاپ رونے میں کتنا فرق ہوتا ہوگا۔

لاہور میں بھی جہاں وہ عارضی طور پر ہی سہی کچھ دیر کے لیے قیام پذیر ہوئے وہ کسی کاروباری ہستی کا پرائیویٹ بنگلہ تھا۔ ظہیر نے کہا اپنے پنجابی تاجر لوگوں کی مہمان داریاں بہت ہوتی ہیں۔ برائی کی محافل میں دھندہ جنم لیتا ہے اور دھندے کی گود میں برائی پلتی ہے۔ کراچی میں ان کے کاروباری شراکت دار تو لاہور میں کتوں کا شو ہو کہ بسنت، یا پی ایس ایل کا کوئی میچ۔ جھٹ سے ندیدے ٹکٹ لے کر یہاں آ جاتے ہیں پھر رات کو پارٹیاں مجرے۔ پنجابی بزنس مین کھلا ڈلا

ہے۔ کراچی والوں کی طرح سوم نہیں۔ ظہیر بن پوچھے بتا رہا تھا کہ سیالکوٹ والوں کو اپنے دورے میں کراچی میں ٹی وی ڈرامے کی کوئی اداکارہ یا ماڈل پسند آئے تو کراچی والے اسے منگوانے کی بجائے کہہ دیں کے اس ڈرامے کی سائیڈ ہیروئین یا نئے گھی یا پراجیکٹ والی ماڈل موجود ہے۔ وہ بھی ایک دم وی۔ آئی۔ پی۔ اسٹف ہے۔ ایک دم شعیب اختر کی یارکر جیسی، سیدھی ٹانگوں میں آنے والی۔ آپ والی فیورٹ کی ماہانہ مجبوریاں ہیں۔ ظہیر کو پتہ تھا بینو کو شیعب اختر کے پہلے اور آخری اوورز بہت پسند تھے۔

بینو نے پوچھا ”وہ سائیڈ ہیرؤئین یا نئی ماڈل کیوں؟“ ۔ ”ارے بھئی وہ سستی ہوتی ہے دھندے میں نام بکتا ہے“ ۔

بینو نے چھیڑا۔ ”اب سمجھ میں آیا کہ مجھے لاہور کیوں نہیں بلاتے۔ ٹوانہ جی کے لیے تم بھی ایک دم وی۔ آئی۔ پی۔ اسٹف ڈھونڈنے میں لگے رہتے ہوگے۔ ان کے بھی کراچی سے بہت مہمان آتے ہوں گے۔“

بنگلے پر اس وہاڑی گروپ کی آؤ بھگت اور میزبانی ایسی کہ گویا پرنسس ڈائینا اور اس کے بچے لاہور آئے ہوں۔ وہاڑی سے وہ فجر کے بعد نکلے تھے میجر صاحب کے میزبان نے ناشتے پر کوئی تو کسر چھوڑی ہو۔ مالکان خود تو موجود نہ تھے مگر اسٹاف تو واری واری تھا۔ ٹیپو تو اپنی کسی میٹنگ میں چلے گئے۔ یہ سب شام تک گھومتے رہے۔ وہ دو مزارات اور ایک دو بڑے اسٹوروں پر بھی گئے۔ کچھ خریداری بھی کی۔

ایک مزار پر پر والدہ نے بینو کو یاد دلایا کہ وہ سہاگ کی سلامتی اور جلد اولاد کی دعا کرے۔ بینو نے ماں کی بات کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیا اور انگریز ی میں دعا کی کہ Allah jee، I adore Tipu jee۔ Please make it safe and best for both of us۔

بینو کو دعا کے اختتام پر عادتاً منھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اپنے اس مسخرے پن پر ہنسی آئی تو قریب کھڑی ایک مسٹنڈی سونٹے لہراتی میلی سی عورت نے جو مزار کی باؤنسر (باؤنسر وہ ڈشکرے جو کلب کے باہر اور اندر ہنگامہ کرنے والوں کو اٹھا کر باہر پھینک دیتے ہیں) بنی ہوئی تھی

اس کے سر پر دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے پنجابی میں کہا ”دھیئے سمجھ تیری دعا قبول ہو گئی“ ۔ بینو نے پوچھا کہ ”وہ کیسے؟“ تو عورت کہنے لگی ”دعا دے اخیر وچ ہنسی دا مطلب ہے ایتھے دا بابا تیرے توں تو خوش ہو گیا جے“ ۔

اس دل خوش کن یقین دہانی کے لیے بینو نے پچاس روپے کا نوٹ دیا تو وہ پسر گئی کہ پچاس نہیں سو روپے لے گی۔ تینوں تے میں بابے ولوں اینی وڈی خوش خبری دیتی اے۔ ماں نے اپنی طرف سے پچاس روپے یہ کہہ کر دیے کہ ”بابے نوں کل فیر یاد دلائیں کہ کم چھیتی (جلدی) ہونا چائیدا اے۔

بینو نے یہ بات سن کر پر اپنی والدہ کو پھر انگریزی میں کہا
Mom sometime you are so funny.
مزار کا دالان عبور کرنے کے دوران اس کی امی کو یاد آیا کہ بھائی نے امی کو سعودی عرب سے اپنی مدت ملازمت میں توسیع ہو جائے اس کے لیے دعا کا کہا تھا۔ سو وہ ایک مرتبہ پھر مزار کی جالی کی طرف لپکیں۔ بابا جی کی اسی افسر مہمانداری کو ایک نوٹ اور دیا تو اس نے انہیں لائن سے ہٹ کر اپنے پاس کھڑا کر لیا کہ رج کے دعا مانگیں۔ ایک دو خواتین نے اس قطار شکنی پر چیں چیں کی تو وہ عورت انہیں ڈانٹ کر کہنے لگی۔ یہ باہر کے مہمان سید لوگ ہیں۔ با با کی اولاد کو برا بھلا کہا اور بابا جی ناراض ہو گئے تو گھر میں جھاڑو پھر جائے گی۔ چپ کر کے کھڑی رہو۔ بابا جی یہاں پر ہی لیٹے ہیں کہیں اٹھ کر شہباز شریف سے ملنے نہیں جا رہے۔

وہ ایک کونے میں اطمینان سے اپنی انگریزی کے اس غیر متوقع دورے پر حیرت کرنے لگی مگر اس نے سوچا اردو میڈیم دعاؤں کے ثمرات بھی اردو میڈیم ہی ہوتے ہیں۔ رکشوں، سوزوکیوں کے پیچھے دعائیہ کلمات جیسے خام اور بے سوادے۔ ، تھوڑا ہے تھوڑے کی ضرورت ہے۔ یہ سب میری ماں کی دعا۔ میرے نصیب میں اے دوست تیرا پیار نہیں قسم کے۔ یہ سوچ کر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ اس کے ابو کہتے تھے بڑی دعا مانگا کرو۔ ظہیر کے مل جانے کے بعد سرکاری اسکول کی ایک جونئیر استانی کے لیے حساس ادارے کے طاقت ور اداکار جان یمان جیسے، ٹیپو سے بڑی دعا اور کیا ہو سکتی تھی۔ ابو کسی کا قصہ سناتے تھے کہ ایک میراثی کے گھر کے آنگن میں ایک چھوٹا سا تلسی کا پودا تھا۔ روز کسی مزار پر دعا مانگ کر آتا کہ یہ پودا سونا کا ہو جائے۔ ایک صبح پودا واقعی گملے سمیت سونے کا ہو گیا۔ ناچتے ہوئے مزار پر پہنچا اور کہنے لگا کہ مرشد آپ بھی کمال ہیں ایک مصلی، مراثی پر اتنا کرم۔ پودا گملے سمیت سونے کا بنا دیا۔ اندھے ہوجائیں وہ لوگ جو آپ کی توہین کرتے ہیں اور یہاں آ کر چھوٹی چھوٹی دعائیں مانگتے ہیں۔ اگلی صبح اٹھا تو خود اندھا ہو گیا تھا۔ بینو کو لگا کہ انگریزی میں ہی سہی مگر ٹیپو اس کے لے بڑی دعا ہیں۔ زنانہ حصے سے باہر نکلے اس کے والد بریانی زردے کا ایک شاپر پکڑے کھڑے تھے۔ نیاز کی یہ تھیلی انہوں نے ظہیر کے سامنے ہی بینو کی والدہ کو یہ کہہ کر دی کہ کوئی بانٹ رہا تھا۔ ان لوگوں نے یہاں منت مانگی تھی۔ ان کے گھر سات سال بعد بیٹا پیدا ہوا ہے۔ وہ یہاں اس پر مسرت موقعے پر منت کی نیاز تقسیم کرنے آئے تھے۔ نیازمند بتا رہے تھے کہ وہ بھی ہر طرف سے مایوس ہو کر یہاں آئے تھے تب انہیں بھی کسی نے ایسی ہی نیاز کی تھیلی دی تھی۔

نیاز کی بریانی زردے کی تھیلی اس کے والد نے ظہیر کے سامنے ایک آس بھری خفیہ حکمت عملی کے تحت اس لیے بھی دی کہ شاید اس خوراک شفا اور ویاگرائے مقدسہ کو کھا کر ظہیر کا سویا ہوا مرد بیدار ہو کر ان کی اس جوان سال، خوش خصال، بیٹی کو جو مذہبی رہمناؤں کو اپنے جسم کے Curves سے شاہراہ زندگی پر راستہ بھلا دے اسے کھا کر وہ بینو پر بستر میں ٹوٹ پڑے اور وہ سال کے آخر میں نانا بن جائیں۔

اس پر شوخ و سنگ بینو نے ماں کو کہا ہماری شادی کو تو ابھی دو سال ہی ہوئے ہیں۔ میں نے اتنی جلدی ماں نہیں بننا۔ عورت کا فگر خراب ہوجاتا ہے۔ ماں نے باپ کو دوڑایا کہ پوچھ کر آئے کہ نیاز مرد نے کھانی ہے کہ عورت نے۔ نیاز تقسیم کرنے والا بہرہ مند و شاد کام مرد تب تک وہاں سے جا چکا تھا۔ جس پر بینو کی والدہ نے ڈانٹا کہ ہر کام ادھورا کرتے ہیں۔ یہ سن کر باپ نے کہا کہ ہمارا کام بغیر منت مانگے ہو گیا تھا۔ مجھے کیا پتہ کہ اس نیاز کو کس نے کھانا ہے۔ جیپ کیوں کہ مزار سے دور سڑک پر کھڑی تھی لہذا چلتے چلتے بینو نے ظہیر کو چھیڑا نیاز آپ کھائیں گے یا مجھ دکھیاری برہا کی ماری کا کام بھی بغیر نیاز اگر بتی جلائے بھی ہو جائے گا۔ ظہیر کو یہ طنز اچھا نہ لگا مگر پی گیا تو ظہیر سے بینو نے کہ اس کا ہاتھ دبا کر کہا

You are my baby and I love u janu. Just kidding
جس پر ظہیر نے اسے بہت آہستہ سے ہاتوں میں ہات تھام اس کی انگلی کو ہلکے سے مروڑ کر آہستہ سے کہا، دعا سے بہتر کوئی امید نہیں۔ جو مانگا ہے۔ وہ جلد سویر ضرور ملے گا۔ بینو یہ سن کر ہل گئی

شام کو جب وہ بنگلے پر واپس پہنچے تو ٹیپو جی موجود تھے۔ بنگلہ کے مالک بھی موجود تھے ٹیپو نے بینو کی فیملی کا تعارف یہ کہہ کر کرایا کہ ڈی آئی جی محمود ٹوانہ کی پھوپھو صاحبہ اور ان کی فیملی ہے۔ کمرے میں جب وہ اپنا سامان ٹھیک کر رہے تھے تو بینو کو محسوس ہوا کہ ظہیر کچھ گم گشتہ سا ہے۔ قدرے ہارا ہو بھی خاصا سہما سہما سا۔ اس نے بہت سوچا کہ وہاڑی سے لاہور آتے وقت سرکاری جیپ کے ٓآئینوں کے شیش محل میں گستاخ نگاہوں کی انارکلی کے رقص الفت سے کہیں کچھ اشارہ تو نہیں پا لیا۔ یہ خیال تو اسے دامن گیر نہیں کہ وہ اس سفر میں اپنی منکوحہ کو ٹیپو کے ہاتھوں گنوا چکا ہے۔ اس نے سوچا واپسی پر وہ کوشش کرے گی کہ وہ دروازے والے سائیڈ پر پچھلی نشست پر بیٹھے گی۔

شام کو ظہیر کی مرضی تھی کہ وہ سب اس کے بغیر لوٹ جائیں۔ بینو نے ضد کی کہ وہ بھی ساتھ چلے۔ اس ضد کا مقصد ظہیر کو ٹیپو کے بارے میں بن کہے اپنی قربت کا بھرپور احساس دلا کر پیدا شدہ خدشات کو دور کرنا تھا۔ ٹیپو بھی اس کی ضد کا مقصد بھانپ گئے کہنے لگے کل کچھ لوگ لاہور ڈی این اے۔ Profiling کے لیے بھیجنے ہیں۔ پولیس اسکارٹ کی گاڑیاں ساتھ ہوں گی۔ ان میں ظہیر بھی ان کے ساتھ واپس آ جائے اس کی سیکورٹی کلئیرنس ہے۔ بینو کے دل میں آئی کہ وہ بھی مذاقاً پوچھ لے کہ اس کی بھی سیکورٹی کلیئرنس ہو گئی ہے یا نہیں مگر اسے لگا کہ یہ مذاق بریانی زردے کی نیاز والی حدود سے بہت دور صحرائے انا میں ظہیر کی مدافعت کے قافلوں پر براہ راست شب خون مارے گا۔ ظہیر ٹیپو کے سامنے یوں بھی اسے بہت Vulnerable اور بے بساط لگتا تھا۔ ایک ہارے ہوئے مس میچ کھلاڑی کی باڈی لینگویج والا۔

واپسی پر اس کے ابو سامنے والی نشست پر اور وہ جڑ کر ظہیر کے ساتھ بیٹھ گئی۔ کوشش وہی کہ ظہیر کو یہ نہ لگے کہ اس کی پتنگ کٹ گئی ہے۔ لمبی ڈھیل سے اب بھی اس بات کو سنبھالا جاسکتا تھا ہر چند کہ ٹیپو نے اس سفر میں بینو کے دل میں مزید جگہ گھیر لی۔ راستے بھر وہ کبھی ظہیر کی خاموش ٹھنڈی، بے سخن انگلیوں سے کھیلتی رہی تھی تو کبھی اس کے کاندھے پر سر رکھ کر جھوٹ موٹ سوتی رہی یا کئی دفعہ اس کی قمیص کی آستین اوپر کر کے اس کے کلائی سے کہنی تک کے بال نرم چٹکیوں سے نوچتی رہی۔ ظہیر کو وہ کس حد تک اپنی وابستگی میں ٹیپو سے لاتعلق ظاہر کرنے میں کامیاب رہی اس کا اسے فوری طور پر ادراک نہ ہوا۔ (جاری ہے)

اقبال دیوان
Latest posts by اقبال دیوان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 99 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments