یہ دار و گیر کیا ہے؟


\"\"

بھینسا، موچی، روشنی کی مختصر تحاریر سوشل میڈیا خاص طور پر فیس بک پر دکھائی دے جاتیں۔ پڑھ لیتے تھے، اتفاق کر لیتے تھے، منہ بنا لیتے تھے، غصے بھی ہو جایا کرتے تھے اور بعض اوقات یونہی سی بات سمج کر نظر انداز کر دیا کرتے تھے۔ ان میں سلمان حیدر تو خیر شاعر ہیں، وہ بھی غائب۔ غیاب پر شور مچا۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ لوگوں کو اغوا کرنا حکومت کی حکمت عملی نہیں ہے جس کا یہ مطلب بھی لیا گیا کہ پھر ہئیت مقتدرہ کے کسی اور شریک کی ہو سکتی ہے۔

اب بھینسا نام کا موجودہ فیس بک پیج لگتا ہے کوئی مولوی چلا رہا ہے۔ موچی غائب ہے، روشنی مسدود، ہاں البتہ سلمان حیدر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ”اسے کسی وقت سامنے لے آیا جائے گا“ اس کا یہ مطلب بھی لینا غلط نہ ہوگا کہ اس کا انجام صحافی شہزاد سلیم والا نہیں ہوگا۔

یہ افراد فرضی ناموں سے اپنی فکر کا پرچار کر رہے تھے۔ کچھ لوگ جنہیں یہ بھی معلوم، نہیں کہ ”بھینسا“ کے نام سے مبینہ طور پر ننکانہ صاحب کا ایک بلاگر لکھتا تھا، انہوں نے سلمان حیدر کی تصویر لگا کر اس کے گلے میں رسی ڈالی اور لگا دیا فیس بک پر کہ ”بھینسا“ کو پھانسی دو“۔ پھانسی سے کم پر تو قوم مصالحت ہی نہیں کرتی۔ دنیا میں موت کی سزا کم و بیش ختم کر دی گئی ہے مگر ہمارے ہاں پھانسی دیے جانے کو ”ٹاک شو“ سمجھ لیا گیا ہے۔

پھانسی کی وجہ کیا بتائی گئی، بلاسفیمی یعنی توہین رسالت۔ شاید بھینسا کی ہی پوسٹ پر امہات المومنین کے نام، بوقت عروسی ان کی عمریں اور ان سب کے آقا ختم الرسلؐ کی ان کے ساتھ عقد کے وقت عمر کی تفصیل دی گئی تھی۔ (شاید مصنف کے علم میں نہ ہو مگر ہماری نظر سے مبینہ طور پر بھینسا پیج کی بنائی گئی کچھ ایسی پوسٹیں گزری ہیں جن کا مقصد محض گستاخی اور دل آزاری تھا اور معاملہ محض عمروں کے بیان تک محدود نہیں ہے: مدیر)  یہ تمام تفصیل تواریخ میں ملتی ہیں۔ قاسم فرشتہ اور ابن خلدون کو پھانسی دیے جانے کا کسی نے بھی مطالبہ نہیں کیا تھا۔ یہ مورخ طبعی عمر پا کر فوت ہوئے تھے اور ان کی تعظیم و احترام بھی برقرار رہے تھے۔

عام لوگوں کی عقیدت پر مبنی جذباتیت تو سمجھ آتی ہے کیونکہ ان کا علم ناقص ہے اور انہیں ناقص علم فراہم کیا جاتا ہے۔ آج ہی جس مسجد میں میں جمعہ پڑھتا ہوں وہاں کے مولانا نے تاریخ اسلام کی دو غلطیاں کیں۔ ایک تو انہوں نے جنگ احد مسلمانوں کو جتوا دی، دوسرے انہوں نے ام جمیل کو جو ابولہب کی اہلیہ تھی کو ابوسفیان کی بیوی ہندہ سمجھ کر اس سے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کا جگر چبوا دیا۔ میں بھی خاموش رہا۔ دوسروں کو بھی یہ غلطیاں محسوس ہوئی ہوں گی لیکن لوگوں کی اکثریت مولوی صاحب کے کہے کو سچ جان کر سبحان اللہ اور نعوذ باللہ کر رہی تھی تو کیا منبر سے پرچار کرنے والا یہ مولوی یا بہت سے دوسرے مولوی گردن زدنی ہو گئے؟

جو بات پریشان کرتی ہے وہ بلاگرز کو اٹھانے والوں کی نفسیات، مقصد اور علم سے متعلق گنجلک ہے کہ کیا وہ بھی مسجد میں بیٹھے ہوئے عام لوگوں کی طرح ہیں یا ان کے کچھ خاص مقاصد ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ لوگوں تک ایک خاص طرح کا علم پہنچے، دوسری کوئی بات نہ پہنچ پائے؟ اگر یہ لوگ ایسا سمجھتے ہیں تو کلی طور پر غلط سمجھ رہے ہیں۔

طبیعیات کا ایک اصول ہے کہ ”عمل اور ردعمل برابر ہوتے ہیں لیکن مخالف سمتوں میں“۔ یہ اصول عمرانیات پر بھی صادق آتا ہے۔ دنیا میں ظلم و جبر کی ایک حد ہوا کرتی ہے جس کے بعد ردعمل شروع ہو جایا کرتا ہے۔ ارجنٹائن میں فوجی جنتا کے عہد میں جمہوریت کی آوازوں کو دبائے جانے کی خاطر تقریباً تیس ہزار نوجوانوں کو غائب کیا گیا تھا۔ جمہوریت بحال ہونے پر فوج نے آٹھ ہزار جوان غائب کرنے کا اقرار کیا تھا۔ فوجیوں پر مقدمے بھی چلے تھے اور سزائیں بھی ہوئی تھیں۔

نہ تو پاکستان ارجنٹائن ہے اور نہ ہی آج کی دنیا کئی عشروں پہلے کی دنیا رہی ہے۔ آج چار لوگ غائب ہوتے ہیں تو سوشل میڈیا مین سٹریم میڈیا، پارلیمانوں اور تمام نوع کے سیاستدانوں کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔ وہ چار و ناچار حکومت سے جواب طلبی کرتے ہیں۔ حکومت کچھ بھی ہو کم از کم آئیں بائیں شائیں کرکے اپنی کم ہمتی کا اظہار کرتی ہے اور کسی اور کے قوی ہونے کی دلیل بنتی ہے۔
پاکستان چین بھی نہیں ہے کہ یہاں آپ سوشل میڈیا پر کڑی نگرانی کر سکیں۔ چین نے اپنی آبادی کے ایک بڑے حصے کو زندگی کی سہولتیں دے رکھی ہیں اور ایک دوسرے بڑے حصے کو کمیونسٹ حکومت کی سختی کے ساتھ دبایا ہوا ہے۔ پاکستان میں نہ زندگی کی سہولتیں ہیں اور نہ کمیونسٹ پارٹی کی مطلق العنان حکومت۔ تو پھر وہ کون ہیں جو مساجد کے منبروں سے انتہا پسندی کا پرچار کرنے والے ہزاروں مولویوں کے خلاف تو کچھ نہیں کر سکتے ہاں البتہ دوچار بھینسے، موچی وغیرہ اٹھا لیتے ہیں۔ مولوی اٹھائیں گے تو متبادل لانے پڑیں گے اور مولویوں کے عقیدت مند مذہبی جنونیوں کی غضبناکی علیحدہ سہنی پڑے گی۔ دوچار بھینسے اور موچی اٹھا لینا کام کو قدرے آسان کر دیتا ہے۔ مگر یہ بھی تو معلوم ہو کہ ایسا ہلکا پھلکا کام کرنے کا مقصد کیا ہے۔ بھینسے سدھانا، موچیوں کو کفش ساز بنانا یا کچھ اور۔ بڑے بھائی کچھ بولو تو سہی یا تم بھی ان کی طرح ڈرتے ہو جن کو۔ ۔ ۔ خیر زیادہ دیر تک کوئی چپ نہیں رہ سکا کرتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments