استاد عمل خان کا سماج سدھار اسلحہ اور عشق محبت


پنجابی حساب کتاب سے نور پیر کا ویلا یعنی فجر کا وقت تھا جب گھنٹی بجی۔ یا حیرت۔ اس وقت کون آ گیا۔ دروازہ کھولا تو دلبر کھڑا تھا۔ اس نے کچھ کہنے کا موقع ہی نہ دیا اور کہا چل، نکل، کہیں جانا ہے۔ پوچھا بھی کہ ابے کدھر جانا ہے۔ جواب نہ ملا۔ خیر منہ دھویا، کپڑے بدلے اور روانہ ہو گئے۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی دلبر کی بکواس شروع ہو گئی کہ یار گاڑی کا انجن بدلا تھا اس کی رسید بھی چیک کروا کر بنوا لی تھی اب فون آ گیا ہے ایکسائز والوں کا کہ انجن چوری کا ہے صبح سویرے پیش ہونا ہے۔

یہ سن کر ہمارا دل بیٹھ گیا کہ اب ہم شریک ملزم کے طور پر گرفتار ہونے جا رہے ہیں لیکن گاڑی تو شہر سے باہر جا رہی تھی۔ پوچھا کہ کدھر جا رہے تو دلبر نے جواب دیا تمھارے ماما کے پاس۔ ماما کا نام سن کر اطمینان اور سکون کی اک لہر ہمیں بہا کر لے گئی۔ ہمارے صوبے میں تمام حرام توپ کاموں کے لئے آئی جی کا اعزازی عہدہ انہی ماما صاحب کے پاس تھا۔ ہمارا ان سے رشتہ کسی صورت سمجھ آنے کا نہیں البتہ وہ ہمارے ماما ہیں اور ہم ان کے بھانجے۔

ایک اہم سرکاری محکمے میں وہ گریڈ پانچ کے سرکاری افسر ہیں اور چھوٹے چھوٹے ڈائریکٹر وغیرہ وہ بغیر اشارے کے برطرف اور ٹرانسفر کرتے رہتے ہیں۔ ماما حسب معمول اپنے ہیڈ کوارٹر جو بظاہر اک آٹھ بائی آٹھ فٹ کا ایک پبلک کال آفس دکھائی دیتا ہے میں موجود پائے گئے۔ بڑے تپاک سے ملے اور پوچھا کہ ’وایا بیا دے سہ کڑی دی‘ ( ہاں بولو، اب پھر کیا کر دیا ہے ) ۔ انہیں بتایا تو خوش ہوئے اور پوچھا کہ اس گھٹیا کام کے لئے آئے ہو ساتھ ہی دلبر سے سرکاری رسید پکڑ کر اس میں انجن نمبر پر ایک کا عدد اضافی ڈال دیا۔

فون کر کے اک مشٹنڈے سے مستری کو بلایا اور اسے بولا کہ انجن پر جہاں نمبر لکھا ہوا اس پر بھی ایک کا عدد ٹھونک دے۔ وہ یہ کارنامہ کر کے واپس آ گیا۔ ماما نے دلبر سے بولا معمولی کام ہے لیکن ہزار روپیہ نکال۔ مفت کام کرنے سے عادت خراب ہوتی ہے۔ دلبر کو مزید ہدایت دیتے ہوئے ایکسائز میں ایک کلرک کا نام بتایا کہ اس کے پاس جانا۔ اب اس کو رسید دکھانا جس پر نیا عدد جگمگانے لگ گیا تھا اور انجن نمبر بھی تبدیل ہو چکا تھا رسید کے مطابق۔

ماما نے کہا اسے میں فون کر دوں گا اسے دو سو روپے دینا۔ وہ اپنے سرکاری کاغذات کو رسید اور انجن کے مطابق کر لے گا۔ میں نے پوچھا ماما اور اصل مالک کیا کرے گا جواب ملا ’آ بہ۔ ورکئی‘ یعنی وہ اپنی عزت لٹوائے گا۔ ماما کو کتنا درست اندازہ تھا سرکاری دفاتر میں ہونے والی رذالت کا۔ دلبر کو رخصت کر کے مجھے بٹھا لیا ماما نے۔ ہم گپ مارتے رہے کافی دیر بعد ایک مفلوک الحال تتر بتر نظر آنے والا ایک خان ماما کے ہیڈ آفس میں داخل ہوا۔

آتے ہی اس نے اعلان کیا کہ ’زہ بہ اول آغا الک وجنم‘ یعنی میں پہلے اس لڑکے کو گولی ماروں گا۔ ماما نے کہا میں تو تمھارے لئے آلہ قتل بھی لے آیا ہوں ’پریدہ الک۔ ‘ لڑکا چھوڑ پہلے اپنی بہن کو گولی مار۔ یہ بات چیت سن کر ہی میں فوت ہونے والا ہو رہا تھا کہ ماما نے ایک عجیب الخلقت قسم کا ایک اسلحہ خان کے حوالے کیا۔ وہ نہ پستول تھا نہ اس کو بندوق یا رائفل کہا جا سکتا تھا۔ میں اس کو حیران حیران دیکھ رہا تھا کہ ماما خان کو بتانے لگا کہ یہ تمھارے لئے خاص درے سے بنوایا ہے۔

یہ دیکھنے میں پستول سا تھا۔ گولی اس میں بندوق کی پڑتی ہے اگر کسی کو لگ گئی تو وہ گولی سے مرا نہ مرا اس طمانچی کی شکل دیکھ کر ضرور مر جائے گا۔ ماما نے خان کو ہدایات دیں اور ساتھ اک عدد بھرا ہوا سگریٹ بھی پیش کیا کہ یہ گولی چلانے سے پہلے پینا ہے، تمھیں پرسکون رکھے گا۔ ایک قتل کی منصوبہ بندی میں بلاوجہ شریک ہو کر میری حالت غیر ہو رہی تھی۔ خان تو چلا گیا۔ ماما سے تفتیش کی تو اس نے کہا، کچھ نہیں یار۔ اس خان کو لگتا ہے کہ اس کی بہن کا ایک لڑکے سے چکر ہے اور یہ دونوں کو مارنا چاہتا ہے اور میں نے اس کو مشورہ دیا ہے کہ لڑکے کو رہنے دے اور اپنی بہن کو گولی مار دے۔

میں نے کہا ماما یہ ظلم ہے اور تم پر لعنت ہو۔ تمھیں بچانا چاہیے ان دونوں لڑکے لڑکی کو۔ ماما بولا لڑکا تو بچا لیا ہے۔ لڑکی بھی بچ جائے گی۔ ماما بولا اس کو جو طمانچی دی ہے اس کے بنانے والے عمل خان استاد کے کسی پستول، بندوق کی نالی سے گولی نے کبھی باہر نکل کر تازہ ہوا کا منہ تو آج تک نہیں دیکھا۔ مجھے لگا کہ ماما تسلیاں دے رہا ہے۔ اکتایا ہوا وہاں سے اٹھ کر گھر آ گیا۔ دعائیں کرتا رہا اس بیچاری لڑکی کے لئے کبھی کبھی لگتا کہ ماما نے ویسے ہی مذاق کیا ہے کوئی میرے ساتھ۔

ایک دو دن بعد ماما کا فون آیا کہ جلدی سے ہسپتال پہنچو۔ بھاگم بھاگ ایمرجنسی پہنچا تو ماما اسی تتر بتر خان کو مزید مفلوک الحال صورت میں باہر لا رہا تھا، خان باقاعدہ دیوانوں جیسی باتیں کر رہا تھا۔ ماما نے وہیں سے چرسی تکہ کی جانب جانے کو کہا۔ خان صاحب کی آنکھ پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور بڑے ڈیزائن کے ساتھ پستول کی نال بنا کر آنکھ کو نمایاں کرا رکھا تھا مجھے یقین تھا کہ یہ ڈیزائن ماما کی ذاتی دلچسپی سے ہی بنایا گیا ہے۔

ہاتھ پر بھی اک دو سٹکر لگے ہوئے تھے البتہ زیادہ درد اس کو کمر پر ہوتا محسوس ہو رہا تھا کہ بار بار اس جانب ہاتھ لے جا رہا تھا۔ تکے کھاتے ہوئے خان سے پوچھا کہ کیا ہواتھا؟ اس نے کہا یار پتہ نہیں کیا ہوا۔ میں گھر میں بیٹھا اسلحہ چیک کر رہا تھا۔ اس سے پہلے ایک سوٹا لگا چکا تھا۔ بکری بہت ہی میں میں کر رہی تھی۔ بس دماغ گھوم گیا اس پر فائر کیا۔ بہت خوفناک اسلحہ ہے۔ بکری بھی مر گئی اور میں بھی زخمی ہو گیا۔

ماما سے پوچھا ہوا کیا تھا تو اس نے بتایا کہ اسے چرس کا ایک سگریٹ دیا تھا اور بولا تھا کہ جب بہن اور بکری ایک سی دکھنے لگیں تو بکری کا نشانہ لگا دینا۔ یہ تصدیق کرنے گیا تھا کہ بکری کون سی ہے پھر وہیں گولی چلا دی جو طمانچی سمیت پھٹ گئی۔ دھماکے اور شعلے کی وجہ سے اس کی آنکھ، منہ، ناک اور کسی حد تک مردانگی وغیرہ کو نقصان پہنچا ہے لیکن ماما زیادہ تو یہ کمر پکڑ کر کراہ رہا ہے۔ ماما نے کہا کمر پر تو اس کو ماں نے کپڑے دھونے والا ڈنڈا مارا تھا کہ یہ بکری کو کیا کرنے لگا ہے۔ دھماکے سے اس کا دماغ بھی کھل گیا ہے اب بہن کی شادی اسی لڑکے سے کرا رہا ہے۔ میں نے کہا ماما یہ استاد عمل خان کا اسلحہ تو بہت ہی سماج سدھار قسم کا ہے۔ ماما بولا، ہمیشہ الٹی بات کرتے ہو، اس سگریٹ کی تعریف کیوں نہیں کرتا کمبخت۔

Jan 13, 2017

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi