کیا افغانستان کی قسمت میں جنگ ہی لکھی ہے؟


افغانستان ایک میدان جنگ ہے اور اس میں صدیوں سے جنگ جاری ہے۔

عرصہ قدیم سے افغانستان حملہ آوروں کی گزر گاہ رہا ہے اور یہ سر زمین بغاوتوں، خانہ جنگیوں اور خونریزوں کی آماجگاہ بنی رہی اور سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ افغانستان چاروں طرف سے خشکی سے گھرا زمین بند ملک ہے۔ زیادہ تر پہاڑی علاقہ ہے اس کے شمال مشرق سے جنوب مغرب تک کوہ ہندوکش کا خوفناک پہاڑی سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔ کابل سے ایک سو میل دور بامیان اور کوہ سفید کے پہاڑی سلسلے شروع ہو جاتے ہیں زمین پتھریلی ہے اور بہت کم قابل کاشت ہے۔ بلند بالا پہاڑ اونچی اونچی چوٹیاں نہ ختم ہونے والے پہاڑی سلسلے کہ جن کی وجہ سے یہاں کوئی بیرونی طاقت مستقل طور پر اپنا مستقر نہیں بنا سکی۔ ایسا معاشرہ جو اپنوں کو برداشت نہیں کر پاتا تھا وہ غیر ملکی حملہ آوروں کو کہاں برداشت کر سکتا۔ اور اسی وجہ سے نئے خیالات جدید سیاسی اور سماجی تصورات بھی یہاں جگہ نہ پا سکے اور آج بھی یہ معاشرہ قبائلی سوچ سے باہر نہیں نکل سکا جس طرح یہ علاقہ زمین بند ہے اسی طرح یہ معاشرہ ذہنی طور پر آج بھی قبائلی سوچ اور تعصبات اور فرسودہ روایات میں مقید ہے۔ ہزاروں سال قبل آریاؤں نے اس سرزمین کو تاراج کر کے آباد کیا ایرانیوں نے اپنی فوجیں لا کر ان کو بے دخل کر دیا۔ سکندر اعظم اپنے ملک میں شکست کھا کر نکلا تو ایران کو فتح کرتا ہرات کے راستے افغانستان داخل ہوا سیستان اور قندھار کو روندتا کابل پہنچا اور قتل و غارت کی سوغات دیتا وادی کنٹر سے انڈیا میں داخل ہوا اور جہلم کے مقام پر راجہ پورس کی فوج کو شکست دے کر اس سارے علاقے کو اپنی قلمرو میں شامل کر دیا ادھر چنگیز خاں صحرائے گوبی سے نکل کر اس علاقے کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتا ہے ابھی یہاں کے لوگ سنبھل نہیں پاتے کہ مسلمان فتح کے پھریرے لہراتے اس ملک نا مراد میں داخل ہوتے ہیں۔

میدان جنگ سلامت ہے۔

صدیوں بعد امیر افغانستان دوست محمد کو دشمنوں نے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے قندھار میں اس کا اپنا بھائی محمود شاہ اس کا سب سے بڑا دشمن ہے بلخ میں باغیوں نے مشکل پیدا کر رکھی ہے دوست محمد انگریزوں سے مایوس ہو کر روس سے رابطہ کرتا ہے انگریز شاہ شجاع کو امیر کابل بنانا چاہتے ہیں۔ کرنل کین اور کرنل کارٹن اور کرنل ویڈ کی سر کردگی میں انگریز فوج اور سکھ فوج پشاور اور درہ خیبر کے راستے افغانستان پر حملہ آور ہوتی ہیں خون کی ندیاں بہتی ہیں دوست محمد بھاگ کر بلخ بخارا میں رو پوش ہوتا ہے جس کو گرفتار کر کے کلکتہ بھیج دیا جاتا ہے شاہ شجاع امیر کابل بنا دیا جاتا ہے۔ دوست محمد کا بیٹا اکبر خان بغاوت کر دیتا ہے 4500 جوانوں پر مشتمل برطانوی و ہندوستانی دستے اپنے 1200 حامیوں کے ساتھ کابل روانہ ہوتے ہیں۔ برف باری، سردی کی شدت، پر خطر راستوں اور قتل عام کی وجہ سے قافلے کا صرف ایک ڈاکٹر برائڈن بچ کر جلال آباد پہنچتا ہے اور پیچھے سے شاہ شجاع کو بھی قتل کر دیا جاتا ہے انگریز فوجیں پھر آ کر قتال کا بازار گرم کرتی ہیں آخر کار نظر بند دوست محمد کو امیر افغانستان بنا دیا جاتا ہے اور جن کے انگریزوں سے تعلقات زندگی بھر اچھے رہتے ہیں لیکن امیر دوست محمد کو بھی قتل کر دیا جاتا ہے اور سلسلہ چلتا رہتا ہے حتی کہ 1919 میں امیر حبیب اللہ خان کو برطانیہ مخالف تحریک کے حامی قتل کر دیتے ہیں اور امیر امان اللہ خان سربراہ بنتے ہیں۔ اشوک اعظم کے بعد یہ ایک دس سالہ پر امن عہد ہے اور ایسا عہد جس میں ملک کا پہلا آئین بنتا ہے۔ کابل یونیورسٹی اور بے شمار تعلیمی ادارے قائم ہوتے ہیں جن میں فرانس کے اساتذہ پڑھاتے ہیں اہم قومی شاہراہیں بنتی ہیں ٹیلیگراف، ٹیلیفون، ریڈیو سٹیشن قائم ہوتے ہیں تعلیمی اداروں میں موسیقی کی تعلیم دی جاتی ہے جس کے لیے انڈیا سے بڑے بڑے موسیقار بلائے جاتے ہیں سینما گھر تعمیر ہوتے ہیں یہ اصلاحات کا دور ہے۔ امیر امان اللہ نے مغربی طرز کا نظام قائم کرنے کی کوشش کی سوویت روس میں سماجی انقلاب سے متاثر ہو کر افغانستان میں سماجی اصلاحات شروع کرتے ہیں۔ تو افغانستان کے زنگ آلودہ ذہن کے لوگ ان کے خلاف بغاوت کر دیتے ہیں اور اس بد قسمت معاشرے کو امان اللہ خان کی بجائے بچہ سقہ حکمران ملتا ہے امان اللہ خان بد دل ہو کر یورپ چلے جاتے ہیں اور وہیں وفات پاتے ہیں۔

تاریخ قدم پڑھاتی ہے۔

1978 ء میں کمیونسٹ لیڈر میر اکبر خیبر کے قتل کے بعد فوجی بغاوت میں سردار داؤد اور اس کے بھائی سردار نعیم کو ہلاک کر دیا جاتا ہے ان کی جگہ نور اللہ ترکئی ملک کا سربراہ اور حفیظ اللہ امین اس کا نائب بنتا ہے حکومت کے روس سے تعلق ہونے کی بنا پر مسلح بغاوت زور پکڑتی ہے اس دوران ترکئی کی موت واقع ہو جاتی ہے روس کو یقین ہے کہ اس کے پیچھے امریکی ہاتھ ہے چنانچہ روس اپنی فوجیں کابل میں اتار دیتا ہے اور ایک خوفناک خانہ جنگی کا آغاز ہو جاتا ہے اس میں امریکہ اور روس کھل کر مد مقابل آ جاتے ہیں جنگ جاری رہتی ہے امریکہ اسلحہ اور ڈالر پانی کی طرح بہاتا ہے خون کی ندیاں بھی جاری رہتی ہیں ایک لمبے عرصے تک یہ سلسلہ چلتا ہے اور آخر کار 15 فروری 1989 ء میں آخری روسی جرنیل دریائے آمو عبور کر کے اپنی سرحدوں میں داخل ہو جاتا ہے۔

تاریخ ایک قدم اور بڑھاتی ہے۔

11 ستمبر 2001 ء میں نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو تباہ کر دیا جاتا ہے امریکی صدر بش افغانستان میں موجود اپنے ایک لے پالک اسامہ بن لادن اور القاعدہ کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے اور اعلان کرتا ہے ”ہم اس حملے کا جواب دیں گے اور حملہ آوروں کا تعاقب کریں گے“ ترکی میں امریکی فوجی لڑاکا طیارے حرکت میں آ جاتے ہیں مزید 300 ایف سولہ اور ایف پندرہ لڑاکا طیارے 35 ہزار ریزرو فوجی روانہ کر دیے جاتے ہیں 7 اکتوبر 2001 ء کی رات امریکہ افغانستان پر چڑھائی کر دیتا ہے جس میں 58 ٹو۔ بی پر مشتمل جدید ترین طیاروں کے ذریعے 15 ہزار ٹن بارود اور کیمیائی مواد طالبان کے ٹھکانوں پر برسا دیا جاتا ہے قندھار، جلال آباد، قندوز، تورا بورا کے پہاڑوں پر کلسٹر بمبوں سے حملہ کر کے پہاڑوں کے پرخچے اڑا دیے جاتے ہیں ان گنت شہریوں کو ہلاک کر دیا جاتا ہے بے شمار طالع آزما اور جماعتیں امریکی اسلحہ اور ڈالروں کی بارش میں نہاتے ہیں اس وجہ سے بھی دھرتی کی خون کی پیاس بجھنے میں نہیں آتی سالہا سال جنگ جاری رہتی ہے آخر کار 22 دسمبر 2001 میں حامد کرزئی اس تباہ حال ملک کا صدر بنتا ہے 1989 ء میں روسی افواج کے انخلا کی طرح 2021 ء میں امریکی افواج بے نیل مرام افغانستان خالی کر چکی ہے۔

تاریخ کروٹ لیتی ہے۔

امریکی اور روسی غلبے کی 40 سالہ خونچکاں تاریخ ختم ہوئی۔ ہزاروں سال کے خون خرابے اور ماضی قریب میں افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی لاکھوں افغانی لقمہ اجل بنے کسی شہر کی کوئی عمارت ثابت و سالم نہیں رہی لاکھوں خاندان پاکستان اور ایران کے مہاجر کیمپوں میں بے بسی کی زندگی گزارتے رہے۔ اب خیال تھا کہ تمام قوتیں ایک جگہ بیٹھ کر ملک میں امن اور افہام و تفہیم کی فضا قائم کریں گی لیکن معروضی صورتحال حوصلہ شکن ہے پورے ملک کو ایک غیر یقینی صورت حال کا سامنا ہے۔ وادی پنجشیر، درہ سولانگ، بدخشاں، بامیان، سرے پل، بلخ، موز جان، فاریاب اور ہرات شمالی اتحاد کی جولان گاہ ہے۔ ان کے خیال میں طالبان کو کابل مل بھی جائے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں مشرقی صوبوں نورستان کنٹر، ننگر ہار اور پکتیکا میں داعش اور پاکستانی طالبان کی کمیں گاہیں ہیں۔ حقانی گروپ کا نیٹ ورک زیادہ تر مشرقی طرف ہے اور وسطی افغانستان کابل غزنی ور دگ اور خوست کے وسیع علاقے میں طالبان پھیلے ہوئے ہیں لیکن کسی کا کسی طور افہام و تفہیم کے جذبے سے مسائل حل کرنے کا ارادہ نہیں ہے۔ امریکہ نے کوشش کی تھی کہ طالبان اور افغانی حکومت ایک میز پر بیٹھ کر مستقبل کا کوئی لائحہ عمل سوچیں لیکن طالبان یہ کہتے ہیں کہ پہلے ہماری حکومت بحال کی جائے ہم اس میں سے تمہیں حصہ دیں گے۔ افغانی حکومت کہتی ہے کہ ہماری جمہوری حکومت ہے ہم آپ کو حکومت میں حصہ دیں گے لیکن اس وقت جمہوریت جو طرز حکمرانی کا بہترین حل ہے اس پر کوئی اتفاق نہیں ہو رہا۔ صدیوں کی غارت گری کے بعد بھی آج ہر گروہ کی انگلی کلاشنکوف کے ٹریگر پر ہے حالانکہ کوئی ایک گروہ کبھی افغانستان جیسے طبقاتی گروہی اور قبائلی سوچ کے ملک میں پر امن طریقے سے حکمرانی نہیں کر سکتا۔

طالبان کی پیش قدمی جاری ہے اور ہر جگہ افغانی مقامی کمانڈر ان کے آگے ہتھیار ڈال رہے ہیں بقول عاصمہ شیرازی طالبان آ نہیں رہے، آ گئے ہیں یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ مہذب لوگ اور خواتین اور ہزارہ اقلیت کے لوگ بے حد پریشان ہیں ان کا خون بہنے سے پہلے ہی خشک ہو رہا ہے کیونکہ شدت پسند لوگ آسانی سے ان کو موت کے گھاٹ اتار دیں گے وہ طالبان کے ظلم اور تشدد کا شکار رہے ہیں۔ خواتین کو خوف ہے کہ ان کو تعلیمی اداروں میں جانے اور دفاتر میں کام کرنے سے بھی روکا جائے گا۔ جس طرح طالبان نے اپنے دور حکومت میں خواتین کو گھر سے باہر نکلنے روز گار اور تعلیم حاصل کرنے پر پابندیاں عائد کی تھیں اور سر بازار ان کو کوڑے مارے جاتے تھے یہ کوئی نئے طالبان تو نہیں ہیں۔ طالبان کے تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے وہ جس علاقہ پر قبضہ کرتے ہیں اسے تباہ کر دیتے ہیں لوگوں کو خوف ہے کہ وہ افغانستان کی تعمیر کی بجائے اس کی تخریب پر تلے ہوئے ہیں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے افغان حکومت کی ٹیم کی رکن اور خواتین کے حقوق کی علمدار فوزیہ کوفی کو فائرنگ سے زخمی کر دیا گیا، اس پر دو قاتلانہ حملے پہلے بھی ہو چکے ہیں اسی طرح کابل میں نا معلوم افراد کی فائرنگ سے ملکی سپریم کورٹ کی دو خواتین ججوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ طالبان کو بین الاقوامی اصولوں کا کبھی کوئی خیال نہیں رہا۔ اشوک کے زمانے کی بامیان میں دنیا کی بلند ترین مورتیاں اقوام متحدہ اور دنیا کے بے شمار ممالک کی درخواست کے باوجود تباہ کر دی گئی تھیں۔ جب نجیب اللہ کی حکومت کا تختہ الٹایا گیا تو اس نے اقوام متحدہ کی عمارت میں پناہ لے لی۔ طالبان نے بین الاقوامی ضوابط کی پرواہ کیے بغیر اس عمارت میں گھس کر نجیب اللہ کو قتل کر دیا ان کی سابقہ وحشت اور دہشت کا خوف مہذب لوگوں میں جاگزیں ہے۔ بد قسمتی ہے اس ملک میں نہ والیٹر پیدا ہوا نہ روسو نہ کوئی سرسید پیدا ہوا اس لیے کوئی ذہنی انقلاب برپا نہ ہو سکا جتنے بھی انقلاب آئے وہ سب خونی انقلاب تھے۔ انسانی تہذیب کا ہر تصور ان سے کوسوں دور ہے۔

ان حالات میں فیصلہ بندوق کی طاقت کرے گی یہ وہ بد قسمت ملک ہے اس پر آج بھی قبائلی سوچ حاوی ہے۔ ہر صدی میں اس کے گلی کوچوں میں اس کے میدانوں نے تلوار کی جھنکاریں یا توپ و تفنگ کی گھن گرج سنی ہے، اس کے پہاڑوں کو کلسٹر بموں سے ریزہ ریزہ کرنے کی کوشش کی گئی اس کے باوجود دھرتی قائم رہی ندیاں اور دریا رواں دواں رہے کہسار بھی باقی رہے لیکن کروڑوں افغان لقمہ اجل بنتے رہے۔ اقبال کی خواہش تھی کہ افغان اپنی خودی کو مغربی علم و فنون سے مہذب اور تہذیب یافتہ بنائیں لیکن اس قدر ہلاکتوں اور لاکھوں انسانوں کی کئی نسلیں مہاجر کیمپوں میں ذلت آمیز زندگیاں گزارنے کے باوجود جو افغان باقی بچے ہیں وہ مہذب دنیا کے سیاسی اور سماجی ادارے قائم کرنے کی بجائے ایک نئے میدان جنگ کی بساط بچھا رہے ہیں اور جو جنگوں میں ہوتا ہے پھر سٹنگر میزائل چلیں گے، لڑاکا طیارے وزنی بم گرا کر آبادیاں تباہ کریں گے ٹینک آگے بڑھیں گے کئی سہاگ اجڑیں گے کتنے گھر تباہ ہوں گے، افغانیوں کی نسلیں موت کے گھاٹ اترتی رہیں گی پھر جو افغانی باقی بچیں گے وہ نئے میدان جنگ کا نقشہ بنانے کی فکر میں لگ جائیں گے۔ افغان باقی، کہسار باقی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments