ممنون حسین: درویش قصرِ شاہی (پہلا حصہ)


فاروق صاحب، چائے تو پی لیجیے !‘۔ جہاز اس وقت اکتیس ہزار فٹ کی بلندی پر تھا یا چونتیس ہزار فٹ کی، یہ تو یاد نہیں لیکن ایک خاص بلندی پر پہنچنے کے بعد پرواز ہموار ہو کر خوش گوار ہو جاتی ہے۔ انجن کو چونکہ کم زور لگانا پڑتا ہے، اس لیے اس آواز میں بھی یکسانیت پیدا ہو جاتی ہے جسے لوری سمجھ کر مسافر اونگھنے لگتے ہیں۔

یہ خصوصی جہاز اس وقت ایسی ہی کیفیت میں تھا اورمیں بجائے نیند کے مزے لینے کے نشستوں کے درمیان بچھی میز پر سر جھکائے تیزی سے لکھنے میں مصروف تھا۔ سامنے کی نشست پر میرے محترم و مشفق شاہد خان صاحب بیٹھے تھے جو مسکراتے ہوئے مجھے قلم چلاتے دیکھ رہے تھے اور دو ایک بار کہہ چکے تھے کہ بیٹا، اتنی ٹینشن کی ضرورت نہیں، کام انشاء اللہ وقت پر ہو جائے گا۔

 یہ خصوصی پرواز استنبول کی جانب محو پرواز تھی جہاں گزشتہ روز اسلامی سربراہی کانفرنس کا افتتاحی اجلاس ہونے والا تھا۔ صدر مملکت نے اس موقعے پر جو تقریر کرنی تھی، میں اسی کی نوک پلک سنوارنے میں مصروف تھا۔ ایسی غیر معمولی کانفرنسوں کے لیے خطابات بہت پہلے تیار کر لیے جاتے ہیں لیکن کسی وجہ سے تقریر کی تیاری میں تاخیر ہو گئی اور وہ کام جسے میں اپنے دفتر میں معاونین اور تعاون کرنے والے عملے کے ساتھ اطمینان سے کیا کرتا تھا، اب اسے میں سفر کا لطف اٹھانے کے بجائے جہاز میں ہی کرنے پر مجبور تھا۔

اسی دوران میں ہوسٹس نے چائے لا کر رکھ دی ،میں نے شکر گزار نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا اور سوچا کہ ہاتھ والا جملہ مکمل کرلوں پھر چائے کا گھونٹ بھی لیتا ہوں۔ نہیں معلوم وہ جملہ طویل ہو گیا یا جملوں کے اندر سے جملے نکلتے چلے گئے کہ چائے ویسی ہی پڑی کی پڑی رہ گئی۔ اسی دوران میرے کانوں نے وہ مہربان آواز سنی جس میں چائے کی طرف توجہ مبذول کرائی جا رہی تھی۔ میں نے چونک کر سر اٹھایا اور پھر احتراماً اٹھ کھڑا ہوا۔ یہ صدر مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان ممنون حسین تھے۔ وہ جانے کب سے سر پر کھڑے میری تگ و دو کا تماشا دیکھ رہے تھے۔

 میرے اٹھ کھڑے ہونے پر انھوں نے میرے دائیں کاندھے پر ہاتھ رکھا اور نرمی سے دباتے ہوئے کہا کہ آرام سے بیٹھ جائیے۔ میں بیٹھنے لگا تو قدم بڑھا کر وہ بھی میرے برابر بیٹھ گئے اور کانفرنس اور اس کے ایجنڈے پر بات چیت کرنے لگے۔

 میں نے اب تک جو کام کیا تھا، اس پر نگاہ ڈالی اور کچھ نکات مجھے نوٹ کرائے تاکہ میں انھیں بھی تقریر میں سمو دوں۔ 2014 ء سے قبل ایوان صدر میں متعلقہ محکموں سے لکھی ہوئی تقریر آ جایا کرتی تھیں جنھیں کم و پیش جوں کا توں ہی پڑھ دیا جاتا تھا لیکن یہ روایت انھیں پسند نہ آئی۔ یہی سبب تھا کہ ایک روز انھوں نے مجھے طلب کیا اور کہا کہ یار، میں برسوں پہلے لکھی گئی ان روایتی تقریروں سے تنگ آگیا ہوں، اس لیے یہ معاملہ تم اپنے ہاتھ میں لے لو۔

 میں نے عرض کیا کہ سر، یہ بڑی ذمے داری کا کام ہے، میں اکیلے کیسے کر سکوں گا؟انھوں نے کہا کہ میں جو ہوں، پہلے ہم تبادلہ خیال کریں گے، سوچ سمجھ کر نکات تیار کریں گے پھر ان کی روشنی میں تم تقریر تیار کر لیا کرنا۔ صدر مملکت کے حکم پریہ شعبہ میرے سپرد کر دیا گیا اور یہ کام کچھ عرصے تک کامیابی سے انجام پاتا رہا لیکن کچھے عرصے کے بعد اس کام میں رخنہ پڑ گیا کیونکہ ایک طاقت ور لابی اس نظام کے خلاف ہوگئی ، یوں رکاوٹ پڑنے لگی۔ اس تقریر میں تاخیر کی وجوہات بھی کچھ ایسی ہی تھیں اور یہ جو صدر مملکت اپنی نشست سے اٹھ کر میری نشست پر پہنچے تھے، اس میں حکمت یہ تھی کہ رخنہ ڈالنے والوں کو پیغام پہنچ جائے۔

 ممنون صاحب سے میری یاد اللہ اس زمانے میں ہوئی جب انھیں سندھ کا گورنر بنایا گیا۔ میں ایک روز اپنا موٹر سائیکل پھٹپھٹاتا ہوا گورنر ہاؤس پہنچ گیا۔ گفتگو شروع ہوئی اور محمد احمد بھائی نے تصویریں بنانے کے لیے کیمرہ سیدھا کیا تو ممنون صاحب نے کہا کہ ٹھہریے، یہ ایک عجیب سی بات تھی۔ احمد بھائی نے کیمرہ نیچے کیا تو ممنون صاحب نے دراز سے کنگھا نکالا اور مسکرا کر میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ تصویر بننے سے پہلے اپنی زلفیں تو سنوار لیجیے۔ ’اس شخص کے دل میں تو ایک دھڑکتا ہوا دل ہے‘۔ گورنری کنگھے سے بال سنوارتے ہوئے میں نے سوچا۔

 ممنون صاحب کی گورنری زیادہ عرصے تک نہ چل سکی، پرویز مشرف نے ایک شام اچانک میاں نواز شریف کی حکومت کا بوریا بستر گول کر دیا تو ان کے عہدے کی میعاد خود بخود ختم ہو گئی لیکن اسی شام انھیں پیغام ملا کہ یہ ایوان خالی کرنے کی ضرورت نہیں، آپ اپنے منصب پر برقرار رہ سکتے ہیں۔ ممنون صاحب نے یہ پیغام ایک معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ سنا ،سیڑھیاں اتر کر گورنر سیکریٹریٹ میں داخل ہوئے اور عملے سے الوداعی ملاقات کرنے لگے۔ اسی دوران میں بیگم صاحبہ کالونی میں چلی گئیں اور بڑے چھوٹے تمام عملے کے بیوی بچوں سے ملنے کے بعد واپسی کے لیے تیار ہوگئیں۔

 گورنر شپ سے فراغت کے بعد جن دنوں ہائی جیکنگ کیس چل رہا تھا، انھیں گرفتار کر لیا گیا، اس موقعے پر بھی انھیں وفاقی وزارت پیش کی گئی لیکن انھوں نے وزارت پر جیل کو فوقیت دی۔ ممنون صاحب صدر مملکت کیسے بن گئے، اس سوال میں اچنبھے کا پہلو یہ ہے کہ مسلم لیگ کی حکومت میں جب مختلف مواقع پر مناصب پر لوگوں کے انتخاب کی بات ہوتی تو وہ ہمیشہ اپنی جگہ کسی دوسرے کا نام پیش کر دیتے۔ ایک بار سینیٹ کی نشست خالی ہوئی تووہ خواجہ قطب الدین کا نام پیش کر کے پیچھے ہوگئے۔

 اسی طرح ایک بار پھر سینیٹر بننے کا موقع آیا تو انھوں نے مشاہد اللہ خان کا نام آگے کر دیا۔ میاں صاحب کے تیسری بار وزیراعظم بننے کے بعد جب منصب صدارت کے لیے نامزدگی کا وقت آیا تو اس بار انھیں اجلاس میں نہیں بلایا گیا اور ان کے نام کا فیصلہ کر لیا گیا۔ وہ اجلاس میں ہوتے تو ممکن ہے کہ اس بار بھی وہ اپنے کسی دوسرے ساتھی کو منتخب کرا دیتے۔

(جاری ہے)

بشکریہ: ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments