تھانیدار وزیر داخلہ اور افغان سفیر کی بیٹی


ملک کے وزیر داخلہ کی افغانی سفیر کی بیٹی سلسلہ علی خیل کے اغوا بارے پریس کانفرنس اور کسی گاؤں کے تھڑے ہوئے تھانیدار کی کسی مجبور غریب کی بیٹی کے اغوا پر رائے میں رتی برابر فرق نہیں تھا۔

مجھے نہیں پتا کہ یہ اغوا تھا یا ڈرامہ۔ میں یہ بھی ماننے کو تیار ہوں کہ یہ پاکستان کے خلاف گھناؤنی سازش ہو سکتی ہے۔

اس بحث میں بھی نہیں پڑنا چاہتا کہ افغانستان کی موجودہ حکومت کا ہمارے ساتھ رویہ اچھا ہے یا برا۔ مجھے نہیں علم ہماری افغان پالیسی کیا ہے؟ خیر افغان پالیسی بارے تو خود وزارت خارجہ تذبذب کا شکار ہے۔ یہ بھی ہماری بدقسمتی ہے کہ ہماری حکومتیں اور خارجہ امور کے کرتا دھرتا ہمیشہ اقوام عالم میں آنے والی کسی بھی نوعیت کی تبدیلی کے بعد اپنی واضح پالیسی دینے میں اتنے ہی تذبذب کا شکار رہتے ہیں جتنا عام پاکستانی تربوز خریدتے وقت۔

میں صرف ایک بات جانتا ہوں کہ ہماری روایات اور ہمارے بزرگوں کی تعلیمات ہمیں یہ درس دیتی ہیں۔ کہ بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر ہم جس مذہب کے پیروکار ہیں۔ وہ دین اسلام ہمیں دشمن کفار کی بیٹی کی بھی عزت کرنا سکھاتا ہے۔

‏بحیثیت پاکستانی افغان سفیر کی بیٹی کے اغوا بارے وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس سے میرا سر شرم سے جھک گیا۔ جیسے میں نے مندرجہ بالا سطور میں لکھا کہ اس تحریر کا مقصد افغانستان کی طرف داری نہیں بلکہ ایک رویے کے خلاف احتجاج ہے۔ اور وہ رویہ ہے۔ وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس۔ جس میں انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ کہ آپ کی بیٹی آشنا ساتھ بھاگی۔ اس میں ساڈا کوئی قصور نی۔

وزیر داخلہ کا لہجہ اور ساری پریس کانفرنس کا لب لباب یہی تھا جیسے وہ کسی دور افتادہ گاؤں کے مطلق العنان تھانیدار کی طرح لواحقین کو یہ سمجھانا چاہ رہے ہوں کہ یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہی نہیں آپ کے گھر کا معاملہ ہے۔ صد افسوس! اس طرح کی سوچ پر۔ وزیر داخلہ کو ایسا بیان اس لیے دینا پڑا کیونکہ وہ تھانیدار کی طرح کیس کی تہہ تک پہنچنے میں ناکام رہے اور اب اپنے سر سے اتارنے کے لیے اس طرح کی فضول اور گھٹیا سوچ کا سہارا لینا پڑا۔

اسلام آباد میں کسی بھی غیر ملکی کا ایف سین، ایف ایٹ کی مارکیٹس یا ایف نائن پارک میں جانا معمول کی بات ہے۔ غیر ملکی سیاح، غیر ملکی طالبعلم، غیر ملکی سفارت کار اور ان کے اہل و عیال عام پاکستانیوں طرح ان مارکیٹس میں کھانا کھانے اور خرید و فروخت کے لیے آتے ہیں۔ اور F۔ 9 پارک میں چہل قدمی کے لیے آنا بھی معمول ہے۔ میں بذات خود کہیں بار اپنے غیر ملکی دوستوں کے ساتھ ان مقامات پر گھوما پھرا۔

جہاں تک بات ہے G۔ 7 کھڈا مارکیٹ کی۔ تو جناب اسلام آباد میں رہنے والے غیر ملکیوں کے لیے کھڈا مارکیٹ جانا بھی کوئی عجیب بات نہیں۔ ڈائوو بس کی شٹل سروس وہاں سے چلتی ہے۔ وہاں ہوٹلز ہیں۔ گاڑیوں کی ڈیکوریشن اور سپئیر پارٹس کی اچھی دکانیں وہاں ہیں۔ صرف گاڑیوں کی ریپئرنگ کا مرکز تھوڑی ہے۔ دامن کوہ تو غیر ملکی سفارتکاروں میں مقبول ترین تفریحی مقام ہے۔ برطانیہ کا ہائی کمشنر تک جاتا ہے وہاں۔ چار ٹیکسیاں بدلیں۔ اسلام آباد میں رہنے والے بخوبی جانتے کہ غیر ملکی معمول کے تحت ٹیکسی پر سفر کرتے ہیں۔ اس لیے وزیر موصوف بے تکی باتیں کر کے اسلام آباد رہنے والوں یا اسلام آباد سے واقف لوگوں کو الو نہیں بنا سکتے۔

خدارا حکمرانو! اس تھانیداری سوچ سے باہر نکلو۔ آپ کی یہ سوچ عام پاکستانی کی عزت نفس مجروح کر چکی ہے۔ اگر آپ لوگ حساس بین الاقوامی معاملات اور خارجہ امور میں اس تھانیداری سوچ کو طول دیتے رہے۔ تو پھر وہ وقت دور نہیں جب پاکستان کی عزت نفس کا اقوام عالم میں جنازہ اٹھے گا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments