گلگت بلتستان اور انڈین جموں و کشمیر میں سٹیٹ سبجیکٹ رول کی معطلی کے نقصانات.


مہاراجہ ہری سنگھ نے ریاست جموں وکشمیر کے باشندوں کے حقوق کی تحفظ کے لیے جو قانون وضع کیا تھا اسے SSR یعنی سٹیٹ سبجیکٹ رول کہا جاتا ہے-
اس قانون کے تحت غیر ریاستی باشندوں کو ریاست جموں وکشمیر میں زمین خریدنے اور مستقل آبادکاری کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔
 مہاراجہ بہادر نے بذریعہ لیڑ نمبر 2354 بتاریخ 31 جنوری 1927 کو سٹیٹ سبجیکٹ رول منظور کیا جس سے عوام الناس کی اطلاع کے لئے ریاست جموں و کشمیر میں نافذ کیا گیا-
مہاراجہ کی جانب سے منظور شدہ اس لیٹر میں باشندہ ریاست یعنی سٹیٹ سبجیکٹ کو چار اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے جو کہ اس مطابق ہیں-
درجہ اول : درجہ اول کے ریاست باشندہ میں وہ تمام افراد شامل ہیں جو ریاست میں مہاراجہ گلاب سنگھ کی دور حکومت سے رہائش پذیر تھے یا پیدا ہوئے تھے, ان کے ساتھ ایسے تمام افراد جو Samvat سال1842 کے آغاز سے قبل وہاں settled تھے اور تب سے مستقل طور پر وہاں رہائش پذیر ہیں-
درجہ دوئم : میں وہ تمام افراد شامل ہیں جنہوں نے وہاں مستقل جائیدادیں حاصل کی ہیں اور Samvat سال کے ختم ہونے سے قبل اور اس کے بعد مستقل طور پر رہائش پذیر ہیں-
درجہ سوئم : میں درجہ اول اور درجہ دوئم کے علاوہ وہ افراد شامل ہیں جو مستقل طور پر ریاست میں رہائش پذیر ہیں اور جنہوں نے ریاست جموں و کشمیر میں ریایت نامہ کے تحت کوئی ناقابل انتقال جائیداد حاصل کی ہے یا اس کے بعد تاج کی اجازت سے ایسی جائیداد حاصل کی ہے –
درجہ چہارم : میں ریاست میں رجسٹرڈ ایسی کمپنیاں شامل ہیں جن میں مالیاتی طور پر حکومت کو دلچسپی ہو یا ان کمپنیوں سے ریاست کو معاشی فوائد حاصل ہوں یا حکومت ان کی معاشی استحکام سے مطمئین ہو, مہاراجہ کے خصوصی حکم نامے کے تحت ایسی کمپنیوں کو درجہ چہارم کا باشندہ ریاست قرار دیا گیا ہے-
 اس قانون کے تحت ریاستی سکالرشپس, ریاستی اراضیات برائے ایگریکلچر و براۓ تعمیرات مکانات اور ریاستی ملازمتوں میں بھرتیوں کے لئے باشندہ ریاست درجہ اول کو ترجیح دی جائے گی جبکہ درجہ دوئم کے شہریوں کو درجہ سوئم کے شہریوں پر ترجیح حاصل ہوگی-
ریاست جموں و کشمیر کی شہریت کیلئے کسی بھی درجہ کے باشندہ ریاست کے اولاد کو ڈومیسائل ان کے درجے کے مطابق ملے گی مثال کے طور پر اگر ایک شخص کو درجہ دوئم کا باشندہ ریاست قرار دیا گیا ہو تو اس کے بچے اور پوتے بھی وہی شہرت کے قانوناً حقدار ہونگے-
نیز کسی بھی درجے کے باشندہ ریاست کی بیوی کو اس کے شوہر کی شہریت کا وہی درجہ حاصل ہوگا, جب تک کہ وہ ریاست میں رہائش پذیر ہے اور جب تک وہ مستقل طور پر ریاست سے باہر منتقل نہیں ہو جاتی –
مہا راجہ ہری سنگھ کا یہ قانون ریاست جموں و کشمیر میں 1947 تک لاگو رہا پھر ریاست کشمیر کے حصول کے لئے انڈیا پاکستان میں پہلی جنگ کے نتیجے میں شاہی ریاست جموں و کشمیر تین حصوں انڈیا کے زیر کنٹرول جموں و کشمیر, پاکستان کے زیر کنٹرول آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بکھر گئی –
انڈیا نے اپنے زیر کنٹرول جموں و کشمیر میں سٹیٹ سبجیکٹ رول کو آرٹیکل35 اے کی شکل میں انڈین آئین میں شامل کرکے اپنے زیر کنٹرول کشمیریوں کے حقوق کو تحفظ دیاتھا اور آرٹیکل 370 کے تحت جموں و کشمیر کو ایک نیم خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کیا تھا مگر گزشتہ سال پانچ اگست 2019 کو مودی سرکار نے ریاست جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے ساتھ سٹیٹ سبجیکٹ رول کو بھی ختم کردیا ہے,جبکہ پاکستان نے اپنے زیر انتظام آزاد کشمیر میں بھی سٹیٹ سبجیکٹ رول کو تا حال جاری رکھا ہے جبکہ دوسری طرف گلگت بلتستان میں سال 1974 سے ہی سٹیٹ سبجیکٹ رول کا قانون معطل کیا گیا ہے جبکہ ناردن ایریاز ناتوڑ رولز 1978 کے اطلاق کے زریعے یہاں کی بنجر اراضیات کو خالصہ سرکار قرار دیا گیا ہے-
ڈپٹی سیکرٹری برائے حکومت پاکستان چنان خان کی دستخط سے جاری کردہ نوٹیفیکش نمبر LA-Res-9( 1)/76 مورخہ 12 جون 1978
کے تخت گلگت بلتستان کی تمام بنجر اراضی کو خالصہ سرکار قرار دیا گیا ہے اور یہ لکھا گیا ہے کہ
Nautor Rules mean Government Khalisah Land and Berune Line Land.
دلچسپ بات یہ ہے کہ خالصہ سرکار اراضیات کی بنیاد خالصہ دور میں شروع ہوئی-
 مہا راجہ رنجیت سنگھ (1780-1839 )نے پنجاب میں پھیلی نیم خود مختار سکھ راجدھانیوں کو منظم کر کے خالصہ سرکار یا سکھ شاہی حکومت قائم کیا تھا اور لاہور فتح کرکے سکھ سلطنت کی بنیاد رکھی اور رنجیت سنگھ کو مہاراجہ کا خطاب دیا گیا –
پنجاب کےسکھوں کی متحدہ فوج خالصہ کہلاتی تھی –
 رنجیت سنگھ کی قیادت میں خالصہ سرکار امرتسر اور لاہور سے اُبھر کر نہ صرف پنجاب و گرد و نواح پر قابض ہوئی بلکہ گلگت بلتستان تک بھی پہنچے۔ بالآخر اینگلو سکھ جنگ میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے پنجاب کے سکھوں کو شکست دیا یوں خالصہ سلطنت تو تباہ و برباد ہو گئی مگر آج بھی گلگت بلتستان میں بنجر اراضیات کو خالصہ سرکار قرار دیاجاتا ہے,حالانکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب جہاں سے سکھ خالصہ سرکار کی بنیاد پڑی تھی وہاں تو خالصہ سرکار نامی ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے جس کے تحت عوامی زمینوں کو سرکار کی ملکیت قرار دیا جاتا ہو نہ ہی آزاد کشمیر میں اس طرح کا کوئی کالا قانون موجود ہے.
 یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پنجاب کی خالصہ سلطنت کا خاتمہ کرنے کےبعد فاتح انگریز سرکار نے 1846 میں گلاب سنگھ آف جموں کے ساتھ معاہدہ امرتسر پر دستخط کرکے جدید شاہی ریاست جموں و کشمیر کی بنیاد رکھی –
اس طرح پنجاب کے سکھوں کے زوال کے بعد ڑوگرہ افواج نے برٹش انڈیا کی مدد سے گلگت بلتستان پر بذریعہ جنگ قبضہ کر لیا اور اسے ریاست جموں و کشمیر کا حصہ قرار دیا مگر یکم نومبر 1947 کی جنگ آزادی گلگت بلتستان کے نتیجے میں گلگت بلتستان سے ڈوگرہ حکومت کا خاتمہ ممکن ہوا مگر اس کے باوجود گزشتہ سال 17 جنوری 2019 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کی سات رکنی بینچ نے ایک تاریخی فیصلہ دیتے ہوئے گلگت بلتستان کو ریاست جموں و کشمیر کا حصہ قرار دیا نتیجتاً گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رول بحال کرو کا مطالبہ عوام میں راتوں رات مقبولیت اختیار کر گیا اور روز بروز یہ مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے –
 چونکہ وفاقی حکومت نے 1974 سے ہی گلگت میں سٹیٹ سبجیکٹ رول کو معطل کر دیا ہے مگر دوسری طرف پنجاب کے خالصہ دور کی روایت کے تحت عوامی اراضیات کو خالصہ قرار دیکر حکومت کی ملکیت ڈیکلیر کر رہے ہیں –
 بی بی سی اردو سروس میں 3 مارچ 2017 میں شائع ہونے والے ایک فیچر میں ایچ آر سی پی کی گلگت بلتستان پر رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ گلگت بلتستان میں دو ہزار پانچ سو پچاس کنال بنجر اراضی جو کہ چھلمس داس, مناوار, منی مل,مقپون داس پر مشتمل ہے حکومت نے ان اراضیات کو خالصہ سرکار قرار دیکر ریاستی اداروں کو الاٹ کردیا ہے –
کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال پر اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر براۓ انسانی حقوق
کے آفس کی جانب سے 14 جون 2018 کو شائع کی گئی رپورٹ کے صفحہ نمبر 46 میں گلگت بلتستان میں لینڈ رائٹس کی خلاف ورزیوں کی بابت لکھا گیا ہے کہ گلگت بلتستان کے سرکاری حکام نے مقامی باشندوں کو مقپون داس سے زبردستی بے دخل کیا ہے اور بے دخل کیے گئے ان افراد کے زمینوں کے عوض کوئی معاوضہ بھی ادا نہیں کی گئی ہے-“
دوسری طرف 5 اگست 2019 کو مودی سرکار نے سٹیٹ سبجیکٹ رول کا خاتمے کر کے ریاست جموں وکشمیر میں غیر ریاستی باشندوں یعنی انڈین شہریوں کے لئے جموں و کشمیر میں آباد کاری کے دروازے کھول دیئے ہیں-
اب انڈین شہری ریاست جموں وکشمیر میں نہ صرف زمین و جائیداد خرید سکتے ہیں بلکہ تمام تر سرکاری نوکریوں,سکالرشپس اور کوٹے پر بھی انہیں حق حاصل ہوا ہے.
انڈین سرکار نے رواں ماہ سے غیر کشمیریوں کو باقاعدہ ڈومیسائل جاری کرنا شروع کیا ہے-
گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ہفتہ وار بریفنگ دیتے ہوئے پاکستان کے وزارت خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نےغیر کشمیریوں کو کشمیری ڈومیسائل دینے کو اقوام متحدہ کے قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت نے کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے لئے 25ہزار غیر کمشیریوں کو ڈومسائل سرٹیفیکٹ جاری کئے ہیں جسے انہوں نے غیر قانونی،اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
ترجمان کے مطابق اس کا مقصد کشمیریوں کو ان کی اپنی سرزمین پر اقلیت میں تبدیل کرنا ہے-
جموں و کشمیر میں غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل جاری کرنے کی انڈین پالیسی پر تجزیہ کرتے ہوئے کراچی یونیورسٹی کے شبعہ بین الاقوامی تعلقات کے سابق پروفیسر ڈاکٹر مؤنث احمر مورخہ 13 جولائی 2020 کو
دی ایکسپریس ٹریبیون میں شائع ہونے والے اپنے ارٹیکل
بعنوان
India,s Limitless Tyranny in Occupied kashmir.
میں لکھتے ہیں کہ ” انڈین ریاست نے کورونا وبا اور دنیا کی لاتعلقی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جموں و کشمیر پر قبضے کی کوششیں تیز کی ہیں اور تیس ہزار ڑومیسایل سرٹیفیکٹس جو زیادہ تر غیر مسلم باشندوں کو جاری کیا ہے,اور اس طرح انڈین سرکار ویلی میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدل کر وہاں کی ڈیموگرافی کے تناسب کو تبدیل کرنا چاہتی ہے-
ڈاکٹر مؤنث احمر لکھتے ہیں کہ آل پارٹیز حریت کانفرنس کے رہنما میر واعظ عمر فاروق نے اس بابت ویلی کے باشندوں سے کہا ہے کہ وہ غیر مقامی لوگوں کو اپنی زمین فروخت نہ کریں ورنہ انڈیا کشمیری مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرے گی –
بقول ڈاکٹر مؤنث احمر ماضی میں ایک سو سال قبل جب لیگ آف نیشنز نے فلسطین کو مینڈیٹ سسٹم کےتحت برطانیہ کے ماتحت رکھا تھا تو اسی دوران بابر سے یہودیوں کی فلسطین میں آمد شروع ہو گئی, اور انہوں نے مقامی باشندوں سے زمینیں خریدنا شروع کیا-
جن افراد نے اپنی جائیداد فروخت کرنے سے انکار کر دیا ان کی جائیداد پر یہودیوں نے برٹش حکام کے ساتھ مل ملاپ کر کے قبضہ کر لیا-
 کشمیری مسلمان فلسطین کی حقیقت سے آگاہ ہیں چونکہ بلفور ڑیکلیریشن 1917کے وقت سابق سلطنت عثمانیہ میں یہودی آبادی صرف سات فیصد تھی مگر محض بیس سالوں کے اندر ان کی آبادی بڑھ کر تیس فیصد ہوگئی-
اس وقت انڈیا کے زیر تسلط کشمیر میں مسلم آبادی تقریباً 80 لاکھ ہے مگر اگر نئی دہلی اپنے ڑومیسایل کی پالیسی کے تحت غیر مقامی افراد کو بسانے میں مکمل کامیاب ہوتی ہے تو محض پندرہ سالوں میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرسکتی ہے-“
اگر سٹیٹ سبجیکٹ رول گلگت بلتستان میں بحال نہیں کیا گیا تو مستقبل قریب میں یہاں بھی ڈیموگرافی بدل سکتی ہے.
 حقیقت یہ ہے کہ قوام متحدہ کی قراردادوں کے ساتھ ساتھ, آئین پاکستان, دفتر خارجہ اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے 17 جنوری 2019 کے تاریخی فیصلے کے مطابق بھی متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت بذریعہ استصواب رائے ہونا باقی ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ بذریعہ استصواب رائے ہونا باقی ہے اور اقوام متحدہ کی زیرنگرانی ہونے والی اس استصواب رائے میں صرف باشندہ ریاست ہی حصہ لے سکتے ہیں البتہ غیر مقامی افراد کو یہ حق حاصل نہیں ہے.
اقوام متحدہ کی قراردادوں میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ جب تک استصواب رائے سے یہ مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو جاتا تب تک بین الاقوامی قانون کے تحت دونوں ممالک اپنے اپنے زیر کنڑول علاقوں کی ڈیموگرافی اور ریاست کی ہیت تبدیل نہیں کر سکتے ہیں, مگر انڈیا نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے غیر قانونی طور پر اسے اپنی یونین ٹریڑری کا حصہ بنایا ہے.
 دوسری طرف حکومت پاکستان نے بھی 1974 میں “میر جمال خان کے دور میں ریاست ہنزہ تحلیل کیا اگرچہ ریاست کو تحلیل کرنے کے قانونی تقاضوں پر سوالیہ نشان آج بھی ہے۔ اگر اقوام متحدہ میں پاکستان اور بھارت متنازعہ علاقے کی ہیت تبدیل نہ کرنے کے پابند ہیں تو پھر کس اختیار کے تحت ریاست ہنزہ, نگر سمیت گلگت بلتستان کی دیگر شاہی ریاستوں کو تحلیل کر دیا گیا؟ اور سٹیٹ سبجیکٹ رول کو معطل کر کے ایف سی آر کا کالا قانون نافذ کیا اور یہاں کے باشندگان کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے والے قانون سٹیٹ سبجیکٹ رول کو معطل جبکہ رنجیت سنگھ دور کے خالصہ سرکار قانون کو نافذ کیا گیا نتیجتاً آج تک یہ خطہ بے آئین ہے اس لئے عام طور پر یہ علاقہ سر زمین بے آئین بھی کہلاتا ہے-
چنانچہ وفاقی حکومت پاکستان کی اس دھری پالیسی نے گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رول کی بحالی کے لئے ایک ختم نہ ہونے والی بحث کو جنم دیا ہے –
لہذا ان حقائق کی روشنی میں ڈاکٹر مؤنث احمر کی دلیل کو آگے بڑھاتے ہوئے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ کشمیریوں کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کے مقامی باشندوں کو بھی فلسطین کی حقیقت سے سبق سیکھینے کی ضرورت ہے –
چونکہ سٹیٹ سبجیکٹ رول کے مندرجہ بالا نوٹیفکیشن سے یہ بات بلکل واضح ہے کہ اس قانون کا اطلاق ساری ریاست جموں و کشمیر پر ہوتا ہے لہذا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ سٹیٹ سبجیکٹ رول کا اطلاق صرف آزاد کشمیر یا جموں و کشمیر تک محدود ہے بلکہ یہ قانون گلگت بلتستان میں بھی قابل اطلاق ہے-
چونکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے گلگت بلتستان کو ریاست جموں اینڈ کشیمر کا حصہ قرار دیا ہے اور ائین پاکستان کا ارٹیکل 257 بھی کشمیر کےبارے میں ہے .
گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کی بابت سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر متعدد رٹ پٹیشنز کا فیصلہ کرتے ہوئے 17 جنوری 2019 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کی
 سات رکنی بینچ نے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں گلگت بلتستان کے آئینی حیثیت پر Const.P.50/2018: Civil Aviation Authority Vs. Supreme Appellate Court Gilgit Baltistan etc.
 نامی رٹ پٹیشن پر ایک تاریخی فیصلہ صادر کیا اور اس فیصلہ کے فقرہ نمبر 15 میں آرٹیکل 257 کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ.
آج کے صورتحال میں ، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان دونوں کے لئے اور بلاشبہ بقیہ ریاست کے باقی حصوں کےلئے بھی بالآخر جو صورتحال پیدا ہوسکتی ہے اور جس آرزو کا اظہار کیا گیا ہے وہ آئین کے آرٹیکل 257 میں شامل ہے ، جس میں یہ لکھا گیا ہے
کہ”جب ریاست جموں و کشمیر کے عوام پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کریں تو پاکستان اور مذکورہ ریاست کے درمیان تعلقات مذکورہ ریاست کے عوام کی خواہشات کے مطابق معتین ہوں گے”.
یعنی گلگت بلتستان کی بھی وہی قانونی حیثیت ہے جو آزاد کشمیر کی ہے یا انڈیا کے زیر تسلط جموں و کشمیر کی ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 1948 سے لیکر آج تک آزاد کشمیر میں نہ صرف سٹیٹ سبجکٹ رول بحال ہے بلکہ ایک نیم خود مختار ریاست کی حیثیت سے آزاد کشمیر کا اپنا ایک آئین بھی ہے مگر دوسری طرف گلگت بلتستان کی قانونی حثیت بھی آزاد کشمیر جیسی ہونے کے باوجود یہاں نہ صرف ایف سی آر کا کالا قانون نافذ کیا گیا بلکہ گلگت بلتستان میں 1974 سے ہی سٹیٹ سبجکٹ کا قانون بھی معطل ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ڈیموگرافی تیزی سے بدل رہی ہے بلکہ بنجر زمینوں کو بھی خالصہ سرکار قرار دیا جا رہا ہے اس لئے تمام باشعور سیاسی کارکنوں نہ صرف انڈیا کے زیر کنٹرول جموں و کشمیر میں ریاست کی بحالی اور سٹیٹ سبجیکٹ رول کی بحالی کیلئے جدوجہد کرنی چاہئے بلکہ گلگت بلتستان کے لئے بھی آزاد کشمیر طرز کے سٹ اپ اور سٹیٹ سبجیکٹ رول کی بحالی کا مطالبہ کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے.

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments