جب مریم علم اٹھائے گی


انسان کی زندگی میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ انسان کے پاس ان سے نمٹنے کے لیے دو ہی طریقے ہوتے ہیں یا تو صبر کا دامن تھاما جائے اور آنے والی مشکل کو پروردگار کی طرف سے آزمائش سمجھی جائے یا پھر شور شرابا اور واویلا کرکے اپنا تماشا بھی بنایا جائے اور پروردگار کی نافرمانی جیسا گناہ بھی کیا جائے۔ جو انسان حالات کا مقابلہ کرکے ۔ مشکلات کے بھنور میں پھنسی اپنی کشتی کو کسی سرے لگا لیتا ہے وہ ضرور کامیابی پالیتا ہے۔
2017 میں نواز شریف کو پانامہ کیس میں نااہل کردیا گیا۔ نواز شریف کی اس خالی نشست پر الیکشن کے لیے ٹکٹ ان کی اہلیہ کلثوم نواز کو دیا گیا جو چند دن بعد ہی خرابی طبیعت کے باعث لندن منتقل ہوگئیں۔ ایک تو میاں نواز شریف کی نااہلی، دوسرا بی بی کلثوم کی خرابی طبیعت، پھر مریم نواز شریف نے علم اٹھایا اور والد کی چھوڑی ہوئی نشست پر والدہ کو فتح دلا دی۔
نواز شریف کی نااہلی کے کچھ عرصہ بعد ہی مقدمہ چلا مریم نواز، نواز شریف کو قید کی سزا سنا دی گئی۔۔ مریم اس سزا سے گبھرائی نہیں اپنے باپ کا ہاتھ تھامے، بیمار ماں کو بستر مرگ پر چھوڑ کر وطن واپس لوٹ کر خود کو آئین و قانون کے حوالے کردیا۔ اسی سفر کی داستان کے بارے میں ایک صحافی نے لکھا کہ لندن واپسی پر لاھور ائرپورٹ پر جب رینجر والے نواز شریف کو لینے آے تو مریم نواز نے بہادری سے اپنے والد کے کندھے پر ھاتھ رکھ کر کہا آپ پیچھے آئیں اور خود نواز شریف صاحب کے آگے آگئیں۔۔یہ وہی مریم نواز ہیں جو کسی وقت بات بات پے آنسو چھلکا دیا کرتی تھیں
ایک دن قدرت کا کھیل کہ مریم نواز اور نواز شریف جیل میں تھے اور ان کے ہفتہ وار بائیس منٹ مکمل ہوچکے تھے تو مریم نواز کی والدہ کی وفات کی خبر ان کو قید خانے میں دی گئی مگر وہی مریم غمزدہ ہوئی مگر گبھرائی نہیں۔۔ ماں کی موت سے زیادہ غم کیا ہوگا۔ مریم نواز نے آغاز سفر میں ہی وہ جھیل لیا۔ گزشتہ تین برس میں مریم نواز متعدد دفعہ جیل کاٹ چکی ہیں۔ مگر ہر رہائی کے بعد ان کا موقف مزید پختہ نظر آتا ہے
مریم نواز نے اپنے والد کے بیانیے کو تقویت دینے کے لیے جیل کاٹی، جیل سے نکلتے ہی ن لیگ کی سیاست کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور پارٹی میں بھی واضح کردیا کے جو پارٹی بیانیے کے ساتھ ہے وہ ماتھے کا جھومر ہے اور جو پارٹی بیانیے کا وزن نہیں اٹھا سکتا بیشک پارٹی چھوڑدے۔ مریم نواز کو پارٹی کی ڈرائیونگ سیٹ یونہی نہیں ملی انھوں نے بہت تگ و دو کی والد کے بیانیے ووٹ کو عزت دو کو تقویت دی اور ساتھ ہی ساتھ اپنی جماعت کو سوشل میڈیا پر منظم کرکے نوجوانوں کو پارٹی کا اہم حصہ بنا لیا۔
مریم نواز شریف نے 2012 میں اپنا آفیشل اکاونٹ بنایا اور اس کے بعد مسلم لیگ کے راہنماوں سے زیادہ عوام میں اپنا پیار بانٹا اور ہر خاص و عام لیگی ورکر کو فالو بیک دے کر اپنی قدرومنزلت مزید بڑھاتے ہوئے بڑے کم عرصے میں مسلم لیگ میں اہم مقام حاصل کرلیا اور عزتیں تو میرا رب دیتاہے جس نے ہر آنے والے دن میں مریم نواز کا مقام مزید بڑھا دیا
مریم نواز شریف نے جب سے پارٹی کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی ہے تب سے وہ ہر میدان میں زیادہ ایکٹیو نظر آرہی ہیں۔ پچھلے پندرہ دن سے وہ آزاد کشمیر الیکشنز کے لیے کشمیر میں موجود ہیں ہر روز دو سے تین جلسے کررہی ہیں۔ ہر آنے والا جلسہ پچھلے جلسہ کا ریکارڈ توڑ دیتاہے۔ مریم نواز شریف جدھر جاتی ہیں ہجوم امڈ آتا ہے۔ کشمیر میں ہم نے کئی سو لوگوں کو ایک چھت پر کھڑے مریم کا خطاب سنتے پایا ہے۔ کئی لوگ خطاب سننے کے لیے درختوں کی شاخوں یا کھمبوں پر پائے گئے ہیں۔ مریم نواز نے شاید ایک دلیرانہ فیصلہ کرلیا ہے کہ لگنے والا نعرہ
میری آواز تیری آواز
مریم نواز مریم نواز
کو انھوں نے عملی جامہ پہنانا ہے اور حقیقی معنوں میں عوام کی آواز بننا ہے
ایک شاعر نے لکھا ہے کہ
   جب رفتار بڑھے گی ظلمت کی
‏  مایوسی بھی بڑھ جائے گی
    ‏پھرمریم علم اٹھائے گی
     ‏پھر مریم دیپ جلائے گی
تو شاید مسائل سے گھری اس قوم کی نجات دہندہ بن کر مریم میدان میں اتر چکی ہے اور عوامی قوت نے اس کو اپنا نجات دہندہ مان لیا ہے۔۔ آخر میں اتنا ہی کہوں گا کہ جس مریم کو نواز شریف کی کمزوری سمجھا جاتا تھا وہ مریم آج اس نواز شریف کی طاقت بن گئی ہے
ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو
ان تلاطم خیز موجوں سے وہ گبھرایا نہیں کرتے

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments