کامیابی، کامیابی اور کامیابی : نذیر بیگ سے ندیم بننے کا واحد پاس ورڈ!



مقام ہے ڈھاکہ
( سابق مشرقی پاکستان )
سال ہے 1967
اور تہوار ہے عید الاضحی

یہاں ایک فلم، نئے ہیرو ہیروئن کے ساتھ تکمیل کے مراحل سے گزر کر پردہ سکرین کی زینت بننے کو ہے۔ بہ ظاہر یہ ایک نامور ہدایت کار کی طرف سے معمول کی ایک فلم بنانے کا پروجیکٹ ہے اور فلم کے ابتدا میں ہی اسے ایک بڑے فیصلے سے دوچار ہونا پڑا۔ فلم کے ہیرو کے انتخاب میں اچانک تبدیلی کر دی گئی، ایک نئے اداکار کو، ایک مشہور اداکار کا متبادل بنایا گیا ہے لہٰذا، فلم سرکٹ میں، اس سے کوئی ایسی خاص امیدیں بھی وابستہ نہیں کی جا رہیں۔

ان حالات میں، کسی کے وہم و گمان میں بھی شاید نہ ہو کہ یہ فلم غیر معمولی کامیابی کے کیسے کیسے ریکارڈ قائم کرنے کا پیش خیمہ ہو گی ( اور یہی نہیں، آگے چل کر، یہ تخلیق کامیابیوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کا سر چشمہ ہوگی۔ )

اس فلم میں متعارف کرائے جانے والے نئے چہرے آنے والے دنوں میں، پرانے چہروں کے لئے کیسے کیسے نئے چیلنجوں اور آزمائشوں کی وجہ بن جائیں گے، یہ بھی شاید فلم سے متعلق ماہرین، مبصرین اور ناقدین سوچنے سے قاصر رہے ہوں گے۔

خصوصاً اس فلم کے نئے ہیرو نے ایک ہی جست میں پاکستان فلم انڈسٹری کے صف اول کے ٹاپ تھری کا اہم ترین ( اور بلا شبہ، کامیاب ترین ) حصہ بن جانا ہے، اس معجزاتی کامیابی کی توقع بھلا کیسے کسی نئے ہیرو سے کی جا سکتی تھی جس نے اس سے قبل اس میدان کی طرف دیکھا تک نہ تھا۔

اس پس منظر میں، یہ بجا طور پر، قیاس کیا جاسکتا ہے کہ 1967 میں عیدالاضحی کا تہوار، گلوکار مرزا نذیر بیگ ( اور اداکار ندیم ) کے لئے دہری خوشیوں اور مسرتوں کا سبب ہوا ہوگا، جب ان کی ( گلوکار بننے کی ) انتھک جدوجہد اور منزل کی جستجو کے لئے دی جانے والی قربانیوں کا ثمر، ( ہیرو بننے کے روپ میں ) ایک فقید المثال اور نہایت شاندار کامیابی کی صورت، ان کے مقابل ہوا چاہتا تھا۔

ایسے جیسے کامیابی نے یہ طے کر لیا ہو کہ میں نے یہیں پڑاؤ ڈالنا ہے۔ مرزا نذیر بیگ، خود کو صرف گائیکی کی دنیا میں محدود کرنے کے آرزو مند تھے، ( اور ڈھاکہ ٹی وی اور کراچی فلم انڈسٹری میں قسمت آزمائی تک اپنی فنی مصروفیت پر آمادہ ) مگر کامیابی نے انھیں ان حدود سے آگے لے جانے کا تہیہ کیا ہوا تھا۔

مرزا نذیر بیگ نے جس فلم میں، کسی اور ہیرو کے لئے پلے بیک سنگر کے طور ہر آواز ریکارڈ کرائی تھی اور جب وہ یہ ریکارڈنگ کرا رہے ہوں گے، وہ خود بھی، قدرت کے اس کھیل سے بے خبر تھے کہ ان کی یہ آواز درحقیقت کس کی پہچان بننے جا رہی ہے۔

نذیر سے ندیم بننے کا سفر، کیوں کر طے ہوا، شاید یہ تفصیل سب پر واضح نہ ہو، مگر ندیم سے ہیرو بننے کا سفر، کامیابی کا وہ روشن باب ہے، جو ہماری فلمی تاریخ میں ایک منفرد اور مثالی تشخص لئے، ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔

شہرت، کامیابی اور پسندیدگی کے چاند ( پر مر مٹنے ) اور اس سے ملنے کی آرزو لیے، چکوری کی یہ اڑان، اس قدر دل موہ لینے والی پرواز کی صورت اختیار کر لے گی، اس تخلیقی ( اور تاریخی ) عمل میں شریک، کم ہی لوگوں کے دل اور ذہن میں ایسا خیال آیا ہو گا۔

اور یہ بھی شاید کم لوگوں نے ہی سوچا ہوگا کہ 1967 سے شروع ہونے والی کامیابی کی یہ منفرد داستان، دلیپ کمار سے شباہت کا چولا اتنی آسانی سے اتار کر، خود ایسی رجحان ساز شخصیت بن جائے گی جسے آنے والی نسلیں اپنا رول ماڈل بنانے پر فخر محسوس کریں گی۔

اپنی پہلی فلم کی بے مثال کامیابی سے، جو دونوں زبانوں ( اردو اور بنگالی) اور ملک کے دونوں حصوں میں ریکارڈ توڑ مقبولیت سے ہمکنار ہوئی، ( اور متعدد ایوارڈز کی حقدار ٹھہری ) انھیں ایسی ایسی کامیابیاں دیکھنے کو ملیں کہ جن کا مماثل ڈھونڈنا، اگر ناممکن نہیں تو، مشکل ( ترین ) ضرور کہا جاسکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان فلم انڈسٹری میں کسی ہیرو کے لئے کامیابی کے کم اعزازات ایسے ہوں گے جن میں اس خوش نصیب فنکار کا نام شامل نہ ہو۔

سب سے زیادہ کامیاب فلموں کے ہیرو کا ذکر ہو یا پاکستان کی سب سے زیادہ چلنے والی فلم ہو، سب زیادہ گولڈن جوبلی فلموں یا ڈائمنڈ جوبلی فلموں کی فہرست ہو یا سب سے زیادہ ( اور سب سے اچھے ) ڈائریکٹرز کے ساتھ کام کرنے کا معاملہ ہو، سب سے زیادہ عرصہ ( کامیابی کے ساتھ ) سلور سکرین پر گولڈ کی طرح رہنے کا فخر ہو یا بڑی اور چھوٹی دونوں سکرین پر، کسی فلمی ہیرو کے، یکساں داد حاصل کرنے کی مثال ہو۔ کردار نگاری میں تنوع کی تلاش ہو یا بدلتے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگی ہو، ان سب کارناموں کا حقدار صرف اور صرف ایک ہی ہیرو قرار پاتا ہے۔

مقام ہے کراچی
سال ہے 2021،
تہوار ہے عید الاضحی

ایک عظیم ہیرو کو، نئی نسل کی طرف سے، اس کی 80 ویں سالگرہ پر یہی سب سے موزوں خراج تحسین ہو سکتا ہے کہ فنون لطیفہ کا حصہ بننے والے اور اس کا حصہ بننے کے خواہش مند، اس موقع پر کامیابیوں کے اس عظیم ماخذ سے، وہ ”پاس ورڈ“ جان لیں کہ شہرت کی بلندی پر، پسندیدگی کی انتہا پر اور کامیابی کی چوٹی پر، رہتے ہوئے بھی نظریں کیسے نیچے رکھی جاتی ہیں اور دلوں میں کیسے اترا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments