کیا مذہب نے سائنس کی برتری تسلیم کر لی؟



ساری دنیا جانتی ہے کہ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ پادریوں نے کوپر نیکس اور گلیلیو گلیلی کے سائنسی نظریات کو بائبل کی مقدس تعلیمات کے خلاف قرار دے کر ان کی ڈٹ کر مخالفت کی۔ گلیلیو سے پہلے بھی پادری ہر نئے خیال، نظریے، یا سائنسی دریافت پر حرام یا ناپاک کا لیبل لگا کر مسترد کر چکے تھے۔ کوئی کتاب یا تحریر پسند نہ آتی تو اس پر بلاسفیمی کا لیبل لگا کر ضبط کر لیتے اور آگ کی نذر کر دیتے۔ کسی کتاب کو نذر آتش کر کے بھی ان کی آتش انتقام ٹھنڈی نہ ہوتی تو اس کے مصنف کو بھی زندہ جلا دیتے۔ گیور دانو برونو اور مائیکل سروٹس کی داستان خونچکاں کا مطالعہ کر لیں۔ خیال رہے چرچ کے احکامات کی رو سے عام شہریوں کو نہ تو بائبل شریف کا مطالعہ کرنے کی اجازت تھی اور نہ ہی کسی زبان میں ترجمہ کرنے کی۔ ان احکامات کی خلاف ورزی کی کم از کم سزا موت تھی۔

پادریوں کا عقیدہ تھا کہ زمین کی فضا میں شیاطین، جنات، اور چڑیلیں آباد ہیں۔ سینٹ تھامس اقیناس کے بقول آندھیوں، طوفانوں، اور گرج چمک کے ساتھ بارشوں کی وجہ یہی شیاطین اور چڑیلیں تھیں۔ مارٹن لوتھر ہواؤں کو اچھی اور بری روحیں سمجھتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ شہر کے فلاں تالاب میں اگر پتھر پھینکا جائے تو خوفناک آندھی آ جائے گی کیونکہ شیاطین نے اس تالاب میں اپنے قیدی رکھے ہوئے ہیں۔

پادری یہ عقیدہ بھی رکھتے تھے کہ جنات اور چڑیلیں خوبصورت مردوں اور عورتوں کا روپ دھار کر دنیا میں گھومتی پھرتی ہیں۔ وہ کسی بھی خوبصورت مرد یا عورت پر جن یا چڑیل کا لیبل لگا کر اسے زندہ جلا دیتے تھے۔ جنات اور چڑیلیں شناخت کرنے والے پادریوں کو ان کی اس خدمت کا بھاری معاوضہ ملتا تھا۔ امکان ہے کہ چڑیلوں کو پکڑنے کا معاوضہ زیادہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پندھرویں اور سولھویں صدی میں جو افراد زندہ جلائے گئے ان میں اسی فی صد عورتیں تھیں۔ پادری معاوضے کے لالچ میں کسی بھی خوبصورت عورت پر چڑیل کا لیبل لگا دیتے تھے۔ صرف جرمنی میں چالیس ہزار معصوم عورتیں ان خدائی فوجداروں کی وجہ سے زندہ جلا دی گئیں۔ بالآخر اٹھارہویں صدی میں مذہب کی اس ظالمانہ رسم کا خاتمہ ہوا۔

پادری آندھیوں، طوفانوں، اور دیگر قدرتی آفات سے بچنے کے لئے چرچوں یا گرجوں میں اجتماعی دعائیں مانگتے، مقدس پانی کا چھڑکاؤ کرتے، چرچ کی گھنٹیاں بجاتے، اور چڑیلوں (خوبصورت عورتوں ) کو زندہ جلاتے تھے۔ ان کی دعاؤں اور رسموں کے باوجود آسمانی بجلی قریب ہی موجود شراب خانوں اور چکلوں کو نظر انداز کر کے تاک کر گرجا گھروں کو نشانہ بناتی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ گرجا گھروں کے مینار باقی عمارتوں سے اونچے ہوتے تھے۔ اس وجہ سے اہل بصیرت (پادریوں کی نظروں میں کافر) لوگوں کو گرج چمک کے ساتھ آنے والے طوفان سے بچنے کے لئے چرچ کے اندر یا نزدیک پناہ لینے منع کرتے تھے۔

پادریوں کو یقین کامل تھا کہ ان کی عبادت گاہیں ہر قسم کی آفات سے محفوظ ہیں۔ اس لئے وہ گولہ بارود قلعوں کی بجائے گرجا گھروں کے تہہ خانوں میں رکھتے تھے۔ لیکن آسمانی بجلی نہ تو گرجے کے مینار پر موجود فرشتے کے مجسمے کا لحاظ کرتی اور نہ ہی گرجے کے اندر موجود عیسیٰ کی تصویروں اور تبرکات کا۔ ہزاروں چرچ آسمانی بجلی گرنے سے تباہ ہوئے اور گرج چمک کے دوران گرجوں کی گھنٹیاں بجانے والے سینکڑوں پادری ہلاک۔ جن چرچوں میں گولہ بارود ذخیرہ تھا وہاں بجلی گرنے سے جو ہولناک دھماکہ ہوا اس سے ہزاروں شہری مارے گئے اور بیشمار گھر اور عمارتیں تباہ ہوئیں۔

پادریوں کے مذہبی عقائد کی رو سے جب خدا ناراض ہوتا تھا تو وہ آندھیوں، طوفانوں، سیلابوں، زلزلوں، آسمانی بجلی گرانے، وبائی امراض، اور دیگر آفات کے ذریعے انسانوں کو سزا دیتا تھا۔ نیز وہ خدا کے ان عذابوں کو روکنے کو ہر کوشش کو خدا کے کاموں میں مداخلت اور گناہ عظیم سمجھتے تھے۔ اس کے باوجود پادری اور مذہب پرست صدیوں سے حیران و پریشان تھے کہ خدا اپنے ہی گھروں یعنی عبادت خانوں کو گرج چمک کے ساتھ نشانہ کیوں بناتا رہتا ہے۔

صرف جرمنی میں 33 سال کے دوران چار سو چرچ بجلی گرنے سے تباہ ہوئے اور ہزاروں عبادت گزار ہلاک۔ نیز گرج چمک کے دوران گرجوں کی گھنٹیاں بجانے والے 120 پادری بھی بجلی کا شکار ہو گئے۔ بنجامین فرینکلن نے 1752 میں بجلی دریافت کر کے اور بجلی کی چھڑی (Lightning Rod) ایجاد کر کے پادریوں کے اس سوال کا جواب دے دیا۔

پادریوں اور ان کے اندھے پیروکاروں نے خوش ہونے کی بجائے فرینکلن اور اس کی تخلیق کی مخالفت شروع کر دی۔ انہوں نے بجلی کی چھڑی پر حرام اور ناپاک ہونے کا فتوی لگا دیا۔ امریکہ سے یورپ تک عیسائی مومنین نے فرینکلن اور اس کی بجلی کی چھڑی کے خلاف مظاہرے اور ہنگامے شروع کر دیے۔ جن گھروں اور عمارتوں کی چھتوں پر بجلی کی چھڑی نصب کی جا چکی تھی وہ مظاہرین نے زبردستی اتار دی۔ کئی پادریوں نے اعلان کر دیا کہ فرینکلن نے بجلی کی چھڑی تخلیق کر کے خدا کو غضبناک کر دیا تھا اور اب اسے خدا کے عذاب سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اتفاق سے انہی دنوں ریاست میسا چوسٹس میں زلزلہ آیا۔ فرینکلن کا تعلق اسی ریاست سے تھا اور یہاں سب سے پہلے گھروں اور عمارتوں پر بجلی کی چھڑی لگائی گئی تھی۔ کچھ پادریوں نے دعوی کیا کہ یہ زلزلہ بجلی کی چھڑی کی وجہ سے آیا تھا۔

قصہ مختصر پادری اور ان کے پیروکار 26 سال تک بجلی کی چھڑی کے مخالف رہے۔ ممکن ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ بجلی کی چھڑی نے ان کے صدیوں پرانے بائبلی توہمات پر کاری ضرب لگائی تھی۔ اس دوران بیشمار چرچ بجلی گرنے سے تباہ ہوئے۔ ان میں اٹلی کا سان نذرو چرچ بھی تھا۔ بجلی گرنے سے اس کے تہہ خانوں میں موجود گولہ و بارود دھماکے سے پھٹ گیا۔ تین ہزار بندے ہلاک، چار ہزار زخمی، اور بیشمار گھر اور عمارتیں تباہ ہو گئیں۔ یوں بے پناہ جانی اور مالی نقصان اٹھانے کے بعد پادریوں کی عقلی ٹھکانے آئی اور انہوں نے اپنے چرچوں کے میناروں پر بجلی کی چھڑی لگانا شروع کر دی۔

اسحاق آسیماؤ اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ مذہب نے اس دن سائنس کے آگے گھٹنے ٹیک دیے جس دن مذہبی پیشواؤں نے اپنی عبادت گاہوں کو آسمانی بجلی سے بچانے کے لئے ان کی چھتوں پر بنجامین فرینکلن کی تخلیق کردہ بجلی کی چھڑی (Lightning Rod) نصب کر دی۔

کیا آپ اسحاق آسیماؤ سے اتفاق کرتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments