ہر مخالف کو نہ غدار پکارا جائے


چلی ہے اب عجب رسم کہ ہر حال میں مخالفین کو غدار ٹھہرایا جائے۔ بات اگر ہم عصر مخالفوں پر غداری کا لیبل چسپاں کرنے تک محدود رہتی تو معمول سے ہٹ کر کچھ نہ ہوتا کہ مخالفین کو غدار کہنا بہرحال ہمارا قومی فریضہ ہے۔ چارہ گروں کی ستم گری ملاحظہ ہو کہ وہ شخص بھی آج غدار ٹھہر رہا ہے جو آج سے کچھ بیالیس برس قبل دار پر چڑھا دیا گیا تھا۔ جب سے سیاہ بوتلوں میں بے رنگ شہد (یاد رہے کہ بہترین مشروب مغرب بھی بے رنگ ہوتا ہے ) فراہم کرنے والے، جس کی مونچھوں اور لمبے بالوں سے عجب وحشت آتی ہے، نے ذہین بھٹو کو غدار کہا ہے، خیال آ رہا ہے کہ اگر بھٹو غدار وطن تھا تو پھر محب وطن کون ہے۔

تربیت اس قوم کی ہوئی ہی نہیں کہ اس کے لیے صدیاں درکار ہوتی ہیں اور رہ نما ایسے جو تعصب کے جہنم میں جل نہ رہے ہوں۔ آزادی (سچ میں آزادی؟) کے بعد ان سات عشروں کے ہر مہ و سال میں سب رہ نماؤں کی چھان پھٹک کر لیجیے، مجال ہے کوئی جو تعصب سے بلند ہو۔ اولین رہ نماؤں کو دوسری قوموں سے تعصب تھا تو بعد والوں کو اپنے سیاسی مخالفین سے۔ باہم دست و گریباں ہوئے یہ سیاست دان، معلوم ہوتا ہے اب تہیہ کر بیٹھے ہیں کہ ہر صورت مخالفین کے پرزے اڑائے جائیں۔

سیاسی فضا پہلے ہی کچھ بہتر نہ تھی، مگر نونہالان انقلاب کو جب سے سیاسی افق پر نمودار کیا گیا ہے، تلخی مزید بڑھ گئی ہے۔ اور جو تھوڑی شیرینی ان کی تشریف آوری سے قبل بچی تھی وہ اب زہرناک بن چکی ہے۔ بات چیت کے ہر راستے کو جان بوجھ کر مسدود کر دیا گیا ہے کہ ریاست اندرونی گنجھلوں میں ایسے الجھے کہ لوگ بارہ سنگھے کے جھاڑیوں میں سینگ الجھنے کی کہاوت بھول جائیں۔ موجودہ امیر المومنین ہر سو راگ الاپتے ہیں کہ پاکستان اب ریاست مدینہ بنے گا، مگر حقیقی ریاست مدینہ کے جو بانی تھے، ان کی سیرت سے امیرالمومنین بے خبر لگتے ہیں۔

شاید اس لیے کہ آپ تو مغرب کی نفسیات کے عالم ہیں، اور ہر کوئی ہر کسی فن میں ید طولیٰ نہیں رکھتا۔ لیکن ہم بتائے دیتے ہیں کہ ریاست مدینہ کے بانی کا مخالفین کے متعلق رویہ کیا تھا، ایک نام اکثر آپ نے سنا ہو گا جو کہ منافقین میں سر فہرست ہے، عبداللہ بن ابی۔ حدیث، سیرت، اور تاریخ کی ہر کتاب میں اس شخص کے نام کے ساتھ منافق لکھا ہو گا، مگر رسالت مآبﷺ نے ایک مرتبہ بھی عبداللہ کو منافق نہ کہا، حتی کہ اس کا معاملہ خدا کے سپرد ہو گیا۔

اسی طرح مدینہ کے یہود کے ساتھ معاہدے کیے گئے۔ حدیبیہ کی صلح تو بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ پر بھی ناگوار گزری، جن میں سیدنا عمر بھی شامل تھے۔ مگر رسالت مآبﷺ کا رویہ مخالفین کے ساتھ ہمیشہ نرمی کا رہا، مگر آپ ہیں کہ مخالفین کو چکی کے دو پاٹوں میں رکھ کر پیس دینا چاہتے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ہم مخالفین کے بارے میں ایسا رویہ کیوں رکھتے ہیں، یہ بات پیدا ہوتے ہی بچے کے کان میں پھونک دی جاتی ہے کہ بیٹا ہمیشہ تمھارا نقطہ نظر ہی صحیح ہو گا، جو کوئی بھی تم سے اختلاف کرے گا وہ ناحق پر ہو گا۔

یہ سکھایا ہی نہیں جاتا کہ بیٹا اس دنیا میں لوگ تم سے اختلاف رائے بھی کریں گے، تنقید بھی کریں گے۔ مولانا محمد شفیع نے کسی جگہ لکھا تھا کہ اگر معاشرے میں لوگ ایک دوسرے سے اختلاف نہ کریں تو سمجھ لو کہ لوگ سوچتے ہی نہیں ہیں یا پھر سوچتے تو ہیں لیکن بولتے نہیں ہیں۔ یہ کہاں کی دانائی ہے کہ فقط اختلاف یا تنقید کی بنیاد پر دوسرے کو غدار کہہ دیا جائے۔ وصی شاہ نے بھی عجب طبیعت پائی ہے، سو بیماریوں کا علاج دو مصرعوں میں بیان کر دیا ہے۔

حرف تنقید علاج دل بیمار بھی ہے
ہر مخالف کو نہ غدار پکارا جائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments