ڈاکٹر سحرش پیرزادہ: ’جب لوگوں کو پتہ چلتا کہ میں جانوروں کی ڈاکٹر ہوں تو وہ ہنستے بھی اور حیران بھی ہوتے‘

ریاض سہیل - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نوشہرو فیروز


ڈاکٹر

’میں نے فیصلہ کیا کہ اگر لوگوں کے بارے میں سوچوں گی تو آگے نہیں بڑھ سکوں گی پھر میں نے یہ سوچنا چھوڑ دیا کہ ‘لوگ کیا کہیں گے’، اب میں اپنے دل کی بات سُنتی ہوں اور دل سے کام کرتی ہوں۔‘

جانوروں کی ڈاکٹر سحرش پیرزادہ کا تعلق سندھ کے ضلع نوشہروفیروز سے ہے اور وہ دیہی سندھ کی اُن چند لیڈی وٹرنری ڈاکٹروں میں سے ہیں جو فیلڈ میں کام کر رہیں ہیں۔ ڈاکٹر سحرش کا ماننا ہے کہ وہ دیہی سندھ کی واحد فعال لیڈی وٹرنری ڈاکٹر ہیں۔

ایم بی بی بی ایس نہیں تو ڈی وی ایم

سحرش کرنا تو ایم بی بی ایس چاہتی تھیں لیکن قسمت کو کچھ اور منظور تھا۔

وہ بتاتی ہیں کہ وہ اس شعبے میں اتفاق سے آئیں۔

’ہوا یوں کہ میرا میڈیکل میں داخلہ دو نمبر سے رہ گیا، یہی وہ وقت تھا جب پتہ چلا کہ سکرنڈ (ضلع نوابشاہ کا شہر) میں وٹرنری یونیورسٹی میں داخلے کھلے ہیں، میری بہن نے آن لائن فارم جمع کروایا اور یوں میرا داخلہ ہو گیا۔‘

پاکستان وٹرنری میڈیکل کاؤنسل کے مطابق پاکستان میں پہلی ڈی وی ایم یعنی جانوروں کی ڈاکٹر سنہ 2012 میں زرعی یونیورسٹی سے پاس آؤٹ ہوئیں تھیں اور انھوں نے باقاعدہ پریکٹس کے بجائے اسی یونیورسٹی میں درس و تدریس کا شعبہ اپنایا۔

ڈاکٹر

سحرش پیرزادہ بتاتی ہیں کہ اُن کی بیچ میں کل 55 طالب علم تھے، جن میں سے صرف چار لڑکیاں تھیں۔

’شروع شروع میں کلاس فیلو لڑکے اس فیلڈ میں لڑکیوں کے آنے پر حیران ہوتے تھے۔ بعض اوقات وہ ہوٹنگ وغیرہ بھی کرتے، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا انھوں نے ہمیں قبول کر لیا۔ میری کلاس کی چار لڑکیوں میں سے صرف میں نے ڈگری مکمل کر کے باقاعدہ پریکٹس شروع کی ہے، ایک لڑکی نے اسی فیلڈ میں آگے کی تعلیم جاری رکھی ہوئی ہے جبکہ دو لڑکیاں ڈگری مکمل کر کے گھروں تک محدود ہو گئیں۔‘

لوگ عجیب نظروں سے دیکھتے تھے

سحرش بتاتی ہیں کہ یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد ابتدا میں وہ بھی گھر بیٹھ گئیں۔ اُن کا خیال تھا کہ اگر انھوں نے باقاعدہ پریکٹس شروع کی تو لوگ اُن پر ہنسیں گے۔ مگر وہ بتاتی ہیں کہ یہ وقت تھا کہ اُن کے گھر والوں نے ان کی ہمت افزائی کی اور کہا کہ ’سرکاری ملازمت نہیں تو کوئی مسئلہ نہیں، تم کام جاری رکھو۔‘

’ابتدائی دنوں میں لوگ عجیب نظروں سے دیکھتے تھے۔ پہلے تو یہ سمجھتے تھے کہ میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہوں، جب انھیں معلوم ہوتا تھا کہ میں جانوروں کی ڈاکٹر ہے، تو وہ ہنستے اور حیران بھی ہوتے۔ لوگوں کی باتیں سُن کی دل برداشتہ ہو کر میں دوبارہ گھر بیٹھ گئی۔ پھر سوچا کہ آگے بڑھنا ہے تو لوگوں کی باتوں کو نظر انداز کرنا ہی پڑے گا۔‘

کڑکتی دھوپ میں کام

ڈاکٹر

سحرش پیرزادہ نوشہرو فیروز اور نوابشاہ کے دیہی علاقوں میں جاتی ہیں جہاں وہ زیادہ تر بیمار بھینسوں اور گائیوں کا علاج کرتی ہیں۔ فیلڈ میں اُن کے پاس ایک سٹیتھو سکوپ، انجیکشن اور ادویات بیگ میں ہمہ وقت موجود ہوتی ہیں۔

وہ خود عبایا اور حجاب پہنتی ہیں۔

وہ صبح ساڑھے آٹھ، نو بجے کے لگ بھگ گھر سے نکلتی ہیں۔ اگر قریب میں کسی بیمار جانور کو دیکھنا ہو تو وہ پیدل جانے کو ترجیح دیتی ہیں وگرنہ ان کا بھائی لفٹ دینے کے لیے یا رکشہ تو موجود ہے ہی۔

وہ بتاتی ہیں کہ زیادہ تر لوگ فون پر اُن سے رابطہ کرتے ہیں۔ وہ بعض اوقات ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کا سفر کرتی ہیں، بیمار جانوروں کا علاج کرتی ہیں اور تین، چار بجے واپس گھر لوٹ آتی ہیں۔

ان کا کام ان دنوں میں زیادہ ہوتا ہے جب لگاتار بارش ہوتی ہے یا سخت گرمی پڑ رہی ہو کیونکہ ان کے بقول انھی موسموں میں جانور زیادہ بیمار ہوتے ہیں۔

جانور خواتین سے مانوس

دیہی علاقوں میں گھروں میں بھینس، بکریوں، گائے اور بھیڑوں کی دیکھ بھال عموماً خواتین ہی کرتی ہیں۔ جانوروں کو باقاعدگی سے چارہ اور پانی فراہم کرنا خواتین کی ہی ذمہ داری ہوتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ گھر میں موجود جانور خواتین سے زیادہ مانوس ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر سحرش پیرزادہ کے مطابق جب کوئی مرد ڈاکٹر جاتا ہے تو بعض اوقات جانور غصے میں آ جاتے ہیں اور وہ اپنے معائنے کی اجازت نہیں دیتے مگر اگر کوئی لیڈی ڈاکٹر جائے تو جانور اتنا تنگ نہیں کرتے کیونکہ یہ جانور خواتین سے مانوس ہوتے ہیں۔

’عموماً ہوتا ایسا ہے کہ خواتین جانوروں کے مسائل اپنے گھر کے مردوں کو بتاتی ہیں اور پھر مرد یہ مسئلہ ڈاکٹر کے سامنے پیش کرتے ہیں مگر ایسا کرتے ہوئے کچھ مسائل رہ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر کوئی خاتون ڈاکٹر گھر جائے تو خواتین سارے مسائل کھول کر بتا دیتی ہیں جس سے علاج میں آسانی رہتی ہے۔‘

ڈاکٹر

مال مویشی آمدن کا اہم ذریعہ

پاکستان اکنامک سروے کے مطابق لائیو سٹاک زراعت کا ذیلی شعبہ ہے جو اس میں 60 فیصد ویلیو ایڈ کرتا ہے اور پاکستان کے جی ڈی پی میں اس کا حصہ 13 فیصد ہے۔ اکنامک سروے میں بتایا گیا ہے کہ مال مویشی کی بیرون ملک فروخت کل ایکسپورٹ کا تین فیصد ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ریشم گلی کی پہلی خاتون دکاندار: ’والد ساتھ نہ دیتے تو میں ٹوٹ چکی ہوتی‘

خیرپور کی رابعہ جنھوں نے یوٹیوب سے ہونے والی آمدن سے اپنا گھر بنوا لیا

سکائی سپورٹس پر میزبانی کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون جن کو منزل آسانی سے نہیں ملی

پاکستان میں اس وقت چار کروڑ نوے لاکھ سے زائد گائیں، چار کروڑ ایک لاکھ سے زائد بھینسیں، تین کروڑ سے زائد بکریاں اور لگ بھگ آٹھ کروڑ سے زائد بھیڑیں موجود ہیں۔

ڈاکٹر سحرش پیرزادہ بتاتی ہیں کہ دیہی معاشرے میں خواتین کو جانوروں سے بہت نفع ملتا ہے۔ ان سے دودھ، مکھن اور دیسی گھی حاصل کر کے فروخت کرتی ہیں، اس کے علاوہ عید قرباں کے لیے بکروں کو تیار کرتی ہیں اس سے بھی انھیں آمدنی ہوتی ہے جو گھر چلانے میں بھی معاون ثابت ہوتی ہیں۔

سندھ میں وٹرنری ڈاکٹرز کی قلت

سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں سرکاری اور نجی شعبے کی وٹرنری یونیورسٹیاں اور کالج واقع ہیں جہاں سے ہر سال سینکڑوں طالب علم فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔

پاکستان وٹرنری میڈیکل ایسو سی ایشین کے سابق صدر ڈاکٹر بخشل تھلو کے مطابق صوبہ سندھ میں سرکاری وٹرنری ڈاکٹروں کی 450 سیٹیں ہیں جن پر صرف 314 ڈاکٹر موجود ہیں۔ جبکہ دوسری جانب صوبے میں دو ہزار وٹرنری ڈاکٹر بیروزگار ہیں۔

سحرش پیرزادہ کا کہنا ہے کہ اُن کی پرائیوٹ پریکٹس تو جاری ہے لیکن اگر سرکاری ملازمت ہو تو زندگی میں غیر یقینی کی صورتحال نہیں ہوتی۔ ’دوسرا یہ بھی ہے کہ اگر سرکاری ڈاکٹر نہ ہو تو لوگ یقین ہی نہیں کرتے کہ یہ بھی ڈاکٹر ہے۔‘

اب جانوروں سے ڈر نہیں لگتا

ڈاکٹر سحرش گھریلو مال مویشی کے علاوہ نجی فارم ہاؤسز میں اونٹوں، بارہ سنگھوں وغیرہ کا بھی علاج کرتی ہیں۔ بقول اُن کے شروع شروع میں انھیں جانوروں سے ڈر لگتا تھا مگر جیسے جیسے وہ فیلڈ میں آئیں تو ڈر ختم ہوتا گیا۔

’جانور بھی انسانوں کی طرح پیار کے طلبگار ہوتے ہیں۔ اگر ہم انھیں پیار کریں گے، اُن کے جسم کو سہلائیں گے تو وہ اپنا پن محسوس کرتے ہیں۔ اگر کوئی سیدھا جا کر جانور کا معائنہ اور انجیکشن لگانے کی کوشش کرتا ہے تو جانور غصے میں آ جاتے ہیں۔‘

ڈاکٹر سحرش بتاتی ہیں کہ وہ جانوروں کے دودھ کے ٹیسٹ کے علاوہ فیمیل جانوروں میں مصنوعی بیج رکھنے اور اُن کے حمل ٹیسٹ بھی کرتی ہیں جو ایک دشوار مرحلہ ہوتا ہے۔

ڈاکٹر

خواتین معاشی طور پر مضبوط ہونی چاہییں

ڈاکٹر سحرش پیرزداہ کو اپنے بھائیوں کی سپورٹ حاصل ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اُن کے بھائیوں کی خواہش ہے کہ خواتین معاشی طور پر مستحکم ہوں اور لائیو اسٹاک اس کا اہم ذریعہ بن سکتا ہے۔

’میں صرف جانوروں کا علاج ہی نہیں کرتی بلکہ خواتین کو شعور اور آگاہی بھی فراہم کرتی ہوں کہ جانوروں کا خیال کیسے رکھا جائے، انھیں کون سی فیڈ کھلائی جائے اور بیماریوں سے کیسے محفوظ رکھا جائے۔‘

نوابشاہ کے سینیئر وٹرنری ڈاکٹر اعجاز لغاری کہتے ہیں کہ پانی کی قلت کی وجہ سے پاکستان بھر میں زراعت کا شعبہ متاثر ہو رہا ہے۔ اس کے متبادل کے طور پر خواتین گھروں میں بکریاں پالتی ہیں جو ہر 6 ماہ کے بعد کم از کم دو بچے دیتی ہیں، اس کے علاوہ خواتین بھینسیں بھی پال رہی ہیں جس سے گھر کا خرچہ اچھا چل جاتا ہے۔

اعجاز لغاری کہتے ہیں کہ ’اس فیلڈ میں خواتین وٹرنری ڈاکٹرز کی ضرورت نہیں بلکہ اشد ضرورت ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp