افغانستان، پاکستان بارڈر بندش: چند ماہ کا افغان بچہ جو والدین کے بغیر علاج کے لیے افغانستان سے پاکستان پہنچ گیا

عزیز اللہ خان - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور


افغان

‘طورخم بارڈر پر سرحد عبور کرنے کے لیے بہت انتظار کیا، وہاں تعینات اہلکاروں کی منتیں کیں لیکن چونکہ سرحد بند تھی اس لیے کسی کو اسے عبور کرنے کی اجازت نہیں تھی‘ (فائل فوٹو)

’اپنے چار ماہ کے سخت بیمار بچے کو ایک انجان ٹرک ڈرائیور کے ساتھ پاکستان روانہ کرتے ہوئے میں اس کشمکش میں مبتلا تھی کہ نہ جانے میرے بچے کے ساتھ کیا ہو گا؟ پاکستان میں علاج ہو پائے گا یا نہیں؟ سارا دن یہی باتیں سوچتی رہی کہ آخر کیا ہو گا۔‘

یہ وہ خیالات تھے جو افغانستان میں ایک ماں کے ذہن میں اس وقت گردش کر رہے تھے جب وہ اپنے بیمار بچے کو پاکستان، افغانستان سرحد پر طورخم کے مقام پر لائی تھیں۔

طالبان جنگجوؤں اور افغان فورسز کے درمیان جاری لڑائی کے دوران سرحد کی بندش کی وجہ سے اس بچے کے والدین کو سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی، مگر دوسری جانب بچے کی حالت نازک تھی اور اسے فی الفور علاج کی ضرورت تھی۔

بہت سے افغان شہری بہتر علاج معالجے کی غرض سے پاکستان علاج کروانے کے لیے آتے ہیں مگر افغانستان میں جاری کشیدگی اور اس کے باعث سرحدوں کی بندش نے ایسے خاندانوں کے لیے مسائل کو جنم دیا ہے۔

افغان خاتون نے بی بی سی کو بتایا کہ ’طورخم بارڈر پر سرحد عبور کرنے کے لیے بہت انتظار کیا، وہاں تعینات اہلکاروں کی منتیں کیں لیکن چونکہ سرحد بند تھی اس لیے کسی کو اسے عبور کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس سلسلے میں ہماری تمام تر کوششیں اور منت سماجت کارگر ثابت نہیں ہو رہی تھیں۔‘

دوسری جانب درد سے بلبلاتے بچے کو دیکھ کر اس کی والدہ اضطراب کا شکار تھیں اور وہ ہر حال میں بچے کو کسی معالج تک پہنچانا چاہتی تھیں۔

انھوں نے بتایا کہ ماضی میں بھی ان کا ایک بچہ اسی طرح بیمار ہوا اور بہتر علاج نہ ہونے کے باعث افغان شہر جلال آباد کے ایک ہسپتال میں وفات پا گیا تھا۔ بچے کے والدین کو دوبارہ اسی طرح کے خدشات لاحق تھے۔

چار ماہ کا بچہ افغانستان سے پاکستان کیسے پہنچا؟

پاکستان-افغانستان، سرحد، طورخم

’ماضی میں بھی ان کا ایک بچہ اسی طرح بیمار ہوا اور بہتر علاج نہ ہونے کے باعث افغان شہر جلال آباد کے ایک ہسپتال میں وفات پا گیا تھا‘

جلال آباد میں چند روز قبل بچے کی بیماری اور اس کی بگڑی حالت دیکھ کر ماں باپ نے یہی فیصلہ کیا کہ بچے کو ہر صورت علاج کے لیے پاکستان کے شہر پشاور پہنچانا ہو گا۔

جلال آباد اور پشاور کے درمیان قریب 130 کلومیٹر کا فیصلہ ہے جو عام حالات میں چند گھنٹوں میں طے ہو جاتا ہے۔

بچے کے والد امیر جان افغانستان کے صوبہ ننگرھار کے رہنے والے ہیں۔ امیر جان نے بتایا کہ ان کا ایک بیٹا اسی طرح چار ماہ کی عمر میں بیمار ہوا تھا اور پھر فوت ہو گیا تھا۔

’جب یہ بیٹا بھی بالکل اُسی طرح بیمار ہو گیا تو میری اہلیہ کے ذہن میں مختلف خیالات گردش کرنا شروع ہو گئے۔‘

امیر جان نے بتایا کہ افغانستان میں ان کے بیٹے کو سخت بخار تھا جو کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔

وہ بچے کو جلال آباد ہسپتال لے گئے لیکن اس کی صحت میں کوئی بہتری نہیں ہوئی۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جلال آباد میں ڈاکٹروں نے کہا کہ بچے کو پاکستان لے جائیں، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ موجودہ حالات میں پاکستان کا سفر مشکل تھا کیونکہ دونوں جانب سے سرحد بالکل بند تھی۔‘

’میری اہلیہ اور میں یہی سوچتے رہے تھے کہ نہ جانے اب کیا ہو گا۔ ایک انجانہ خوف ذہن میں تھا۔ اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہم نے یہی فیصلہ کیا کہ بچے کو پاکستان بھیج دیتے ہیں۔ اللہ نے چاہا تو صحتیاب ہو جائے گا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’میں سرحد پر مزدوری کرتا ہوں۔ میرے ساتھ باقی ساتھی بھی ہیں۔ ان میں کچھ ٹرک ڈرائیور ہیں جو پاکستان آتے جاتے ہیں۔

’میں نے ایک ساتھی مزدور سے درخواست کی کہ میرا بیٹا سخت بیمار ہے، افغانستان میں اس کا علاج نہیں ہو رہا، کوئی طریقہ بتاؤ کہ ہم پاکستان جا سکیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

’طالبان میرے شہر آئے تو مجھے مار دیں گے‘

افغانستان کی بادشاہت سے جمہوریت بننے کی کہانی

’شوہر کی موت کا بدلہ لینے کے لیے مبینہ قاتل سے شادی‘

وہ بتاتے ہیں کہ ایک دوست ڈھونڈا گیا جو پاکستان جا رہا تھا۔

’ہمارے لیے یہ ایک مشکل فیصلہ تھا کیونکہ ماں باپ کے بغیر بچے کو کسی ٹرک ڈرائیور کے ہمراہ دوسرے ملک بھیجنا اور ایسی حالت میں جبکہ بچہ سخت بیمار ہو، بہت ہی مشکل فیصلہ تھا۔‘

امیر جان

بچے کے والد امیر جان کے مطابق وہ اور ان کی اہلیہ اپنے بیمار بیٹے کو سرحد پار پشاور کے کسی ہسپتال پہنچانا چاہتے تھے

امیر جان بتاتے ہیں کہ انھیں بچے کے ساتھ اپنی اہلیہ کی بھی فکر ہو رہی تھی۔ ’وہ پریشان تھیں، اس کے ذہن میں کشمکش جاری تھی اور وہ یہی کہتی تھی کہ پتا نہیں کیا ہو گا۔ بچہ خیریت سے پاکستان پہنچ جائے گا اور کیا بچے کا علاج وہاں ہو سکے گا یا نہیں۔ پتا نہیں ڈاکٹر کیا کہیں گے۔‘

وہ یاد کرتے ہیں کہ ’یہ ایسے سوالات تھے جو میری بیوی بار بار مجھ سے پوچھ رہی تھی۔‘

مگر پاکستان سے موصول ہونے والی ایک فون کال کے بعد دونوں کی جان میں جان آئی۔

جب بچہ ہسپتال پہنچ گیا اور علاج شروع ہوا تو اس ساتھی نے فون پر بتایا کہ ’بچہ اب ٹھیک ہے اور علاج شروع ہو گیا ہے۔ اسے پشاور میں حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں بچوں کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل کیا گیا۔‘

انھیں بتایا گیا کہ ’بچے کا سب بہت خیال رکھ رہے ہیں اور تمام ادویات فراہم کی جا رہی ہیں۔‘

چند ماہ کا بچہ صحیح سلامت پشاور تو پہنچ گیا مگر اب مسئلہ یہ تھا کہ ماں کے قریب نہ ہونے سے وہ پریشان تھا۔ پھر کسی نے یہ تمام معاملہ سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا اور لکھا کہ ہسپتال میں بچے کی دیکھ بھال میں مشکل پیش آ رہی ہے کیونکہ بچے کے پیمپرز بھی تبدیل کرنا ہوتے ہیں، اسے دودھ پلانا ہوتا ہے اور یہ کہ بچے کو ماں کی یاد آ رہی ہے۔

فیس بک پر ایک پوسٹ میں کہا گیا کہ ’بچہ بار بار آنکھیں کھول کر اپنی ماں کو تلاش کرتا ہے۔‘

سوشل میڈیا پر یہ خبر ایسی وائرل ہوئی کہ لوگوں کے دلوں میں بھی بچے اور ماں کے لیے ہمدردی پیدا ہوئی اور اس پر پاکستانی حکومت نے ایکشن بھی لیا۔

مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے اس پر ایکشن لیا اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی معید یوسف سے رابطہ کیا تاکہ بچے کے والدین کو پاکستان آنے کی اجازت دی جائے۔ معید یوسف کے رابطے کے بعد بچے کے والدین دو روز قبل پشاور پہنچے ہیں۔

امیر جان نے بتایا کہ ’گذشتہ روز ہمیں فون کال موصول ہوئی کہ کیا آپ پاکستان آنا چاہتے ہیں؟ ہم اور کیا چاہتے تھے، بس ہم نے کہا ’ہاں‘۔ تو بتایا گیا کہ بس آپ سرحد پر آ جائیں۔‘ اور وہاں سے ہمیں سرحد عبور کر کے پاکستان آنے کی اجازت دے دی گئی۔’

مزید پڑھیے

چمن کے بازاروں اور قبروں پر افغان طالبان کے جھنڈے کیوں لہرانے لگے؟

چمن سے متصل افغان علاقے میں طالبان کی موجودگی: ‘بابِ دوستی’ سے آمد و رفت بند

افغانستان کے کون سے حصے طالبان کے کنٹرول میں ہیں اور کہاں قبضے کے لیے لڑائی جاری ہے؟

’اس فون کال سے ہمیں جو خوشی ملی ہے وہ بیان نہیں کر سکتے۔‘

ہسپتال میں ماں اپنے بچے کی خدمت میں ایسی مصروف ہیں کہ وہ کسی سے بات بھی نہیں کرنا چاہتیں۔

حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے ڈاکٹروں کے مطابق بچے کی حالت بہتر ہے اور اسے ایک دو روز میں ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا جائے گا۔

افغان شہریوں کے لیے پشاور کے ہسپتالوں کی اہمیت

ہسپتال میں موجود ڈاکٹروں نے بتایا کہ افغانستان سے یہ کوئی ایک مریض نہیں جو اس طرح پاکستان پہنچا ہے بلکہ روزانہ کی بنیاد پر درجنوں افغان مریض آتے ہیں۔

حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے ترجمان توحید ذوالفقار نے بی بی سی کو بتایا کہ افغانستان سے بڑی تعداد میں مریض علاج کے لیے یہاں آتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت بھی دیگر وارڈز میں افغانستان سے آئے مریض داخل ہیں اور انھیں مکمل طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔

’اس بچے کو بھی جب لایا گیا تو ہسپتال میں موجود ڈاکٹروں اور عملے نے اس کا مکمل خیال رکھا اور مکمل طبی امداد فراہم کی گئی۔‘

افغانستان سے مریض صرف حیات آباد میڈیکل کمپلیکس ہی نہیں بلکہ پشاور میں قائم دیگر ہسپتال جیسے خیبر ٹیچنگ ہسپتال، لیڈی ریڈنگ ہسپتال اور دیگر نجی ہسپتالوں میں پہنچتے ہیں۔

سرحد کی بندش کی وجہ سے اگرچہ ان کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود ایک بڑی تعداد میں افغانستان سے آئے مریض ان ہسپتالوں میں داخل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32553 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp