امریکہ میں فوجی اڈہ افغان جنگ میں مدد کرنے والوں کی میزبانی کے لیے تیار


ایک امریکی فوجی افغان مترجم کے ساتھ مشن پر موجود ہے (فائل فوٹو: 2014، رائٹرز)
ویب ڈیسک — امریکہ نے افغان جنگ کے دوران افواج کی مدد کرنے والے افغان باشندوں کو افغانستان سے امریکہ لانے کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔ خصوصی ویزے پر آنے والے افغانستان کے ان شہریوں کو ابتدائی طور پر واشنگٹن کے جنوب میں واقع فوجی اڈے پر ٹھہرایا جائے گا۔

امریکہ کے محکمۂ خارجہ اور پینٹاگون کے عہدیداروں نے پیر کو بتایا ہے کہ لگ بھگ 2500 افغان شہریوں کو افغانستان سے لانے کے عمل کا آغاز رواں ماہ پروازوں کی آمد و رفت شروع ہونے پر کیا جائے گا اور انہیں ورجینیا میں موجود فوجی اڈے فورٹ لی لایا جائے گا۔

فورٹ لی، افغانستان سے اسپیشل امیگرنٹ ویزا پر آنے والوں کی پہلی منزل ہو گی۔ یہ اڈہ ملک کے اندر امریکی فوج کا تیسرا سب سے بڑا تربیتی مرکز ہے اور یہ 27 ہزار کے قریب فوجیوں کا گھر ہے۔

افغانستان کے جن شہریوں کے گروپ کو امریکہ لایا جا رہا ہے ان میں 700 مترجم اور ان کے اہلِ خانہ کے علاوہ دیگر افراد شامل ہیں۔ انہیں اس وقت تک فوجی اڈے پر رکھا جائے گا جب تک وہ امریکہ میں دیگر مقامات پر آباد نہیں ہو جاتے۔

امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ تمام افغان شہری اسپیشل امیگرنٹ ویزا کے پول میں شامل ہیں اور ان کا امیگریشن کا عمل مکمل ہونے کو ہے۔

ان کے بقول، “یہ بہادر افغان شہری اور ان کے اہلِ خانہ ہیں۔ جن افراد کی امریکہ کے لیے خدمات کی کابل میں امریکی سفارت خانے نے تصدیق کی ہے اور جو اسپیشل امیگرنٹ ویزا میں چھان بین کے عمل سے گزر گئے ہیں، انہیں امریکہ لایا جا رہا ہے۔”

پینٹاگون کے عہدیداروں نے کہا ہے کہ وہ توقع رکھتے ہیں کہ افغانستان کے شہری مرحلہ وار امریکہ پہنچیں گے جس سے عہدیداروں کو ان کے ویزے کا عمل مکمل کرنے اور انہیں آگے روانہ کرنے کا وقت ملے گا۔

امریکہ داخل ہونے کے بعد ویزہ رکھنے والے افغان شہری 90 دن تک آباد کاری سے متعلق سہولیات کے حصول کے اہل ہوں گے جن میں کھانے پینے، لباس اور گھر کے فرنیچر وغیرہ کی سہولت شامل ہے۔

پینٹاگون کے پریس سیکریٹری جان کربی نے پیر کو صحافیوں کو بتایا کہ افغان شہریوں اور ان کے اہلِ خانہ کا ویزہ حتمی مراحل میں ہے اور انہیں زیادہ وقت فوجی تنصیب پر رکھنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔

حکام نے گزشتہ ہفتے بتایا تھا کہ ان کا ہدف ہے کہ 18 ہزار کے قریب افغان شہریوں کو اگست کے آخر تک امریکہ لایا جائے۔ اس عمل کو ‘آپریشن الائیز ریفیوج’ یعنی اتحادیوں کو پناہ دینے کا آپریشن کا نام دیا گیا ہے۔

ایسے میں جب افغانستان کے شہریوں کے پہلے گروپ کو فورٹ لی لایا جائے گا، امریکی محکمۂ دفاع نے بتایا ہے کہ امریکہ کے اندر دیگر فوجی تنصیبات بھی ہیں جنہیں ضرورت پڑنے پر اس مقصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

جان کربی نے کہا کہ فورٹ لی پہلی تنصیب ہے جس کی منظوری دی گئی ہے۔ ان کے بقول یہ ممکن ہے کہ افغانستان کے شہریوں کی آمد کی رفتار کو دیکھتے ہوئے دیگر تنصیبات بھی استعمال کی جائیں۔ البتہ اس کا انحصار آنے والوں کی تعداد نہیں بلکہ اس بات پر ہے کہ وہ کس تیز رفتاری سے امریکہ پہنچ رہے ہیں اور ان کو ٹھہرانے کی ہماری استعداد کیا ہے۔

افغانستان کے مزید چار ہزار شہری جو اسپیشل امیگریشن ویزہ کے لیے درخواستیں دے چکے ہیں، دیگر ممالک جا سکتے ہیں جب تک کہ ان کی ویزہ درخواستوں کا عمل مکمل نہیں ہو جاتا۔

محکمۂ دفاع کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ایسے مقامات پر بھی غور کیا جا رہا ہے جو امریکہ میں موجود نہیں۔ اس سلسلے میں وسط ایشیائی ممالک سے بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں جن میں کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان جیسے ممالک شامل ہیں۔ اور ان سے افغانستان کے امریکہ کے بعد از انخلا امکانات پر بات چیت ہو رہی ہے۔

ڈیموکریٹ سینیٹر جینی شاہین نے اس اعلان کا خیر مقدم کیا ہے کہ 2500 افغان شہری جلد فورٹ لی کے لیے روانہ ہو جائیں گے۔

ان کے بقول وہ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے ہمارے شراکت داروں کے تحفظ کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات پر اطمینان محسوس کر رہی ہیں۔

یاد رہے کہ جینی شاہین امریکہ کی مدد کرنے والے افغان شہریوں کے لیے خصوصی امیگرینٹس ویزوں کی تعداد بڑھانے کے لیے قانون سازی کے لیے متحرک رہی ہیں۔

(یہ رپورٹ وائس آف امریکہ کے لیے نائیک چن اور جیف سیلڈن نے فائل کی اور اس اسٹوری کے لیے اسٹیو ہرمن نے بھی معلومات فراہم کی ہیں۔)

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments